جون‘ جولائی کی ایک گم گشتہ‘ بھولی بسری بچپن کی گرم دوپہر کا دائرہ پھیلنا شروع ہوا تو پھیلتے پھیلتے 17جولائی 2022ء کی ایک نیم گرم دوپہر تک محیط ہوگیا۔ ہمارے لڑکپن میں ایک طلسماتی سی چیز ایجاد ہوئی تھی جسے ویو ماسٹر (View-Master) کہتے تھے۔ ویو ماسٹر کو مشین کہیں تب بھی درست نہیں لگتا‘ آلہ کہیں تب بھی غلط محسوس ہوتا ہے۔ اب اسے جاننے والے بھی شایدکم کم ہوں گے لیکن اس دور میں یہ واقعی جادوئی دنیا تھی۔ ویو ماسٹر دنیا بھرکی تھری ڈی تصویروں کا ایک جہان تھا جو دیکھنے والے کو جھیلوں‘ آبشاروں‘ دریاؤں اور شہروں میں لیے پھرتا تھا۔ میرے شوقین والد یہ دنیا خرید کر لائے تھے۔ یہ دراصل سٹیریو سکوپ (Stereoscope) تھا جس کا برانڈ نام ویو ماسٹر تھا۔ بیکا لائٹ‘ پلاسٹک سے بنے اس عکس انگیز آلے میں بعد کے ادوار میں بہت سی تبدیلیاں ہوتی رہیں حتیٰ کہ موجودہ دور میں اس عینک تک بات پہنچ گئی جسے ورچوئل رئیلٹی (Virtual reality) کہتے ہیں لیکن ہمیں اس سے کیا۔ اب جو بھی ہوتا رہے‘ کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ اب وہ حیرت کہاں سے لائیں جو اس دور کی حیرت تھی۔ اب جو بھی شے ایجاد ہو جائے ہمارا بچپن اور لڑکپن اس میں شامل کہاں ہو سکتا ہے۔ اس زمانے میں تھری ڈی تصویر جس میں دو اشیا کے بیچ فاصلے یا گہرائی کا منظر بھی دیکھنے والے کے احساس میں شامل ہو جاتا تھا‘ بالکل انوکھی چیز تھی۔ ہر ملک اور ہر قابلِ دید جگہ کے کارڈز ملا کرتے تھے۔ ایک کارڈ میں سات جوڑوں پر مشتمل 14 تصویریں ہوتی تھیں۔ کارڈ اس آلے میں ڈال کر اپنی دونوں آنکھیں اس کی آنکھوں کے ساتھ جوڑ دی جاتی تھیں اور وہ تصویر اپنی پوری رنگینیوں کے ساتھ آنکھوں سے دل میں اتر جاتی تھی۔ تا دیر اسے دیکھتے رہیے اور اس سحر انگیز منظر کے ایک گوشے میں چھپ کر کھڑے رہیے۔ اگلی تصویر کے لیے لیور نیچے کرکے چھوڑ دیجیے اور اگلی طلسمی دنیا میں اتر جائیے۔ والدین بچوں کو یہ بیش بہا ایجاد کم کم ہی دیتے تھے اور وہ بھی خراب نہ کرنے کی سخت تاکید کے ساتھ۔ اسے دیکھنے کے لیے ہم بہن بھائیوں کی باریاں طے ہوتی تھیں۔ لمبی گرم دوپہریں اس کے ساتھ گزارنا ایک ایسا پُرلطف کام تھا جسے بار بار کرکے بھی دل نہیں بھرتا تھا۔
ایک ایسی ہی لمبی گرم دوپہر مجھے یکبارگی ایک ٹھنڈے اور سرسبز دیس میں اٹھا کر لے گئی جہاں گہرا نیلا دریا بہتا تھا۔ اس نیلگوں پانی میں لہریں پڑتی تھیں اور اس کا بہاؤ تیز تھا۔ پھر یہ دریا ایک دم ایک کھائی میں اترتا تھا اور کف اڑاتی‘ نیلی‘ براق آبشار میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ کافی نیچے گہرائی میں گرتی آبشار مبہوت کن تھی۔ میں نے کارڈ پر لکھی ہوئی تفصیلات پڑھیں۔ یہ دریا نیاگرا اور یہ آبشار نیاگرا آبشار تھی۔ اس کے کنارے لوہے کی بل کھاتی ریلنگ کے ساتھ لگ کر حیرت اور محویت سے دیکھتے بچوں‘ بڑوں‘ مردوں‘ عورتوں کے چہروں پر آسودگی اور خوشی کا دریا بہتا تھا۔ یہ نیلا دریا آبشار بنتا تھا اور اپنے ساتھ دیکھنے والے کو اس براق‘ دودھیا‘ جھاگ اڑاتی‘ خوف زدہ کرتی گہرائی میں لے جاتا تھا جہاں یہ پھر دریا بن جاتا تھا۔ ایک منظر میں نارنجی برساتیاں اوڑھے سیاح کھلی کشتی میں اس لمبی کھائی اور گہرائی میں سیر کرتے تھے جہاں آبشار گر کر دریا کا نیا سفر بناتی ہے۔ میں اس منظر کے ایک کونے میں کہیں موجود تھا اور دیکھتے دیکھتے منجمد منظر مجھے سیال محسوس ہونے لگتا تھا۔ تصویریں اس آبشار کے کینیڈین حصے کی تھیں۔ گھوڑے کے نعل (Horse shoe) کی شکل میں گرتی ہوئی آبشار جو لاہور کی ایک گرم دوپہر میں خس خانے میں بیٹھے منظر تکتے بچے کی آنکھوں اور دل میں سال ہا سال تک ٹھہری رہی۔
17جولائی 2022ء کو میں ٹورنٹو‘ کینیڈا میں اپنے میزبان دوستوں کے ساتھ ٹورنٹو سے نکل کر کم و بیش 130کلو میٹرکے فاصلے پر نیاگرا کے لیے رواں تھا۔ دوست ہوں‘ سخن فہم ہوں‘ سخن ور ہوں تو ان کے ساتھ گزرے وقت کی ہر گھڑی دھڑکن کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہتی ہے۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا‘ نیم گرم موسم مجھ لاہوری کے لیے خوشگوار تھا۔ صحت اچھی تھی اور فراغت میسر تھی۔ یعنی اس آبشارکو‘ جسے خواب شار کہنا بہتر ہوگا‘ دیکھنے کا بہترین موقع تھا۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت...
ہم اس پُررونق سیاحتی قصبے میں داخل ہوئے جسے نیاگرا فالز ہی کہا جاتا ہے اور جہاں پُرہجوم بازار سے گزرنا آبشار تک رسائی کا راستہ ہے۔ دو طرفہ طعام گاہوں‘ یادگاری اشیا کی دکانوں‘ ہوٹلوں‘ جوئے خانوں کی بہتات بتاتی تھی کہ یہاں سیاح کتنے جوق در جوق آیا کرتے ہیں۔ اور یہ موسم تو تھا بھی گرم مہینوں کا۔ میں نے سوچا کہ یہ وہ قصبہ تھا جو مقامی باشندوں نے آباد کیا تھا‘ جن کی اپنی ایروکیوین زبان تھی اور وہ گوری چمڑی والوں کو حیرت سے دیکھتے تھے۔ یورپی اقوام سترہویں صدی عیسوی میں یہاں آباد ہونا شروع ہوئیں۔ 1670ء میں ایک فرانسیسی پادری لوئی ہینی پن یہاں آیا تھا لیکن فرانسیسی کینیڈا کے اس علاقے میں ٹھہرے نہیں بلکہ کیوبک صوبے کو اپنا مستقر بنایا۔ سیاحت یہاں انیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی اور مقامی آبادی کی آمدنی کا وسیلہ بننے لگی۔ جلد ہی پہ آبشار دنیا کے قدرتی عجوبوں میں شامل ہوگئی۔ کام کرنے کے لیے غلام بھی درکار تھے سو 1783ء سے یہاںسیاہ فام آبادی کی موجودگی بھی شروع ہوئی۔ ہم ایک دو موڑ مڑے اور دیکھا کہ نیاگرا پارک سامنے ہمارا منتظر تھا۔ یہاں گاڑیوں کی پارکنگ کے بعد ہمیں آبشار تک کا فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔ یہ بل کھاتا راستہ ایک طرف تو اس بجلی گھر کے قریب سے گزرتا ہے جو بذاتِ خود ایک تاریخی عمارت ہے۔ دوسری طرف یہ بہتے دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ پانی اور سبزے کے بیچ کا خوب صورت سفر ہے۔
ایری جھیل سے نکلنے والا دریائے نیاگرا یہ مشہور و معروف آبشار بناتا بالآخر جھیل اونٹاریو کے پانیوں میں مدغم ہو جاتا ہے۔ دریا تین آبشاروں کی شکل میں گرکر دریا بناتا ہے اور تینوں آبشاروں کا مجموعہ نیاگرا کہلاتا ہے۔ امریکن فالز اور برائیڈل ویل فالز نسبتاً چھوٹی آبشاریں ہیں اور امریکہ کی حدود میں واقع ہیں۔ جبکہ گولڈن ہارس شو فالز جو اونچائی‘ لمبائی اور خوب صورتی میں سب سے بڑھ کر ہے‘ کینیڈین حصے میں واقع ہے۔ دریا ئے نیاگرا امریکہ اور کینیڈا کے بیچ بین الاقوامی سرحد ہے۔ ایک قوس نما پل امریکہ میں پہلے بفلو اور پھر نیو یارک شہر کے لیے آمدورفت کا راستہ ہے۔ امریکہ کی طرف دو چھوٹے چھوٹے ہرے جزیرے منظر کی دل کشی اور رنگوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
اس چمکیلے دن کی سہ پہر دریا اپنی موج میں رواں تھا اور ہم بہاؤ کے ساتھ اس کے کنارے پیدل سفر کرتے تھے۔ آبشار کی پہلی جھلک کا انتظار تھا لیکن حسن آسانی سے کب کسی کو ملا ہے۔ بالآخر ایک موڑ کاٹ کر وہ منظر ہویدا ہوا جہاں نظر دور تک کام کرتی تھی۔ خدایا! منظر کی خوبصورتی نظر کی وسعت کے ساتھ مل جائے تو حسن میں کتنی جہات کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم جس طرف سے دریا کے ساتھ ساتھ آرہے تھے‘ وہاں سے بہت قریب‘ بالکل سامنے گھوڑے کا سنہرا نعل تھا۔ اسے اسی لیے سنہرا کہا گیا ہوگا کہ سورج کی محبت اسے سونے جیسا بناتی تھی۔ ہم دھڑکتی نظروں کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے رہے یہاں تک کہ سارا منظر رفتہ رفتہ سامنے آگیا۔ ہر قدم پر رنگ بدلتے تھے اور منظر ہر زاویے سے داد مانگتا تھا۔ سنہرے نعل سے پانی گرتا تو نیلے‘ دودھیا رنگ مل کر دھارے بناتے تھے۔ سورج ایک طرف کھڑا انہیں دیکھتا تھا اور اس کی ایک نظر سے ان رنگوں کے مزید رنگ پیدا ہوتے تھے۔ آبشار کا حسن اور قد‘ اُف یہ قامت۔ یہ قامت تو قامتِ یار جیسی ہے؛
وہ گر رہا ہے کسی آبشار کی صورت
میں تَک رہا ہوں اسے آخری کنارے سے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved