بچہ پہلے اپنی طاقت سے زمین پر بیٹھنے کے قابل ہوتا ہے، پھردونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر ٹانگیں گھسٹتے ہوئے چلتا ہے، پھر اُسے انگلی پکڑ کر کھڑا کیا جاتا ہے، پھر مائیں اُسے انگلی پکڑ کر دو قدم چلاتی ہیں اور انگلی چھوڑ دیتی ہیں تاکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا اور چلنا سیکھے، وہ دو قدم چلتا ہے اور لڑکھڑا کر گر جاتا ہے، پھر بار بار یہ مشق کی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے بل پر چلنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پنجابی زبان میں چلنے کو ''ٹُر جانا‘‘ بھی کہتے ہیں اور الوداعی سفر کو بھی ''ٹُر جانا‘‘ کہتے ہیں۔ وارث شاہ نے کہا ہے:
وارث شاہ اک دن اَسی وی ٹُرجانا
کُنڈے مارکے، اینہاں حویلیاں دے
یعنی ''ایک دن ہم بھی ان بڑے بڑے محلات اور حویلیوں کو بند کر کے آخرت کے سفر پر روانہ ہو جائیں گے‘‘۔ جب بچے کو چلانا سکھایا جاتا ہے تو اردو میںمائیں کہتی ہیں: ''پَیّاں پَیّاں چلو‘‘، اسے ''پائوں پائوں چلنا ‘‘ اور ''پائوں پائوں ڈولنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت بُرَیدہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ (منبر پر بیٹھے) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران سرخ قمیصیں پہنے ہوئے حسنین کریمینؓ آئے، وہ (دو قدم) چلتے اور لڑکھڑا کر گر جاتے، رسول اللہﷺ منبر سے اترے، ان دونوں کو اٹھایا (واپس منبر پر آ کر بیٹھے) اور انہیں اپنی گود میں بٹھا کر (خطبہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے) فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں‘‘ (التغابن:15)، میں نے ان دونوں بچوں کو پائوں پائوں ڈولتے دیکھا تو مجھ سے صبر نہ ہوا حتیٰ کہ میں نے اپنی گفتگو روک دی اور ان دونوں کو اٹھایا‘‘ (ترمذی: 3774)۔
مگر جب مائیں پائوں پائوں چلنا سکھاتی ہیں، تو نازنین بچے ضد کرتے ہیں کہ مجھے گود میں اٹھائیں، وہ چلنے پر تیار نہیں ہوتے، بعض بچے بڑی دیر سے چلنا شروع کرتے ہیں۔ یہ تمہید ہم نے اس لیے باندھی کہ خان صاحب نے ''نازنین‘‘ طبیعت پائی ہے، ہمیشہ دوسروں کا کھایا اور دوسروں نے نخرے اٹھائے، اس لیے یہ خصلت اُن کے لیے ''فطرتِ ثانیہ‘‘ بن گئی، انہیں زندگی میں کوئی بڑی ٹھوکر نہیں لگی جبکہ انسان تجربات سے گزر کر ہی سیکھتا ہے، جیسے خام سونا مسلسل رگڑنے سے کندن بنتا ہے، کھوٹ نکل جاتا ہے اور سونا خالص بن جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرکٹ کا کھیل ہمیشہ مقبول رہا ہے، کرکٹ کے مایۂ ناز کھلاڑی ہمیشہ سٹار کہلائے، چکاچوند میں رہے، ناز نخرے دکھاتے رہے اور خان صاحب تو اس حوالے سے سب سے ممتاز تھے۔
پس جب وہ سیاسی زندگی میں آئے تو طویل عرصے تک سیاست میں اپنا مقام نہ بنا سکے، لیکن 2011ء میں قسمت نے یاوری کی، مقتدر حلقوں کی نگاہِ انتخاب اُن پر پڑی اور انہوں نے انہیں گود لے لیا۔ یہ فیصلہ ابتدائی طور پر ان کی محبت میں نہیں کیا گیا، بلکہ نواز شریف اور زرداری کی مخالفت اس کا سبب تھی۔ مقتدرہ اُن سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ پس ''تیسری سیاسی قوت‘‘ کا فلسفہ تراشا گیا، پھر تمام تر تائید و حمایت کے ساتھ اُن کی شخصیت سازی کی گئی۔ سرپرست چلمن سے لگے رہنے کے بجائے پہلی بار کھل کر سامنے آئے، اُن کی پروموشن کے لیے ''ففتھ جنریشن وار‘‘ یا بقول رضوان رضی ''پانچویں پشت کی دوغلی اِبلاغی جنگ‘‘ کی ایک باقاعدہ سائنس وضع کی گئی۔ سوشل میڈیا پر پروجیکشن کے لیے ایک پورا لشکر تیار کیا گیا اور قوم کے لیے نجات دہندہ اور دیوتا کے روپ میں خان صاحب کی شخصیت کا دیومالائی اور افسانوی بُت تراشا گیا۔
تاریخ کا سبق یہ ہے: ''انسان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا‘‘، یہی ہماری بنیادی خامی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں سے جمعیت علمائے پاکستان اور جماعتِ اسلامی یعنی مذہبی سیاسی قوتوں کو دیس نکالا دینے کے لیے 1980 کے عشرے میں ایم کیو ایم وجود میں لائی گئی، قائدِ متحدہ کو سائنٹیفک طریقے سے پروموٹ کیا گیا، اُن کے لیے قانون، انسانی حقوق اور اخلاقیات کی تمام حدیں پامال کر دی گئیں۔ پھر ایک وقت آیا: پتا چلا کہ یہ ایک ایسا جن ہے، جس کے بوتل سے نکالنے کا منتر تو مقتدرہ کے پاس تھا، لیکن بوقتِ ضرورت واپس بوتل میں بند کرنے کا منتر ان کے پاس نہیں تھا، سو اس کے لیے ایک طویل آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں رینجرز پہلی مرتبہ شہری سندھ میں آئی اور آج تک موجود ہے۔ سو‘ خان صاحب کوپالیسی سازوں نے سیاست کے میدان میں اِس توقع پر انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا کہ وہ آہستہ آہستہ خود سیاست کے منجھے ہوئے اور پختہ کار کھلاڑی بن جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اگر اس حدیث پر ادارے فکر و تدبر کرتے تو وہ اس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوتے:
''حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے مذاکرے میں مصروف تھے کہ کیا ہو گا، اچانک رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے، تو اسے مان لو (کیونکہ اگرچہ یہ معمول تو نہیں ہے، لیکن ایسا ہونا ممکن ہے)، لیکن جب تم سنو کہ ایک شخص نے اپنی فطری خصلت ترک کر دی ہے، تو اس کی تصدیق نہ کرو، کیونکہ وہ پھرلوٹ کر اپنی جبلّت کی طرف آ جائے گا‘‘ (مسند احمد: 27499)۔ یہ معجزانہ شان اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے حبیب مکرمﷺ کو عطا فرمائی تھی کہ آپﷺ کی نگاہِ نبوت کے فیضان سے انقلاب آ جاتا تھا، دل و دماغ اور سوچ کے زاویے بدل جاتے تھے۔ عربی میں اسے ''قلبِ ماہیت‘‘ (یعنی حقیقت کا بدل جانا) کہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
یعنی اسماعیل علیہ السلام نے جو اپنی گردن قربان ہونے کے لیے پیش کر دی اور سراپا تسلیم و رضا بن گئے، انہوں نے یہ سبق کسی درسگاہ یا معلّم سے حاصل نہیں کیا تھا، بلکہ یہ نگاہِ ابراہیمی کا فیضان تھا، جب نگاہِ ابراہیمی کے فیضان کا عالَم یہ ہے تو سیِّدُ الانبیاء و المرسلین علیہم السلام کی نگاہ کے فیضان کا عالَم کیا ہوگا۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) ''ابو شِماسہ مَہری بیان کرتے ہیں: ہم حضرت عمر و بن عاصؓ کے پاس حاضر ہوئے، اس وقت وہ قریب المرگ تھے اور اپنا چہرہ دیوار کی طرف موڑ کر روئے جا رہے تھے، ان کے بیٹے نے اُن سے کہا: آپ کیوں رو رہے ہیں، کیا آپ کو رسول اللہﷺ نے متعدد بشارتیں نہیں سنائیں، (راوی بیان کرتے ہیں:) پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: مجھے جو سب سے بڑی نعمت عطا کی گئی وہ توحید و رسالت کی شہادت تھی اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں: ایک دور وہ تھا کہ میرے نزدیک رسول اللہﷺ سے زیادہ مبغوض (قابل نفرت) کوئی نہ تھا اور اس وقت میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات یہ تھی کہ (العیاذ باللہ!) میں ان پر قابو پاؤں اور انہیں قتل کر ڈالوں، سو اگر اس حالت میں میری موت واقع ہوتی تو میں جہنمی ہوتا۔ پس جب اللہ نے اسلام کو میرے دل میں جگہ دی تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہﷺ! اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میںآپ کے دستِ مبارک پر بیعت ِ (اسلام) کروں۔ رسول اللہﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''عَمْرو! تمہیں کیا ہوا، میں نے عرض کی: میں (قبولِ اسلام کے لیے) شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: بولو! کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کی: (میری ماضی کی سب خطائیں) معاف کر دی جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: عَمرو! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ماضی کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے، پس میں نے (آپﷺ کے دستِ مبارک پر) بیعت کی، (بیعت کرتے ہی میرے دل کی دنیا ایسی بدلی کہ) اب میری نگاہ میں آپﷺ سے زیادہ کوئی عظیم المرتبت نہیں تھا۔ آپﷺ کا رُعب مجھ پر اتنا طاری تھا کہ میں آنکھ بھر کر آپ کو دیکھنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا تھا۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ میں آپﷺ کا سراپا بیان کروں، تو نہیں بیان کر پاؤں گا، اگر اسی حال پر میری موت واقع ہو جاتی تو مجھے یقین ہے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوتا۔ پھر ہمیں اقتدار و اختیار ملا، مجھے نہیں معلوم کہ اس دور کی بابت (اللہ تعالیٰ کے حضور) میرا حال کیا ہو گا، سو جب میری وفات ہو جائے تو میرے پیچھے نہ کوئی نوحہ کرنے والی آئے اور نہ آگ لائی جائے، پس جب تم مجھے میری قبر میں دفن کر لو تو میری قبر پر مٹی ڈال دینا اور اتنی دیر تک وہاں ٹھہرے رہنا کہ جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ میں جان لوں کہ اپنے رب کے ملائکہ کے ساتھ میرا معاملہ کیسا ہوتا ہے، کیونکہ (اگر تم اتنی دیر تک میری قبر پر کھڑے رہو گے) تو مجھے اُنسیت محسوس ہو گی‘‘ (مسندِ ابو عوانہ اسفرائینی، جلد: 1، ص: 426)۔ (2) ''حضرت ابوبُردہؓ بیان کرتے ہیں: مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد (عمرؓ بن خطاب) نے تمہارے والد (ابوموسیٰ اشعریؓ) سے کیا کہا تھا، میں نے کہا: نہیں! انہوں نے بتایا: میرے والد نے تمہارے والد سے کہا تھا: ابوموسیٰ! کیا تم اس سے خوش ہو گے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ ہمارا اسلام قبول کرنا، آپﷺ کے ساتھ ہماری ہجرت، ہمارا جہاد اور ہمارے تمام (نیک) اعمال ہمارے لیے اُخروی نَجات کا سبب بن جائیں اور وہ تمام کام جو ہم نے آپﷺ کے بعد کیے، ان کے بارے میں ہم برابر سرابر چھوٹ جائیں، اس پر آپ کے والد نے کہا: نہیں! اللہ کی قسم! ہم نے رسول اللہﷺ کے بعد جہاد کیا ہے، نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں، بہت سے نیک کام کیے ہیں، ہمارے ہاتھوں پر بہت لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے، لہٰذا ہم ان سب کاموں پر اجر کی امید رکھتے ہیں، اس پر میرے والد نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! میں ضرور چاہتا ہوں کہ رسول اللہﷺ کی معیّت میں ہم نے جو نیک کام کیے وہ ہمارے لیے اخروی نَجات کا سبب بن جائیں اور وہ تمام کام جو ہم نے آپﷺ کے بعد کیے ہیں، اُن سے ہم برابر سرابر چھوٹ جائیں اور ہم کو نجات مل جائے۔ تب میں نے کہا: بے شک اللہ کی قسم! آپ کے والد میرے والد سے بہتر تھے‘‘ (صحیح بخاری: 3915)۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved