اپوزیشن فرضی کرپشن کے قصے سنا کر
سرمایہ کاری کی راہیں بند کر رہی ہے: اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن فرضی کرپشن کے قصے سنا کر سرمایہ کاری کی راہیں بند کر رہی ہے‘‘ حالانکہ یہاں اصلی کرپشن کے قصے ہی اس قدر موجود ہیں کہ فرضی قصوں کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے اور اس طرح اپوزیشن محض اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہی ہے جبکہ وقت کا ضیاع ایک قومی نقصان کی حیثیت رکھتا ہے جس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے اور اس غلطی کی وجہ سے اصلی کرپشن اپنی جگہ پر موجود بلکہ پھلتی پھولتی رہتی ہے اور فرضی کرپشن کا بول بالا ہوتا رہتا ہے اس لیے اپوزیشن کے لیے ضروری ہے کہ اس ضمن میں اپنی پالیسی تبدیل کر کے اسے درست کرے۔ آپ اگلے روز اپٹما کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب کر رہے تھے۔
شریف خاندان نے ملک کو دونوں
ہاتھوں سے لوٹا: فواد چودھری
سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''شریف خاندان نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا‘‘ حالانکہ یہ کام ایک ہاتھ سے بھی کیا جا سکتا تھا کیونکہ دو ہاتھ اسی لیے ہوتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے کام کیا جائے اور دوسرے کو آرام کرنے کا موقع دیا جائے جبکہ ایسے کاموں کے لیے بائیں ہاتھ کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ہر مشکل کام بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے‘ اس لیے ہم نے ہمیشہ ایک ہاتھ سے کام لیا ہے اور دوسرے کو کسی بہتر کام کے لیے بچا کر رکھا ہے اور کافی سہولت میں رہے ہیں‘ اسی لیے دونوں بڑے سیاسی خاندانوں سے ہماری گزارش ہے کہ ایک ہاتھ کا کام ایک ہی ہاتھ سے کیا کریں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ہم پر مُفت میں کیس بنتے رہے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم پر مُفت میں کیس بنتے رہے‘‘ کیونکہ مخالفین کا خیال ہے کہ اثاثوں، جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس سمیت جو کچھ بھی ہے وہ مفت میں ملا ہے حالانکہ یہ قدرت کی خاص دین ہے اور کوئی قدرت کے کاموں کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، نیز جو چیز بھی قدرت کی جانب سے عطا کی جائے‘ اس کا حساب رکھا جاتا ہے نہ اس کی منی ٹریل دی جا سکتی ہے اس لیے منی ٹریل دینے کا سوال ہی غلط تھا اور غلط سوالوں کا جواب بھی غلط ہی دیا جا سکتا ہے اسی لیے ہم پر مفت میں کیس بنتے رہے اور اپنی دریا دلی کے سبب مخالفین پر بنائے گئے کیسز پر ان سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا گیا اور ان پر بھی مفت میں ہی کیس بنائے گئے۔ آپ اگلے روز لندن میں وفاقی وزیر سالک حسین سے گفتگو کر رہے تھے۔
الزامات لگانا، سیاسی مخالفین کا چہرہ داغدار
کرنا رواج بن چکا ہے: راجہ پرویز اشرف
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''الزامات لگانا، سیاسی مخالفین کا چہرہ داغدار کرنا رواج بن چکاہے‘‘ اس لیے روایات و رسومات کی وجہ سے ہی یہ کام جاری رکھا جاتا ہے کیونکہ اپنی روایات سے قطع تعلق کرنا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے، نیز جملہ حضرات پر چونکہ پہلے ہی کافی الزامات ہوتے ہیں اس لیے مزید الزام لگانا مناسب نہیں ہے اور جو لوگ خال خال بچے ہوئے ہیں اور جن پر کوئی الزام نہیں ہے‘ ان پر الزام تراشی کی مشق کی جا سکتی ہے تاکہ سب ایک جیسے ہو جائیں اور یک رنگی کی صورت حال پیدا ہو سکے جبکہ مساوات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سب کا رنگ ایک ہی ہو۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ماڈلنگ کی دنیا میں مقام بنانا آسان نہیں: روما مائیکل
ماڈل و اداکارہ روما مائیکل نے کہا ہے کہ ''ماڈلنگ کی دنیا میں مقام بنانا آسان نہیں‘‘ اور اگر یہ آسان ہوتا تو میں اب تک اس میں اپنا مقام بنا چکی ہوتی لیکن میں آسان کاموں میں پڑی رہی اور سارے مشکل کام دھرے کے دھرے رہ گئے جیسا کہ اتحادیوں نے آسان سمجھ کر اقتدار سنبھالا تھا لیکن اب انہیں لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں، اس لیے ہم سب کو موجودہ حکومت سے ہی کچھ سبق حاصل کر لینا چاہیے اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشکل کام واقعی مشکل ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے جبکہ آسان کام کا فیصلہ چٹکیوں میں کر لیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک جریدے کے لیے فوٹو شوٹ کرا رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں عامر سہیل کی شاعری:
غزل
نا چُگ چُگ کرناں مار کُڑے
توں الفوں سوہنی نار کُڑے
توں حمد رِڑکدی ویہڑے وچ
توں فجراں دی گھمکار کُڑے
آ بانہواں وچ، آ ساہواں وچ
توں فرصت دا اتوار کُڑے
توں بھر دی فجر گلاساں وچ
توں کافی، توں اخبار کُڑے
ہن سانبھاں، تینوں کنبدی نوں
میں سانبھ لئی، دستار کُڑے
کت بھانبڑ، برف دی ڈلیے نی
توں کُڑتے وچ انگار کُڑے
ایہہ بھاجڑ کُفر، مسیتے دی
ایہہ کُچھڑ چڑھیا بھار کُڑے
توں لال سمندر، شوہ اندر
توں دریا وچ، توں پار کُڑے
آج کا مقطع
جب سے دیکھا ہے ظفرؔ خوابِ شبستان خیال
بسترِ خاک پہ سونا ہوا دشوار مجھے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved