کوئی بھی کام کیوں کیا جاتا ہے؟ کسی نہ کسی مقصد کے تحت اور کسی نہ کسی نتیجے کے لیے۔ بالکل درست! آپ کو پہلے مرحلے میں طے کرنا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں اُس کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ مقصد طے کیے بغیر کیے جانے والے کام انسان کو بسا اوقات مطلوب نتائج نہیں دے پاتے اور یوں کچھ پاکر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ حاصل ہی نہیں ہوا۔ یہ کوئی انوکھا احساس نہیں۔ کم و بیش ہر انسان کو یہ طے کرنا چاہیے کہ اُس کی زندگی کا بنیادی مقصد کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے۔ ہر انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اُس کی زندگی بامقصد ہونی چاہیے۔
کامیابی کا مدار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انسان بظاہر نیک نیتی اور غیر معمولی محنت کے باوجود ہار جاتا ہے۔ اِسے آپ قسمت بھی کہہ سکتے ہیں اور آزمائش بھی۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اَن تھک محنت کے بعد باوجود ناکام رہنے کی صورت میں اپنے مقدر کو کوسنے لگتے ہیں۔ یہ غلط طرزِ فکر و عمل ہے کیونکہ ہمارا کام محنت کرنا ہے‘ وہ بھی خالص نیک نیتی کے ساتھ۔ نتائج کیا ہونے چاہئیں یہ طے کرنا قدرت کا کام ہے۔ نتائج کے حوالے سے اپنے مالک و حقیقی کی مرضی اور منشا پر پورا بھروسا رکھنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اُنہیں اپنے کسی بھی عمل کا مطلوب و مقصود نتیجہ برآمد نہ ہونے پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہوا‘ اُسی میں ہمارے رب نے ہمارے لیے کوئی بھلائی رکھی ہو گی۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
ہمارا کام ہے کام کرتے رہنا۔ محنت کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ کسی بھی کام کو ڈھنگ سے کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو اُس میں پوری طرح کھپا دیا جائے، اس میں پوری دلچسپی لی جائے اور معیار کی بلندی کا بھرپور خیال رکھا جائے۔ اِسی صورت کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کو کس چیز پر توجہ دینی چاہیے؛ مقصد پر یا نتیجے پر؟ اِس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ ہم نتائج میں الجھے رہتے ہیں اور مقصد بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ عمومی سطح پر رہتے ہوئے سوچنے کا ایسا ہی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف اور صرف (بلند تر) مقصد پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ زندگی کی بنیاد مقصد پر ہے۔ قدرت نے ہمیں کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہی زندگی جیسی نعمت بخشی ہے۔ ایسے میں مقصد کو اولیت نہ دینا اپنے وجود سے زیادتی ہے۔ ہمارے لیے بھلائی اِس بات میں رکھی گئی ہے کہ زندگی کسی خاص مقصد کے تحت بسر کی جائے۔ بامقصد زندگی ہمارے وجود کا حسن بڑھاتی ہے، ہماری شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے، فکر و عمل کو تازگی سے ہم کنار رکھتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مقصد کیا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے نزدیک زندگی بہت سے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔ مقصد سے عمومی سطح پر وہ سب کچھ مراد ہے جو ہم اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یہ محدود سوچ ہے۔ ایسی محدود سوچ پورے وجود کو محدود کردیتی ہے۔ ذاتی مفاد کی تکمیل یقینی بنانے کی خاطر جو کچھ کیا جاتا ہے اُسے ہم مقصد کا درجہ دے کر خوش ہو رہتے ہیں۔ اِس محدود سوچ سے بہت آگے بڑھ کر ہر وہ معاملہ مقصد ہے جس میں صرف ہمارا مفاد مضمر نہ ہو بلکہ دوسروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ سوچا گیا ہو۔ حقیقی مقصد وہی ہے جس میں سب کی بھلائی کا پہلو پایا جاتا ہو۔ یہی ہمارے رب کی مرضی ہے۔ ہمارا رب ہم سے یہی چاہتا ہے کہ ہم صرف اپنا بھلا نہ سوچیں بلکہ متعلقین کے حوالے سے بھی فکر مند ہوں۔
کسی بھی انسان کے لیے بہترین طرزِ فکر یہ ہے کہ جب عمل کی دنیا میں قدم رکھے تو مقصد پر نظر رکھے نہ کہ نتائج پر۔ جب ہم کوئی بھی کام کسی مقصد کے تحت کرتے ہیں تو کامیابی کا مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم کسی طور اپنے آپ کو سیدھے راستے پر گامزن رکھیں۔ سیدھا راستہ؟ یعنی اپنے لیے راحت اور دوسروں کے لیے سہولت۔ کوئی بھی کام اُسی وقت اچھا کام قرار دیا جاسکتا ہے جب اُس کی مدد سے کسی اور کو بھی کچھ نہ کچھ حاصل ہو۔
کسی بھی کام کو محض نتائج کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی مقصد کے تحت بھی۔ یہ تو انسان کے اپنے انتخاب کا معاملہ ہے۔ قدرت نے ہم پر اس معاملے میں کوئی جبر نہیں کیا۔ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں‘ کسی بھی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی راہ پر گامزن ہونے کے نتیجے میں ہمیں کیا حاصل ہوگا یہ بھی ہمیں ہی سوچنا ہے۔ اگر صرف ہماری ذات مستفید ہوتی ہو تو اچھی بات ہے لیکن اگر دوسروں کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہو اور ہمارا مفاد متاثر نہ ہوتا ہو تب تو اور بھی اچھی بات ہے۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ انسان محض نتائج کو نہ دیکھے بلکہ مقصد کو ترجیح دے۔ مقصد کے تحت کچھ کرنے سے اپنے ساتھ ساتھ اوروں کا بھی بھلا ہوتا ہے اور یوں ماحول بہتر ہوتا جاتا ہے۔
ہم زندگی بھر محنت کرتے ہیں۔ کمانے کے لیے بھی محنت ناگزیر ہے اور نام کمانے کے لیے بھی۔ زندگی کو معنی خیز اور مفید بنانے کے لیے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ محنت خوب سوچ سمجھ کر کی جائے۔ سوچ سمجھ کر کی جانے والی محنت مطلوب نتائج سے بڑھ کر بہت کچھ دیتی ہے۔ زندگی کا حسن بہت حد تک اس حقیقت میں مضمر ہے کہ انسان جو کچھ بھی کرے اُس کا کوئی نہ کوئی بلند مقصد ہو۔ محض گزارے کی سطح یقینی بنانے کے لیے کی جانے والی محنت انسان کو کچھ زیادہ نہیں دے سکتی۔ محنت کرنے کا حقیقی لطف اِس حقیقت میں ہے کہ انسان بدیہی اور مطلوب نتائج سے زیادہ کا سوچے۔ کوئی بھی کام اُسی وقت مطلوب نتائج سے بھی بڑھ کرکچھ دے سکتا ہے جب ہم اپنے مقصد پر نظر رکھیں، وقت کے کسی بھی موڑ پر اُسے ذہن سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ نتیجہ کبھی کچھ زیادہ نہیں دیتا، جو دیتا ہے وہ مقصد ہے۔ مقصد سے محبت کیجیے، اُسے زیادہ سے زیادہ دل کش اور جامع بنانے کی کوشش کیجیے، اُس پر توجہ مرکوز رکھیے، اُسی کا حصول یقینی بنانے کی کوشش کیجیے۔
کسی بھی مقصد سے حقیقی محبت اُسی وقت کی جاسکتی ہے جب اُس کا تعین سوچ سمجھ کر، اپنی ترجیحات اور مزاج کے جھکاؤ کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔ انسان جس کام سے محبت کرتا ہے اُسی کو مقصد میں تبدیل کرے تو بات بنتی ہے۔ آپ جتنے بھی کامیاب افراد کو دیکھتے ہیں اُن کی واضح اکثریت ہر حال میں صرف اُس کام کے کرنے کو ترجیح دیتی ہے جس سے اسے پیار ہو۔ جو کچھ دل و دماغ کو راس آئے، بھلا لگے صرف اُسی میں زیادہ دلچسپی لینے کی صورت میں بات بنتی ہے، محنت میں جی لگتا ہے۔ انسان کو اپنے پسندیدہ ترین کام کی خاطر زیادہ محنت کرنا کبھی نہیں کَھلتا۔ اگر بچپن سے ذہن تیار کیا گیا ہو اور تربیت دی گئی ہو تو انسان کو وہ کام بھی بہت اچھا لگتا ہے جس سے دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ ملتا ہو۔
انسان چاہے تو دولت کے لیے بھی محنت کرسکتا ہے اور شہرت کے لیے بھی۔ ایسا چاہنے میں کوئی بُرائی نہیں مگر ہاں‘ صرف دولت اور شہرت کے لیے محنت کرنا درست نہیں۔ مقصد بلند تر ہونا چاہیے۔ دل و دماغ میں وسعت ہو تو انسان کا وجود زیادہ بارآور ثابت ہوتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہماری محنت صرف ہمیں مستفید نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی بہت کچھ دے۔ ہماری مساعی بامقصد ہونی چاہئیں۔ زیادہ اور متواتر محنت سے دولت اور شہرت مل ہی جاتی ہے‘انہیں ہمیشہ ثانوی ہی رکھنا چاہیے۔
ایک دنیا ہمارے خیالوں میں آباد ہے۔ دوسری اور حقیقی دنیا وہ ہے جس میں ہم آباد ہیں۔ اس حقیقی دنیا کا اصول یہ ہے کہ بامقصد محنت کے نتیجے میں زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر لوگ صرف ذاتی مفاد کی حد تک محدود رہتے ہیں۔ یہ سطحی زندگی ہمیں کچھ خاص نہیں دے سکتی ہے۔ جینے کا اصل مزہ تب ہے جب ہم متعلقین کا بھی بھلا سوچیں۔ زندگی محض سانسوں کا تسلسل نہیں بلکہ بہت وسیع اور ہمہ گیر تجربے کا نام ہے۔ مقصد ذہن نشین رہنا چاہیے‘ محض نتیجہ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved