عمران خان صاحب نے نئے سپہ سالار سے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ 'امر بالمعروف‘ پر چلیں گے۔ یہ'امر بالمعروف‘ کیا ہے؟
ایک تو وہی 'اسلامی ٹچ‘ کی نفسیات ہے۔ اپنی باتوں کو دینی و مذہبی لغت میں بیان کرو۔ لوگ آپ کو دین دار سمجھیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن مذہبی جماعتوں کا ان اصطلاحوں پہ اجارہ تھا‘ وہ ان سے دست بردار ہو چکیں۔ ان کی سیاسی لغت اب ایک حد تک ہی مذہبی ہے۔ ریاستِ مدینہ‘ مرشد‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر؛ یہ خان صاحب کی پسندیدہ اصطلاحیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نئے سپہ سالار بھی انہی اصطلاحوں میں سوچیں۔ جدید مسلم مفکرین نے‘ جنہوں نے عصری سیاسی حرکیات کو دین کی روشنی میں سمجھا ہے‘ قدیم اصطلاحوں کے استعمال سے ممکن حد تک گریز کیا ہے۔ انہوں نے نئی اصطلاحات وضع کیں یا پھر متداول اصطلاحوں کو اختیار کر لیا۔ ان صاحبانِ علم میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سب سے نمایاں ہیں۔ انہوں نے 'خلافت‘ کے تصور کو 'اسلامی ریاست‘ کے عنوان سے بدل دیا۔
'ریاست‘ کو سمجھنا جدید ذہن کے لیے مشکل نہیں تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے لٹریچر میں یہ بتایا کہ ''عدلیہ دورِ جدید میں وہی ادارہ ہے جو اسلامی عہد میں 'قضاء‘ کہلاتا تھا۔ ''مقننہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں کی قدیم اصطلاح میں 'اہل الحل والعقد‘ کہا جاتا ہے۔ انتظامیہ وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں 'اولی الامر‘ اور حدیث میں 'امراء‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں‘‘۔ مولانا مودودی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ان اداروں کی ہیٔت میں کچھ غیر اسلامی نہیں۔ یہ ادارے اس وقت اسلامی ہو جاتے ہیں جب وہ قرآن و سنت کے پابند ہوتے ہیں۔
یہ اصطلاحیں نہیں ہیں جو کسی عمل کو اسلامی بناتی ہیں۔ یہ انسانی کردار ہے جو انہیں اعتبار دیتا ہے۔ 'خلافت‘ کوئی دینی اصطلاح نہیں۔ اسے حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسوں نے اعتبار بخشا اور یہ 'خلافتِ راشدہ‘ بن گئی۔ ورنہ خلافتِ راشدہ کے بعد جو حکومتیں قائم تھیں وہ بھی 'خلافت‘ ہی کہلاتی ہیں۔ اس خلافت کے حصول کے لیے جس طرح مسلمانوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا‘ اس کے بعد اسے کوئی دینی تشخص دینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ طالبان نے آج 'امارت‘ کی اصطلاح اختیار کر لی۔ ان کے خیال میں یہ مسلم ریاست کا اسلامی نام ہے۔ خلافت عالمگیر ہوتی ہے اور امارت مقامی۔ عمران خان صاحب نے سپہ سالار کو آئین کے بجائے 'امر بالمعروف‘ پر چلنے کا کیوں کہا؟ کیا یہ بھی ایک عصری اصطلاح کو 'اسلامی ٹچ‘ دینے کی کوشش ہے؟ اگر یہ دونوں 'عدلیہ‘ اور 'قضا‘ کی طرح ہم معنی اور متبادل اصطلاحیں ہوتیں تو اس امکان کو تسلیم کیا جا سکتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے جس میں ریاست اور عوام کے باہمی حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ ریاست کے تمام اداروں کے حدود و اختیارات کا بیان ہے اور اسی کی کوکھ سے وہ قوانین جنم لیتے ہیں جن سے ریاست کا نظم چلتا ہے۔
'امر بالمعروف‘ ایک مختلف اصطلاح ہے۔ 'امر‘ میں ترغیب و حکم دونوں شامل ہیں۔ 'معروف‘ سے مراد وہ اخلاقی قدریں ہیں جن پر عالمِ انسانیت کا اتفاق ہے اور اسلام بھی جنہیں قبول کرتا ہے۔ 'امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ مسلم تہذیب کا اساسی پتھر ہے۔ اسلام باہمی تعلقات کو جن خطوط پر استوار کرتا ہے‘ اس میں ایک دوسرے کو اچھائی کی ترغیب دینا اور برائی سے منع کرنا بھی شامل ہے۔ یہ ترغیب اور تنبیہ کے درجے کی چیز ہے۔ اس کے لیے ریاست کوئی قانون سازی کرتی ہے تو پھر یہ حکم بن جاتا ہے جس سے انکار قابلِ تعزیر جرم ہوتا ہے۔
اس لیے 'امر بالمعروف‘ کسی طور 'آئین‘ کا متبادل نہیں۔ پھر یہ کہ عمران خان صاحب کبھی بھی اس کے قائل نہیں رہے کہ سپہ سالار کو آئین کا پابند ہونا چاہیے۔ بطور وزیراعظم‘ آرمی چیف سے ان کا ہمیشہ مطالبہ یہ رہا ہے کہ وہ سچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ سچ ان کے خیال میں وہی ہے جو ان کی زبانِ حق ترجمان سے صادر ہو تا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ 'معروف‘ ہی کا امر دیتے ہیں۔ اگر سپہ سالار نے اس سے انکار کیا تو گویا وہ 'امر بالمعروف‘ پر نہیں چلے۔ آئین اور معروف‘ لہٰذا دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ 'آئین‘ کو کوئی حکم ممکن ہے کہ آپ کے نزدیک معروف پر مبنی نہ ہو۔ آپ کے نزدیک وہ ظلم ہو یاکسی حق تلفی پر منتج ہوتا ہو۔ اگر آپ آئین کے بجائے معروف کی اتباع کے پابند ہیں تو پھر آپ آئین کو نہیں مانیں گے۔ اب 'معروف‘ کی تعریف چونکہ کسی کتاب میں نہیں لکھی‘ اس لیے آپ خود ہی اس کا تعین کریں گے کہ معروف کیا ہے اور اس کے مطابق اقدام کر یں گے۔
وزیراعظم نواز شریف صاحب نے سپہ سالار پرویز مشرف صاحب کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا۔ ان کا یہ اقدام آئینی طور پر درست تھا۔ مشرف صاحب کے نزدیک یہ خلافِ معروف تھا۔ وہ اسے اپنی حق تلفی سمجھے۔حق تلفی کیسے تھی‘اس کا فیصلہ بھی خود انہوں ہی نے کیا۔ اس مثال سے یقیناً یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ آئین اورمعروف میں کیا فرق ہے؟ خان صاحب نے اپنے تازہ ارشاد میں در اصل اپنے پرانے مؤقف کو دہرایا ہے کہ فوج کے سربراہ کو آئین کے بجائے 'معروف‘ کا اتباع کرنا چاہیے۔ اور معروف وہی ہے جس کو وہ اپنی عقل و فراست کے مطابق درست سمجھے یا جسے کوئی 'اللہ والا‘ معروف قرار دے۔ یہ ایک خطرناک نظریہ ہے جس کا ناگزیر نتیجہ آئین شکنی کو جواز فراہم کرنا ہے۔
پھریہ بات اپنی جگہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آئین اور حلف کی پابندی‘ معروف کا تقاضا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا کہ جس کا کوئی عہد نہیں‘ اس کا کوئی ایمان نہیں۔ حلف ایک عہد ہے جو آپ ریاست کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس میں آپ خدا کو حاضر و ناظر جان کر اقرار کرتے ہیں کہ آپ آئین کی پاسداری کریں گے۔ اس لیے جو اس آئین کو توڑے گا‘ وہ دراصل معروف کی بھی خلاف ورزی کرے گا۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ عمران خان صاحب دراصل یہی بات کہنا چاہ رہے تھے۔ وہ معروف اور آئین کو ایک معنی میں لے رہے تھے۔ اس تاویل کو قبول کرنے میں دو رکاوٹیں ہیں۔ خان صاحب ایک سیاستدان ہیں۔ ایک سیاسی اصطلاح 'آئین‘ کی موجودگی میں انہیں 'امر بالمعروف‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیوں نہیں کیا کہ آرمی چیف 'آئین‘ کی پابندی کریں گے؟ دوسرا یہ کہ وہ آج بھی فوج کے سپہ سالار سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو ختم کرے اور انتخابات کرائے۔ سپہ سالار آئین کے تحت تو یہ نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر چاہے تو 'امر بالمعروف‘ کے تحت وہ اس کا اہتمام کر سکتا ہے۔
پاکستان میں اسلامی اصطلاحوں کی آڑ میں لاقانونیت اور آئین شکنی کو جائز قرار دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے وجود اور جماعتی انتخابات کو غیر اسلامی کہا گیا۔ پارلیمنٹ کو 'مجلس شوریٰ‘ سے بدلنے کی کوشش کی گئی جس کا انتخاب عوام نہیں‘ خلیفہ وقت کرتا ہے۔ اس لیے سیاسی قیادت پر لازم ہے کہ وہ ایسے ابہامات کا ازالہ کرے۔ اہلِ دانش کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی باتوں کا نوٹس لیں۔
یہ حق صرف آئین کو حاصل ہے کہ وہ طے کرے کیا معروف ہے اورکیا منکر۔ اسے کسی فرد کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ صدر‘ وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ سپہ سالار سب آئین میں دیے گئے معروف و منکر کے پابند ہیں۔سپہ سالار کو آئین کے بجائے ا مر بالمعروف کا پابند بنانا ایک خطرناک رجحا ن ہے جس کی حساسیت کو نظر انداز کرنا خطر ناک ہو سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved