جہاں اخلاقیات بے گور وکفن ہو وہاں زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ وہاں ریاست‘ سیاست اور معیشت سے لے کر میرٹ اور گورننس سمیت سب تعفن زدہ کیوں نہ ہوں؟ مملکتِ خداداد کی فضا مکدر کیوں نہ ہو؟ جہاں سیاست تجارت ہو اور تجارت میں خسارے کا کھاتہ ہی کوئی نہ ہو‘ حکمرانوں کو مرچنٹ اور مرچنٹ کو حکمران بنتے دیر نہ لگتی ہو‘ تجارت ہر قیمت پر مال بنانے کے گرد گھومتی ہو تو مملکتِ خداداد کا منظر نامہ اور بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔ برادرِ محترم حسن نثار کے ساتھ اکثر گپ شپ مباحثے کی شکل اختیار کر جاتی ہے تو ان کی تان یہیں آکر ٹوٹتی ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقیات ہے‘ جس دن اخلاقیات بہتر ہوگئی تو اقتصادیات کو سنبھالا ملنا شروع ہو جائے گا۔ جب اخلاقی حالت ہی درست نہ ہو تو اقتصادی حالت کیونکر بہتر ہو سکتی ہے؟ جب حکمرانوں کے احکامات‘ پالیسیاں اور اقدامات سمیت عوام کو دستیاب اشیائے خورو نوش بھی خالص نہ ہوں اور ملاوٹ زدہ ہوں تو ملک کا بس اللہ ہی حافظ ہے۔ ملک کو کھانے والوں نے اس طرح کھایا ہے کہ پورے نظام کا پیندا ہی چاٹ گئے۔ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے سسٹم میں ایسے ایسے شارٹ کٹ لگائے ہیں کہ پورا سسٹم ہی شارٹ کرڈالاہے۔
عجب منظر نامہ ہے‘ سبھی جماعتیں حکمرانی کے برابر مزے لوٹنے کے باوجود ایک دوسرے کی اپوزیشن کرکے عوام کو بیوقوف بنانے میں مشغول ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ نہ کہیں حکومت نظر آرہی ہے‘ نہ ہی اس کی رِٹ۔ ایسی لوٹ مچی ہے کہ کچھ مت پوچھیں۔ اگر کسی کو نظر نہیں آرہا تو سمجھ لیجئے وہ کوئی عام آدمی نہیں ہے۔ وہ اس اندھیر نگری چوپٹ راج کاحصہ ہے یا سہولت کار۔ ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب پر گزشتہ چار برسوں میں ایسے ایسے تجربات کیے گئے ہیں کہ انتظامی ڈھانچہ محض ڈھانچہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔ جو صوبہ پولیس اور انتظامی سربراہان سے محروم اور ایڈہاک پر چل رہا ہو وہاں چین آف کمانڈ کا عالم کیا ہوگا؟ گزشتہ ادوار میں برابر ہاتھ رنگنے والے سرکاری بابوؤں کے ہاتھ آج بھی رنگین ہیں۔ اس سنگین صورتحال پر نوٹس لینے والے اپنا اپنا حصہ لے کر گورننس اور میرٹ کی نئی داستان رقم کررہے ہیں۔ تحریک انصاف نے اتنے چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل کیے ہیں کہ اب اس کے حلیف چودھری پرویز الٰہی کے لیے مستقل آئی جی اور چیف سیکرٹری تلاش کرنا محال ہوگیا ہے۔وزیروں اور مشیروں کی فوج کے علاوہ انتظامی افسران بھی بہتی گنگا میں ایسی ڈبکیاں لگا رہے ہیں کہ بھارتی فلم کا ایک گانا بے اختیار یاد آرہا ہے جس کے بول کچھ یوں تھے کہ ''رام تیری گنگا میلی ہوگئی‘ پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے‘‘۔
جہاں حکمرانوں کے احکامات خالص نہ ہوں وہاں ملاوٹ اور جعل سازی سمیت ہوسِ زر کے بھیانک اور دہلادینے والے واقعات عوام کا مقدر کیوں نہ بنیں۔ جہاں گدھوں‘ مینڈکوں‘ کتوں اور کچھوؤں سمیت نجانے کیسے کیسے مردار اور نجس جانوروں کے گوشت عوام کو کھلائے جاتے ہوں‘ مردہ مرغی کو ٹھنڈی مرغی کی برانڈنگ سے دیدہ دلیری سے فروخت کیا جاتا ہو‘ اور کارِ بد میں شریک سیاست اور تجارت کو عبادت قرار دیتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہ کرتے ہوں تو اخلاقیات کی گراوٹ ہوسِ زر کو مزید بڑھاوا کیوں نہ دے؟ یہ سارے گورکھ دھندے سلیمانی ٹوپی پہن کر نہیں سرعام اور دیدہ دلیری کے ساتھ نجانے کب سے جاری ہیں۔ اس سبھی کے اثرات عوام کے کردار و اخلاق پر بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔جہاں جان بچانے والی ادویات دستیاب نہ ہوں۔ مال بنانے والے مصنوعی قلت سے من مرضی کے دام وصول کرتے ہوں اور شیر خوار بچوں کی ضروری خوراک‘ دودھ بھی ملاوٹ سے پاک نہ ہو۔
تاجر تنظیموں کے پس منظر اور پیش منظر سے واقفانِ حال بخوبی آگاہ ہیں۔ ان تنظیموں کو کامیاب اور مؤثر بناکر حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ سیاستدانوں کی سہولت کاری کے عوض مخصوص لوگوں کو لمبا مال بنانے سے لے کر مقتدر حلقوں تک رسائی بھی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔ سہولت کاری سے کوئے اقتدار کا سفر طے کرنے والے نجانے کتنے کردار ایسے ہیں جن کا ماضی ان کی ہوشربا ترقی اور ٹھاٹ باٹ کا آج بھی منہ چڑاتا ہے۔ ہزاروں متمول اور نامی گرامی شرفا لاجواب ہیں کہ ان کی غیرمعمولی اور حیرت انگیز معاشی ترقی کا راز کیا ہے؟ کم مایہ بستی میں ان کے گھروں سے تیل نکلا تھا یا ہیرے جواہرات کی دیگ؟ گزشتہ تین چار دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسے ایسے ناقابلِ تردید اور چشم کشا حقائق سامنے آتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ کس نے منشیات کو تجارت بنایا۔ کس نے سونے اور دیگر قیمتی سامان کی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ کے دھندے میں دھن کمایا۔ واقفانِ حال سب کچھ جانتے ہیں۔
تحریک انصاف آج جس معیشت کو سنبھالا دینے کا مطالبہ کررہی ہے اس معیشت پر خود نجانے کیسے کیسے تجربات کرتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے اقتصادی چیمپئن اسد عمر ابتدائی اوورز میں رَن آؤٹ کر دیے گئے تھے۔ ان کے بلند بانگ دعوے اور اعلانات محض زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ اب یہ عالم ہے کہ اقتصادی اصلاحات اور معاشی انقلاب کی باتیں عوام کو نہ سمجھ آتی ہیں نہ ہی ان کو کوئی اعتبار رہا ہے۔ یہاں معاشی ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے کون سے ڈھیر نہیں لگے۔ دوسری طرف سلمان شہباز بھی خود ساختہ جلا وطنی ترک کرکے وطن لوٹ آئے ہیں اور آتے ہی عمران خان پر لفظی گولہ باری شروع کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ بھی اقتدار کے معرکے میں شامل ہوں گے۔ وطن عزیز کی عمر عزیز کا نصف صرف دو خاندانوں کی باریوں اور آنیوں جانیوں کی نذر ہو چکا ہے۔ اب اگلی نسل نئے ستم ڈھانے کے لیے تیار اور پر تول رہی ہے۔ نسل در نسل انہیں بھگتے بھگتے عوام ہلکان اور بے حال ہوتے جارہے ہیں۔ خدا خیر کرے اور ہماری آئندہ نسل کو اس نسل کے شوقِ حکمرانی سے محفوظ رکھے جو اقتدار سے باہر ہوں تو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لیتے ہیں اور اقتدار کے لیے حالات موافق ہوتے ہی وطن لوٹ آتے ہیں۔
اس بہتی گنگا نے کس کس کو سیراب کیا اور کس نے اس میں غوطے لگائے‘ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ غیر قانونی ذرائع سے کمایا کالا دھن سفید کرنے کے لیے محفوظ اور پوشیدہ سرمایہ کاری کہاں کہاں اور کیسے کی؟ اپنے آبائی علاقوں کو خیرباد کہہ کر پوش علاقوں میں سکونت اختیار کرنے والوں نے اپنی کلاس کیسے تبدیل کی؟ کالے دھن سے کاروبار اور فیکٹریاں کیسے لگائیں‘ اس کی تفصیل میں جائیں تو کیسی کیسی نامی گرامی شخصیات کے سبھی پول کھل سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں چوروں کو تحفظ دینے کے لیے ہمیشہ سے چور راستے موجود رہے ہیں۔ کالا دھن کمانے والے ہوں یا سرکاری وسائل کو بھنبھوڑ کر اپنی دنیا سنوارنے والے‘ یہ سبھی جتنے مرضی روپ دھار لیں‘ اپنی ترقی و خوشحالی کی جتنی چاہیں فرضی کہانیاں گھڑ ڈالیں‘ لوٹ مار سے محلات بناتے ہوئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ بہتر انصاف اور عدل کرنے والا ہے۔ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔ کیسے کیسے ہنر مندانِ آئین و سیاست بے نقاب اور پول کھلنے کے بعد اپنی پارسائی کا آج بھی ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ جب تک یہ آئین میں پیوند کاری‘ قانون میں نقب اور پالیسیوں کو خادم بنائے رکھیں گے‘ ان کے ڈھول پٹتے رہیں گے۔ یہ سبھی پکڑے جانے کے باوجود آزاد اور عوام اسیر ہی رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved