معیشت میرا مو ضوع نہیں مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ میں معیشت کا موضوع ہوں۔ موضوع ہی نہیں‘ میں اس کا موکل ہوں۔ وہ ایک عامل کی طرح مجھے اپنی گرفت میں رکھتی ہے اور میری یہ مجال نہیں کہ خود کو آزاد کرا سکوں۔
مجھے بھوک لگتی ہے تو معیشت میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ روٹی پیسوں سے ملتی ہے۔ پیسے نہ ہوں تو روٹی میری دسترس میں نہیں۔ مجھے سردی لگتی ہے تو پھر وہی معیشت‘ لحاف ہو یا آگ‘ اس کے لیے پیسے چاہئیں۔ مجھے گرمی لگتی ہے تو میرا پہلا واسطہ معیشت سے پڑتا ہے۔ پنکھا چلانا ہے تو پیسے لاؤ۔ بجلی کا بل نہیں ادا کرو گے تو پنکھے کے پر حرکت نہیں کریں گے۔ میں بیمارہو جاؤں تو پھر معیشت سامنے ہے۔ ڈاکٹر کے کلینک کا دروازہ اور دوا کی بوتل کا ڈھکن نہیں کھلتا‘ جب تک کہ اس کے حضور میں پیسوں کا نذرانہ نہ پیش کیا جائے۔ اور ہاں اللہ نے مجھے بچے عطا کیے ہیں۔ انہیں خوراک ہی نہیں‘ تعلیم کی بھی ضرورت ہے۔ درسگاہ کا منتظم مجھ سے اسی وقت ہم کلام ہوتا ہے جب میری جیب میں پیسے ہوتے ہیں۔ قصہ کوتاہ‘ جب ہر کام کا تعلق پیسوں سے ہے تو میں معیشت کی گرفت سے کیسے نکل سکتا ہوں۔
پیسہ میری پہلی ضرورت ہے۔ معیشت میرا پہلاچیلنج ہے۔ یہ میرے مادی وجود کی بقا کا سوال ہے۔ مادی وجود ایک بڑی حقیقت ہے۔ میرا اخلاقی وجود ہو یا جمالیاتی‘ مادی وجود ہے تو اپنی موجودگی کا پتا دے سکتا ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر کوئی دوسرا وجود ثابت نہیں۔ اس وجود کو بقا کا چیلنج درپیش ہو تو اخلاقی وجودکا اثبات بے معنی ہو جاتا ہے۔ مذہب جو اخلاقیات کا سب سے بڑا نمائندہ ہے‘ اس کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ مادی وجود کی سلامتی خطرات میں گھر جائے توحرام حلال کی تمیز اٹھا دی جاتی ہے۔ حلال حرام کا تعلق اخلاقیات کے ساتھ ہے۔ گویا مذہب کا مقدمہ بھی یہی ہے کہ مادی وجود کی بقا مقدم ہے۔
ریاست قائم کرنے کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ معاشی مواقع تک ہر کسی کی رسائی ہو۔ مثالی صورت تو یہ ہے کہ یکساں رسائی ہو۔ انسان مگر صلاحیت میں برابر نہیں ہوتے۔ یوں ان کی یافت بھی ایک جیسی نہیں ہو سکتی؛ تاہم اس بات کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کوئی بنیادی ضرویات سے محروم نہ رہے۔ بنیادی ضرویات کیا ہیں: روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم‘ علاج‘ ترقی کے یکساںمواقع۔ روٹی سب پر مقدم ہے۔ ریاست اس کو جان لے تو اس کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں ہوتا کہ دریا کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے۔
روٹی نہ ہو تو انسان پر کیا گزرتی ہے؟ اللہ کا کرم رہا کہ اس سوال کا کبھی براہِ راست سامنا نہیں ہوا۔ مشاہدہ مگر یہ ہے کہ پھر ہر شے بے معنی ہو جاتی ہے۔ عزتِ نفس‘ رشتے‘ حلال و حرام کے تصورات‘ اخلاقیات کے درس۔ یہ کوئی نئی بات نہیں جو میری فکری دریافت ہے۔ دنیا بھر کا ادب‘ آرٹ‘ فلسفہ‘ صدیوں سے اس کو موضوع بناتا آیا ہے۔ اعلیٰ ترین تخلیقی کام اسی موضوع کے گرد گھومتا ہے۔
پہلی بار جب اس طرح کے لٹریچر سے پالا پڑا تو ذہنی و فکری ڈھانچہ اسے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ اشتراکیوں کا واویلا ہے جو انسان کو شکم کا بندہ بنا دینا چاہتے ہیں۔
دل کی آزادی شہنشائی‘ شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟
ہم یہ شعر سنتے اور سناتے رہے۔ بعد میں اسی شعر کے خالق کا خط بنام قائداعظم پڑھا تو معلوم ہوا کہ برصغیر کے مسلمان کا بڑا مسئلہ روٹی ہے۔ فکر وہی پنپنے والی ہے جو اس مسئلے کو حل کر دے۔ یہ اشتراکی فلسفہ نہیں‘ زندگی کی وہ برہنہ حقیقت ہے جس کا سامنا ہر کسی کو ہر لمحے کرنا پڑتا ہے۔ دل ایک زندہ مادی وجود ہی میں دھڑکتا ہے۔ وہی مر جائے تو دل زندہ نہیں رہتے۔
میرا احساس ہے کہ مسلم مفکرین نے اس مسئلے کی اہمیت کو تو سمجھا‘ اس کی مرکزیت سے انکار کیا۔ اشتراکیت کا ردِ عمل مانع ہوا کہ وہ اس کی مرکزیت کو قبول کرتے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ خود اس تجربے سے نہیں گزرے۔ علامہ اقبال کی نجی زندگی کو معاشی وسائل کی کمی نے متاثر کیا۔ شاید اسی وجہ سے انہیں اس کا ادارک ہوا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تو پٹھان کوٹ میں فاقے کاٹے۔ افلاس طویل عرصہ ان کا ہم رکاب رہا۔ اس کے باوصف‘ وہ اس کی مرکزیت کے قائل نہ ہو سکے۔
کیا یہ اشتراکیت کا ردِ عمل تھا؟ جماعت اسلامی نے اس کا بھی سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا کہ عوام نے ان کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو کیوں ترجیح دی؟ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ کیوں اتنا پُرکشش ہوا کہ سوشلزم کو کفر قرار دینے کے باوصف‘ مسلمانوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کے خیالات بھی اشتراکی تھے جنہیں عوام میں غیر معمولی پذیرائی ملی۔ اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے تھا کہ اسلام سے محبت رکھنے والے لوگ‘ اس سیاسی قیادت کی طرف کیوں لپکتے ہیں جو ان کے معاشی مسئلے کو موضوع بناتی ہے؟
پاکستان کی معیشت اگر آج خطرات کی زد میں ہے تو اس کا بڑا سبب روٹی اور معیشت کے مسئلے کی مرکزیت کا انکار ہے۔ اس اہمیت کو کسی نے نہیں سمجھا کہ ریاست کا وجود اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا اہتمام کرتی ہے۔ جان کے تحفظ کے لیے بھوک سے نجات ضروری ہے۔ جن مسائل کو یہاں ریاست اور مذہبی و سیاسی جماعتوں نے موضوع بنایا‘ وہ ریاست کے مسائل تھے ہی نہیں۔ جو کام معاشرے کا تھا‘ وہ ریاست سے لینے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کی ریاست اپنا حقیقی وظیفہ ادا کرنے میں ناکام رہی۔
نون لیگ اور عوام میں‘ آج کیا چیز حائل ہو رہی ہے؟ کرپشن کے الزامات؟ ہرگز نہیں! صرف مہنگائی۔ آج نون لیگ پریشان ہے کہ سات ماہ میں ''ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘۔ اس کا واحد سبب مہنگائی ہے۔ مادی وجود کا سامان عام آدمی کی گرفت سے نکل رہا ہے۔ اس کی بقا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور یہی خطرات نون لیگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عام آدمی تو خان صاحب کے دور ہی میں ڈیفالٹ کر چکا تھا‘ رہی سہی کسر اب نکل گئی۔ ریاست کا ڈیفالٹ اس کے لیے کارآمد بحث نہیں رہی۔
آج کی مسلم لیگ کو اگر اپنی بقا عزیز ہے تو اسے اس ہدایت کو سامنے رکھنا ہوگا جو علامہ اقبال نے اپنے عہد کی مسلم لیگ کو دی تھی۔ قائداعظم کے نام خط میں لکھا: ''مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کا مستقبل اس پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے‘‘۔ آج اس ہدایت میں اس ترمیم کی ضرورت ہے کہ 'مسلمانوں‘ کو 'پاکستانیوں‘ سے بدل دیا جائے۔
اس وقت ملک میں جو بحثیں جاری ہیں‘ عام آدمی کو ان سے کچھ سروکار نہیں۔ اس کا پالا روزانہ سبزی والے‘ کریانے والے اور دودھ والے سے پڑتا ہے۔ پھل والے سے تو وہ ایسے بھاگتا ہے جیسے ایک سانپ کا ڈسا دوسرے سانپ سے بھاگتا ہے۔ سبزی کو پر لگ چکے۔ غرض یہ کہ عام آدمی صبح اٹھتا ہے تو معیشت اس کے دروازے پر آ کھڑی ہوتی ہے۔ رات گئے تک‘ یہ عام شہری‘ اس کے مطالبات پورے کر نے پہ لگا رہتا ہے مگر پھر بھی باقی رہتے ہیں۔
میں یہ بات اس لیے جانتا ہوں کہ میں بھی عام شہری ہوں۔ شخصی رجحا ن کو دیکھیں تومعیشت میرا مو ضوع نہیں۔ عام آدمی کا بھی نہیں۔ آئی ایم ایف کیا‘ اس کی بلا جانے! اس کا مگر کیا علاج کہ اب بات آگے بڑھے گی تو معیشت ہی کے راستے۔ عوام تک رسائی کے لیے نون لیگ کو پہلے اس کا سامنا کرنا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved