تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     14-12-2022

کراچی کا دلربا دسمبر

کراچی میں دسمبر کا مہینہ اپنے موسم کے لحاظ سے ایک خوبصورت مہینہ ہے۔ سردی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ہوا میں بہار کے رنگ سمندر کو چھو کر آتی ہواؤں سے اور بھی نکھر جاتے ہیں۔ کراچی سے میرا تعلق دیرینہ ہے جب میں 1996ء میں یہاں آیا تھا اور آغا خان یونیورسٹی میں ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ میرا گھر ملیر کینٹ میں تھا۔ کراچی کا موسم میرے لیے با لکل نیا تھا۔ مہینوں گزر جاتے اور بارش نہ ہوتی۔لیکن جب مینہ برستا تو جل تھل ہو جاتا۔ سڑکوں پر پانی کی سطح اتنی بلند ہوتی کہ گاڑیاں کشتیاں بن جاتیں۔ مجھے کراچی کی شامیں کبھی نہیں بھولیں گی جب سمندر کی نم ہوائیں چلتیں اور ہوا میں بہار کے رنگ کھل جاتے۔ کراچی میں میرے بہت سے نئے دوست بنے۔ انہی میں ایک واصف رضوی تھا۔ واصف ان دنوں AKESP میں ہوتا تھا۔ کبھی کبھار اس سے ملاقات ہوتی اور ہر بار میرا یہ تاثر گہرا ہوتا کہ وہ چیزوں کو ایک مختلف زوایے سے دیکھتا ہے۔ چیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنا صرف گفتگو کی حد تک نہیں بلکہ وہ اپنے نظریات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا ہے اور ان کی عملی صورت گری چاہتا ہے۔ ہم اکثر ملتے اور سوشل تھیوری کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے۔ ان محفلوں میں مجھے یہ تاثر ملا کہ وہ کچھ مختلف اور کچھ بڑا کرنا چاہتا ہے اوربعد میں ایسا ہی ہوا جب واصف نے حبیب یونیورسٹی کا تصور پیش کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ یونیورسٹی پاکستان میں معیار کی علامت بن گئی۔ تین برس یوں بیتے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ میں واپس لاہور آگیا اور کراچی سے رابطہ منقطع ہو گیا لیکن کراچی کے دوست‘ کراچی کی شامیں اور کراچی کا سمندر میرے دل میں دھڑکتے رہتے۔
اس دسمبر کے پہلے ہفتے میں کراچی کا پروگرام بنا تو سارے چہرے روشن ہو گئے۔ کراچی جانا ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ یارِ عزیز شکیل الرحمن کے ہاں دعوت پر سارے دوست اکٹھے نہ ہوں۔ میں جس روز کراچی پہنچا عالمی اُردو کانفرنس کا آغاز ہو چکا تھا اور اگلے روز کانفرنس کا تیسرا دن تھا۔ یہ کانفرنس آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہوتی ہے اور اس کے روحِ رواں احمد شاہ صاحب ہیں۔کہتے ہیں ادارے اہم ہوتے ہیں لیکن میرا خیال ہے اداروں کے سربراہ اتنے ہی اہم ہوتے ہیں۔ ایک وژنری اور متحرک سربراہ کسی بھی ادارے میں جان ڈال دیتا ہے۔ احمد شاہ کو ہی دیکھ لیں جس کی سربراہی میں آرٹس کونسل ایک انتہائی فعال ادارہ بن گیا ہے جس کے تحت تواتر سے مختلف ایونٹس منعقد کرائے جاتے ہیں اور اس کی عالمی اردو کانفرنس تو اب ملکی سطح پر ایک مثال بن گئی ہے۔ اس بار بھی یہ کانفرنس روایتی جوش و خروش سے منعقد ہوئی جو چار روز پر محیط تھی۔ ہر دن مختلف اوبی اور سماجی موضوعات پر سیشنز آرگنائز کیے گئے‘ کتابوں کی رونمائی کا اہتمام کیا گیا تھا اور پھر ایک مشاعرہ جس میں کثیر تعداد میں شہریوں نے شرکت کی اور ملک بھر سے آئے ہوئے شعرا نے اپنا کلام سنایا۔
اردو کانفرنس کی خاص بات تعلیم کے حوالے سے ایک سیشن تھا جس کا موضوع تھا ''پاکستان میں تعلیم کی صورتحال‘‘۔ احمد شاہ صاحب نے مجھے اس سیشن میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ تعلیم سے لوگوں کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ آرٹس کونسل کا ہال مکمل بھرا ہوا تھا۔ اس سیشن کی نظامت معروف دانشور جناب جعفر احمد نے کی اور سیشن میں میرے علاوہ آغا خان یونیورسٹی کی انجم ہلالی اور معروف نقاد محترم ناصر عباس نیّر بھی تھے۔ سیشن میں تعلیمی بجٹ‘ تعلیمی پالیسیوں‘ تعلیم میں سماجی تفریق اور احباب کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ مختلف ہالز میں سیشنز ہو رہے تھے اور باہر کھلی جگہ پر کتابوں کی نمائش جاری تھی۔ یہ انتہائی خوش کن مناظر تھے۔ اُس رات یارِ عزیز شکیل الرحمن کے گھر دعوت تھی جس میں شکیل عادل زادہ‘ سہیل وڑائچ اور معروف گلوکار سلمان علوی بھی شریک تھے۔وہ کراچی کے دسمبر کی دلربا رات تھی اور وسیع ڈرائنگ روم میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ایسے میں غزل کے معروف گلوکار سلمان علوی نے انور شعور کی ایک غزل گا کر سنائی۔ سلمان علوی کی خوبصورت دھن اور گائیکی نے انور شعور کی غزل کو چار چاند لگا دیے۔ کتابوں اور لکھاریوں کی باتیں ہو رہی تھیں۔ معروف ناول نگار عبداللہ حسین کی بات چل نکلی تو سہیل وڑائچ صاحب نے بتایا کہ وہ ڈائری لکھتے تھے اور یوں زندگی کی حقیقتوں کو اپنی کہانیوں کا حصہ بناتے تھے۔ معروف ناول نگار شوکت صدیقی کا بھی یہی معاملہ تھا وہ بھی اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات کا ریکارڈ رکھتے تھے اور خوبصورتی سے اپنے فکشن میں ان کا استعمال کرتے تھے۔ شکیل عادل زادہ صاحب نے بتایا کہ وہ ان کے گھر کے برابر والی گلی میں رہتے تھے۔ سب رنگ میں لکھنے کیلئے جب شوکت صدیقی صاحب سے رابطہ کیا گیا تو وہ کچھ ہچکچائے کیونکہ ادب کا کسی ڈائجسٹ میں شائع ہونا کچھ عجیب سا تھا لیکن سب رنگ عام ڈائجسٹ نہ تھا۔ شکیل عادل زادہ نے اصرار جاری رکھا اور آخر شوکت صدیقی صاحب کو ہاں کرنا پڑی۔ یوں سب رنگ میں ''جانگلوس ـ‘‘ کا آغاز ہوا جو بعد میں ایک ضخیم ناول کی شکل میں شائع ہوا۔ شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ ایک قسط کا معاوضہ تین ہزار روپے طے ہوا۔ یہ رقم سن کر میں نے سہیل وڑائچ صاحب کو دیکھا‘ ہمارے ذہن میں ایک ہی بات آئی کہ ان دنوں گریڈ سترہ میں کالج لیکچرر کے طور پر ہماری تنخواہ تقریباً اتنی ہی ہوتی تھی۔ سب رنگ کی اشاعت بند ہوئے ایک مدت ہو گئی ہے۔بک کارنر کے گگن شاہد اور امر شاہد کا بھلا ہو کہ انہوں نے سب رنگ کی کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا منصوبہ بنایا اور اب اس سلسلے کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ کتابوں کا ذکر چلا تو سہیل وڑائچ نے 'دنیا اخبار‘ میں شائع ہونے والے میرے کالمز کے مجموعے ''پوٹھوہار: خطۂ دل ربا‘‘ کے حوالے سے کہا کہ اس کتاب نے پوٹھوہار کے وہ رنگ اُجاگر کیے ہیں جو اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔ باتیں جاری تھیں کہ ہمارے میزبان نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے۔ ہم دوسرے کمرے میں ایک لمبی میز کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آج کھانے میں روایتی نہاری نہیں تھی‘ کراچی کے سمندر کی مچھلی اور پران تھے۔ ان کے ساتھ باربی کیو اور سپیشل چکن کڑاہی تھی۔ شکیل الرحمن ہمیشہ کی طرف ہمارے ساتھ نہیں بیٹھے۔ گھومتے پھرتے ہر ایک کے پاس جا کر حقِ میزبانی ادا کرتے رہے۔ خدا کرے ان کے گھر کی برکتیں قائم رہیں۔ رات گئے ہم وہاں سے نکلے اور میں ہوٹل کے کمرے میں آکر سو گیا۔ اگلے روز صبح واصف رضوی سے ملنا تھا۔ واصف ایک روز پہلے ہی بیرونِ ملک کے دورے سے واپس آیا تھا۔میں جب بھی واصف سے ملتا ہوں تازہ خیالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ غالبؔ واصف کا پسندیدہ شاعر ہے اس کی مشکل پسند طبیعت کا انتخاب غالب ہی ہونا چاہیے۔ ایک گھنٹے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ آج ہی مجھے کراچی سے حیدر آباد جانا ہے لیکن اس سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی محترمہ راحیلہ بقائی نے چائے پر بلایا تھا۔ واصف رضوی کے گھر سے راحیلہ بقائی کے گھر کا فاصلہ زیادہ نہیں۔ راحیلہ کا گھر ایک خوبصورت کالونی میں واقع ہے۔ کل پندرہ‘ بیس گھر ہوں گے ایک ہی طرح کے بنے ہوئے اور سکیورٹی کا خاص اہتمام ہے۔ راحیلہ بقائی ایک طویل عرصے سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے وابستہ ہیں اور کراچی اور لاہور میں ادبی میلوں کی روحِ رواں ہیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے آئندہ منصوبوں کے بارے میں بتاتی رہیں۔ راحیلہ کے گھر سے باہر نکلا تو دسمبر کی نرم دلربا دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کراچی کا دسمبر یوں بھی خوبصورت ہوتا ہے لیکن اُس روز ایک مدت کے بعد دوستوں سے مل کر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ دسمبر اور بھی سہانا ہو گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved