اشیا و خدمات کا اور ہمارا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ ہمیں قدم قدم پر اشیا و خدمات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے کسی نہ کسی شے یا کسی نہ کسی انسان کی خدمت درکار ہوتی ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ہمیں دوسروں سے مدد لینا پڑتی ہے اور بہت سی اشیا کو بروئے کار لانا ہی پڑتا ہے۔ ویسے یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوا جاسکتا ہے۔
کیا اشیا و خدمات سے مستفید ہونے سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ یہ انکار ہر وقت لازم نہیں۔ ہمیں کسی چیز کی ضرورت پڑے تو اُس سے مستفید ہونا ہی چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہمارا کام آسان ہو جاتا ہے اور کسی سے بلا ضرورت کچھ مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اور اگر کسی سے مدد لینا پڑے تو مدد لینے میں کچھ حرج نہیں۔ کسی کی خدمات سے استفادہ مفت بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی معاوضے کی بنیاد پر بھی۔ اگر معاوضہ ادا کرنا پڑے تو پھر کسی کی بھی خدمات سے مستفید ہونا منطقی طور پر بالکل درست ہے۔ اس معاملے میں اَنا کی کوئی گنجائش نہیں بالخصوص جھوٹی اَنا کی۔ اشیا و خدمات سے مستفید ہوتے رہنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم مرتے دم تک بہت کچھ استعمال بھی کرتے ہیں اور بہت سوں کی خدمات سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔ یوں ہمارے معمولات بھی درست رہتے ہیں اور زندگی کا معیار بھی کسی نہ کسی حد تک بلند ہوتا ہی ہے۔
دنیا بھر میں شخصی ارتقا کے ماہرین اِس نکتے پر بہت زور دیتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کمانا ضرور چاہیے؛ تاہم اشیا و خدمات کی غلامی اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا اس لیے ناگزیر ہے کہ اشیا و خدمات کی غلامی انسان کو محدود کردیتی ہے۔ ہر انسان میں صلاحیت اور سکت کا خزانہ بھرا ہوتا ہے۔ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانا اُسی وقت ممکن ہے جب ہماری توانائی ضائع ہو رہی ہو نہ انہماک۔ زندگی کا معیار اُسی وقت بلند کیا جاسکتا ہے جب انسان اپنے وجود سے انصاف کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اپنے وجود سے انصاف؟ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب انسان فضول اشیا اور لاحاصل خدمات میں الجھنے سے گریز کرتا ہے اور اپنے مقاصد کو ذہن نشین رکھتا ہے۔ یہی زندگی بسر کرنے اور اُس کا معیار بلند کرنے کا سب سے معیاری طریقہ ہے۔ وقت بھی ہمارے پاس کم ہے اور مادّی وسائل بھی۔ محدود مادّی وسائل کو لاحاصل خدمت اور لایعنی اشیا کی خریداری و حصول پر ضائع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ معقول طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں اُتنی ہی اشیا و خدمات رکھے جتنی لازم ہوں اور ڈھنگ سے جینے کے قابل ہونے میں مدد دیتی ہوں۔ کسی بھی گھر کی خوش حالی میں کلیدی کردار مزاج، کردار اور رجحان کا ہوتا ہے نہ کہ اشیا و خدمات کا۔ آپ ایسے بہت سے گھر دیکھیں گے جن میں دنیا بھر کی آسائشیں پائی جاتی ہیں مگر سکون برائے نام بھی نہیں ہوتا۔ رشتوں کی مضبوطی کا تعلق اشیا و خدمات سے بہرہ مند ہونے سے نہیں بلکہ آپس کی لگاوٹ اور محبت سے ہے۔ زندگی خلوص کی مدد سے بلندی کی طرف جاتی ہے نہ کہ محض اشیا و خدمات کا ڈھیر لگانے سے۔ یہی سبب ہے کہ کروڑوں کمانے والے بھی ناخوش رہتے ہیں اور محض گزارے کی سطح پر پر کمانے والے بھی دن رات مسرت و سرمستی کی لہروں میں بہتے چلے جاتے ہیں۔
ہمارے ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ ہماری سہولت کے لیے ہے نہ کہ ہمیں غلام بنانے کے لیے۔ انسان کو زیبا نہیں کہ اشیا و خدمات کا غلام ہو رہے۔ اشیا و خدمات غلام ہوتی ہیں نہ کہ آقا۔ اُن سے مستفید ہوکر ہم اپنے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور اُن کی غلامی اختیار کرنے سے ہمارے لیے پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ یہ بالکل فطری ہے کیونکہ اشیا و خدمات میں الجھ کر ہم اپنی صلاحیت و سکت پر متوجہ رہ پاتے ہیں نہ اُنہیں بروئے کار لانے کا ذہن بنا پاتے ہیں۔ ہم میں جو کچھ بھی ہے وہ اظہار چاہتا ہے۔ مؤثر اظہار اُسی وقت ممکن ہے جب ہم فضول یا غیر متعلق معاملات میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔ کسی بھی شے کا بلا ضرورت عادی ہو جانا ہماری شخصیت کو مکمل ہونے سے روکتا ہے۔ انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے مطلوب قوتِ ارادی اُسی وقت پیدا ہو پاتی ہے جب وہ بہت سی فضول اشیا و خدمات میں الجھا ہوا نہ ہو۔ یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ جب ہم اشیا و خدمات کی غلامی اختیار کرتے ہیں تب اُن سے محرومی ہمیں شدید کوفت سے دوچار کرتی ہے۔ ہم عمر کے مختلف مراحل میں مختلف اشیا و خدمات کے عادی ہو رہتے ہیں۔ یہ روش زندگی کو بالآخر محدود کرکے دم لیتی ہے۔ جو چیز ہماری عادت بن چکی ہو، مزاج میں داخل ہوگئی ہو‘ وہ اگر ہاتھ سے جاتی رہے تو اس کیفیت کو برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شعور کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ضرورت کی کسی بھی شے سے اُتنے ہی مستفید ہوں جتنا ہونا چاہیے تاکہ وہ ہماری زندگی میں بے جا دخل نہ دے۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت پڑتی ہے وہ ہمارے پاس ہونی چاہیے مگر اُسے بلا ضرورت استعمال کرنا دانش مندی نہیں۔ ایسی حالت میں ہم اپنے حصے کی توانائی اور وقت‘ دونوں ہی اثاثوں کو ضائع کرتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی چیز پاس ہو تو اُسے بلا ضرورت بھی بروئے کار لاتے رہتے ہیں اور پھر پریشان ہوتے ہیں۔
سادہ زندگی بسر کیجیے۔ سادگی کا مفہوم یہ ہے کہ غیر ضروری اشیا ہماری ذات اور گھریلو ماحول کا حصہ نہیں ہونی چاہئیں۔ بہت سی فضول اشیا ہماری توجہ منتشر کردیتی ہیں۔ ہم ایسے میں کچھ سیکھنے اور کر دکھانے کی صلاحیت و سکت اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتے۔ ہمارا گھریلو ماحول سادہ ہونا چاہیے تاکہ فضول اشیا ہماری توجہ منتشر نہ کریں اور ہم اپنے کیریئر، تعلقات اور رشتوں پر خاطر خواہ توجہ مرکوز رکھنے کے قابل ہوسکیں۔ اگر کوئی مالی آسودگی سے ہم کنار ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کچھ بھی خریدتا پھرے۔ بھرپور زندگی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان بہت کچھ خریدے اور گھر بھرلے۔ دل و دماغ کا سکون گھر کو طرح طرح کی اشیا یعنی آسائشات سے بھرلینے میں نہیں بلکہ سادہ اور آسان زندگی بسر کرنے میں ہے۔ ہمیں جو زندگی عطا کی گئی ہے وہ اِتنی طویل نہیں کہ ہم زمانے بھر کی اشیا و خدمات سے مستفید ہوتے پھریں۔ ایسا ممکن ہی نہیں! اپنے وقت اور توانائی کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہی ہمارے لیے فائدے کا سودا ہے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانے کی کوشش کیجیے کیونکہ زندگی کا اصل حسن کم اشیا کے ساتھ جینے میں ہے۔ ایسی حالت میں ذہن بکھرتا نہیں اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ بہت سی فضول اشیا و خدمات سے بہرہ مند ہونے اور مستفید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تو ذہن کو خواہ مخواہ کام پر لگائے رکھنے والا معاملہ ہوا۔
آج ہماری زندگی میں ایسی بہت سی اشیا ہیں جو ناگزیر ہیں۔ یہ اشیا کئی حوالوں سے ہمیں آسانیاں فراہم کرتی ہیں، زندگی کا معیار بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں تک تو بات درست ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی ناگزیر چیز کو کس حد تک ناگزیر ہونا چاہیے۔ سمارٹ فون ہی کو لیجیے۔ آج سمارٹ فون ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ اِس کے بغیر ڈھنگ سے جینا ممکن نہیں۔ بعض پیشہ ورانہ معاملات میں تو سمارٹ فون کے بغیر کام چلایا ہی نہیں جاسکتا۔ اِس کے باوجود ہم سمارٹ فون کے غلام ہوکر نہیں جی سکتے۔ ایسا کرنا اپنے وجود سے زیادتی کے مترادف ہوگا۔ آج ہم اپنے ماحول میں نئی نسل کو سمارٹ فون کی غلامی میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔ نوجوان سمارٹ فون کے غیر ضروری استعمال کے ذریعے اپنا کیریئر اور زندگی‘ دونوں داؤ پر لگارہے ہیں۔ اس قبیح رجحان پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو یہ سمجھایا جانا چاہیے کہ کسی بھی چیز کی غلامی اختیار کرنے میں صرف خسارہ ہاتھ لگے گا۔ ہمہ وقت آن لائن رہنے کا چسکا اب ایک بڑی ذہنی بیماری کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس سے بھرپور اور مکمل چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں ضبطِ نفس بنیادی مسئلہ ہے۔ سوچ بدلے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا۔ لازم ہے کہ انسان ہر وقت دنیا میں گم رہنے کے بجائے اپنے دل کی آواز بھی سُنے، باطن کو بھی اہم گردانے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved