پاک افغان تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک کے مشترکہ ثقافتی اور تجارتی روابط کی بنا پر برسوں تک دو طرفہ آمد ورفت ویزہ اور قانونی دستاویزات کے بغیر ہوتی رہی ہے‘ حتیٰ کہ نائن الیون کے بعد جب دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا تب بھی ویزہ اور دستاویزات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان آئے‘ جن کی بڑی تعداد اب بھی پاکستان میں موجود ہے۔ افغانستان کی سرحد سے جب پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا تو پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا فیصلہ کیا جس پر فروری 2017 ء کو عملی طور پر کام شروع ہو گیا۔ سرحد پر باڑ لگانے کا کام آسان نہیں تھا کیونکہ خیبرپختونخوا میں پاک افغان سرحد 1100 کلو میٹر طویل ہے اور بلوچستان میں 1268کلو میٹر۔ خطیر لاگت کے ساتھ ساتھ منصوبے کی تکمیل کے لیے برسوں درکار تھے مگر اس کے باوجود پاکستان نے اس کٹھن سفر کا آغاز کیا اور بہت قلیل مدت میں پاک افغان بارڈر کے 80فیصد سے زائد حصے پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ چند حوالوں سے آسان نہ تھا۔ ایک یہ کہ پاک افغان سرحد دشوار گزار گھاٹیوں‘ جنگلات اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ دوسرا یہ کہ باڑ لگانے کے لیے بھاری بجٹ درکار تھا جس کا تخمینہ 60کروڑ ڈالر لگایا گیا جبکہ سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا پاکستانی فیصلہ افغان قیادت کو ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ افغان قیادت اور عوام جس طرح صدیوں سے بغیر پاسپورٹ‘ ویزہ اور قانونی دستاویزات کے پاکستان آ جا رہے تھے‘ اس سہولت کے ختم ہو جانے کو ہضم کرنے کے لیے تیار نہ تھے کیونکہ غیرقانونی آمد و رفت سے ان کے لیے مصنوعات کی سمگلنگ کافی آسان تھی‘ اس لیے افغانوں کی اکثریت نے باڑ لگانے کے فیصلے کی مخالفت شروع کر دی اور آئے روز باڑ لگانے والے عملے پر حملوں کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ باڑ اکھاڑنے کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔
پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانا اگرچہ دونوں ممالک کی ضرورت ہے مگر اس ضمن میں عملی اقدامات صرف پاکستان نے کیے۔ جب افغان باشندوں کے لیے پاکستان آمد پر ویزہ کی شرط عائد کی گئی تو یہ بھی انہیں قبول نہیں تھی اور آئے روز پاک افغان بارڈر پر نئے نئے تنازعات سامنے آنے لگے۔ پاکستانی سفارتی عملے کی جانب سے جب ادھوری دستاویزات کو مسترد کیا جاتا ہے تو افغان باشندے اس طرزِعمل پر احتجاج کرتے ہیں اور دستاویزات مکمل کرنے کے بجائے اصرار کرتے ہیں کہ انہیں دستیاب دستاویزات کے ساتھ ہی پاکستان جانے کی اجازت دی جائے۔ پاکستانی سفارتی عملہ اس ضمن میں اُنہیں کوئی رعایت نہیں دے سکتا کیونکہ افغان باشندوں کے لیے ویزہ کی شرط لازمی قرارد دی گئی ہے۔ بارڈر پر ویزہ پالیسی کا نفاذ تو سختی سے ہو رہا ہے مگر چیکنگ کا نظام ناقص ہے۔ لوگ اپنی فیملی کے ساتھ گھنٹوں انتظار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ سامان سے بھرے ٹرکوں کی آمد و رفت کے لیے بھی کافی پیچیدہ نظام ہے۔ بسا اوقات ٹرکوں میں موجود سامان خراب ہو جاتا ہے مگر انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ملتی ہے‘ جس کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جانا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق پاک افغان بارڈر کے علاوہ اب بھی متعدد چور دروازے یا خفیہ راستے موجود ہیں جہاں سے رات کے اندھیرے میں دونوں طرف آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ باڑ لگانے کے بعد سرحد پار سے حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ مذکورہ سطور پڑھنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ چمن بارڈر سے ملحقہ شہری آبادی پر افغان فورسز کی فائرنگ کے پیچھے کیا عوامل ہیں۔ اتوار کے روز چمن بارڈر پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ کی تفصیلات یہ ہیں کہ افغانستان سے کچھ افراد نامکمل دستاویزات کے ساتھ پاکستان داخل ہونا چاہتے تھے‘ پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں کے روکنے پر افغان فورسز مشتعل ہو گئیں اور فائرنگ شروع کر دی حتیٰ کہ افغان فورسز کی جانب سے توپ خانے‘ مارٹر گولوں اور بھاری اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ شہری آبادی پر اندھا دھند فائرنگ سے چھ پاکستانی شہید جبکہ 17 زخمی ہو گئے۔ اس ناخوشگوار واقعے کے بعد چمن بارڈر پر ہر طرح کی سرگرمیوں کو معطل کر دیا گیا۔ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھی بھرپور جواب دیا گیا۔ پاکستان نے اب صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر افغان حکام سے رابطہ کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رواں سال 15 اپریل سے اب تک پاک افغان سرحدی پٹی پر متعدد ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اکتوبر میں چمن سرحد پر باڑ کے معاملے پر پاک افغان فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی‘ اسی ماہ پاک افغان سرحد پر در اندازی کے دوران ایک صوبیدار شہید ہوا جبکہ نومبر اور دسمبر میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کابل میں تعینات پاکستان کے ناظم الامور کو بھی پچھلے دنوں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
پاک افغان سرحد پر شدت پسندانہ کارروائیوں اور افغانستان سے دراندازی کے واقعات میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر نے اپریل میں افغانستان کا دورہ کیا تھا اور وہاں چائے نوش کرتے ہوئے ان کی تصویر وائرل ہوئی تھی‘ جس کے بعد پاکستان مخالف لابی کو اُس افسر کی افغانستان میں موجودگی ہضم نہیں ہوئی تھی۔ اب پھر سے افغانستان میں کچھ شدت پسند تنظیموں اور بھارت کو‘ جو افغانستان میں اپنی سرگرمیاں ترک کر چکا تھا‘ دوبارہ سرگرم ہونے کا موقع مل چکا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان میں ایک حلقے کی جانب سے اُس افغان دورے پر سیاسی کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئی‘ اس کے برعکس افغانستان میں اس دورے پر مختلف ردِعمل سامنے آیا‘ جس کے بعد پاکستان میں سکیورٹی خدشات بڑھنے لگے۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھارت کو افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے میں مشکلات کا سامنا تھا مگر اس دورے کے بعد بھارت نے ایک مرتبہ پھر پراکسی وار شروع کر دی ہے۔ اب افغانستان ایک بار پھر سکیورٹی اور سفارتی حوالے سے پاکستان کے لیے ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے مگر اب غلطیوں کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ ہمیں افغان سرحد پر شدید سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماضی میں خارجہ پالیسی میں جو غلطیاں ہوچکی ہیں‘ اب ان سے گریز کی ضرورت ہے۔ اس بات کا ادراک بھی کیا جانا چاہیے کہ افغانستان کے حالات اب طالبان کے قابو میں نہیں ہیں‘ انہیں اندرونی طور پر بیک وقت کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ معاشی صورتحال ان کے قابو میں نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کے اپنے معاشی حالات ناسازگار ہیں تو افغانستان کا بوجھ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہمیں اپنے داخلی مسائل پر توجہ دینی چاہیے‘ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فائدہ بھی اسی صورت ہوگا جب دونوں ممالک میں مکمل اعتماد اور بھائی چارہ قائم ہوگا کیونکہ مستحکم افغانستان پاکستان کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں اب بھی بہت سی پراکسیز موجود ہیں‘ جن سے نبرد آزما ہونا اسی صورت ممکن ہے جب دونوں ملکوں کے مابین اعتماد کی فضا قائم ہو گی۔ حالیہ ناخوشگوار واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دوطرفہ قیام امن کیلئے جس اعتماد سازی کی ضرورت ہے‘ ابھی اس کا فقدان ہے۔ افغانستان سے دہشت گردی کے متعدد واقعات کے باوجود پاکستان نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن یہ یکطرفہ اقدام ہے‘ افغانستان کو بھی ایسے ہی تحمل کا مظاہرہ اور شدت پسندوں کا خاتمہ کرنا ہوگا‘ ورنہ اس بدامنی کی بھاری قیمت دونوں ممالک کو چکانا پڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved