یورپ میں خواتین کی آزادی کے لیے پہلا آئینی قدم 1882ء میں اٹھایا گیا جب برطانوی حکومت نے ایک فرمان جاری کرکے عورت کو اپنی کمائی ہوئی دولت اپنے پاس رکھنے کا حق دیا۔ اس سے قبل یورپی معاشروں میں خواتین کو یہ حق حاصل نہیں تھا۔ اس کے بعد عورت نے کارخانوں کا رخ کیا، دولت کی ترغیب نے عورت کو گھروں سے نکال کر بازاروں اور دکانوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ آج بھی مغرب میں ہر دو میں سے ایک عورت کسی دفتر، کارخانے یا دکان میں کام کرتی ہے۔ عورتوں کے عملی اور صنعتی میدان میں قدم رکھنے کا ایک منفی نتیجہ مغرب میں خاندانی زندگی کا اختتام تھا۔ اس کے بعد گھر کی فضا بے کیف ہوتی چلی گئی۔ آج مشرقی عورت کی آزادی کے حوالے سے حقوقِ نسواں کے علمبردار تین ایشوز فریم کرتے ہیں، پہلا‘ عورت کو روایتی پردہ کلچر سے باہر لانا، دوسرا‘ عورت کے لیے حصولِ تعلیم کا حق اور تیسرا‘ معاشی خود مختاری کا حصول۔ یورپ کے برعکس مسلم عورتوں کے لیے پردہ مذہبی حکم سے زیادہ شرم و حیا کی نفسیات سے جڑا شخصی وقار کا مقدس احساس ہے۔ اگرچہ ہر خطے کے موسمی حالات اور تمدنی ارتقا کے ساتھ ثقافتی قدریں بدلتی رہیں تو پردے کی صورتیں بھی تبدیل ہوتی گئیں۔ دیہی سماج میں پردہ فقط بھاری چادر تک محدود رہا، مردوں کے سر پہ پگڑی اور خواتین چادر اوڑھ کے گھروں سے باہر آنے جانے کے علاوہ کھیتوں میں کام کاج بھی کیا کرتی ہیں؛ البتہ شہری تمدن میں اونچے گھرانوں کی وہ خواتین برقع پہنتی تھیں جنہیں اپنے حسب و نسب اور سماجی مقام و مراتب کو قدرے بلند رکھنے کا ادراک ہوتا تھا لیکن ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد رفتہ رفتہ اونچے طبقات کی تہذیب بدلی تو سب سے پہلے بڑے گھرانوں نے پردہ ترک کیا جس پہ کسی نے کوئی اعتراض نہ اٹھایا۔
افغانستان سے لے کر بنگال تک‘ غریب اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ پردے کی نفاست سے ناواقف رہے۔ پشتون کوچی قبائل کی سخت جان عورتیں اپنے ڈھیلے ڈھالے روایتی لباس کے ساتھ صدیوں تک قندھار اور ڈھاکہ کے درمیان محوِ خرام رہیں۔ قبائلی علاقوں میں آج بھی گھروں کے استعمال کا پانی لانے اور لکڑیاں کاٹنے کی ذمہ داری عورتوں پر عائد ہے۔ وسطی پختونخوا کے شہری سماج میں برقع کا رواج نہیں جبکہ دیہی تمدن میں شٹل کاک برقع بھی نظر آتا ہے۔ بنگال میں 80 فیصد مسلم عورتیں چائے کے باغات میں کام کرتی تھیں، وسطی اور بالائی پنجاب میں بھی اس طرح کے برقع کا تصور مفقود تھا۔جنوبی پنجاب میں کپاس کی چنائی کا ساراکام خواتین کرتی ہیں‘ جاگیردارگھرانوں کے علاوہ اپرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں البتہ برقع کی روایت موجود ہے۔ اس ضمن میں کچھ مسائل نفسیاتی بھی ہیں۔ یورپ میں جہاں مسلم خواتین کو علامتی پردہ یا حجاب لینے سے حکماً روکا گیا وہاں خواتیں پردہ کرنے کے اپنے حق کے لیے لڑنے لگیں جبکہ افغانستان سمیت کچھ ممالک میں‘ جہاں ریاستی اتھارٹی کے ذریعے خواتین کو زبردستی پردہ کرایا گیا‘ وہاں کی خواتین ان پابندیوں کے خلاف مزاحمت پہ اتر آئیں۔ بلاشبہ پردہ وہ نفسیاتی بیریئر ہے جو صنفِ نازک کے وقار کو قائم رکھنے کے علاوہ سدِجارحیت بھی بنتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پردہ مسلم خواتین کی ترقی کی راہ میں کبھی حائل نہیں رہا‘ اس لیے یہاں پردے کو ستم گری کی علامت بنا کر جذباتی اشتعال انگیزی فضول ہے۔
خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مسلم معاشرے ہمیشہ پروگریسو رہے ہیں۔ ہندوستان میں بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی مسلم خواتین کے لیے جدید تعلیم کے دروازے کھل گئے؛ البتہ ان علاقوں میں جہاں علماء کرام اور سماجی و سیاسی لیڈر شپ نے انگریزوں کی حکمرانی کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اٹھائیں‘ وہاں سرکاری سکولوں میں مسلم مرد و زن کے لیے تعلیم کے حصول کو بُرا سمجھا گیا؛ تاہم ایسے تمام علاقوں میں بھی جو خاندان اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے‘ انہیں زبردستی کسی نے نہیں روکا۔ برصغیر کے مسلمانوں میں صدیوں سے خواتین کی تعلیم کا رواج عام تھا۔ انگریزوں کی آمد سے قبل مردوں کے لیے مساجد اور عورتوں کے لیے گھروں میں قرآن پاک کی تعلیم کے علاوہ لکھنا‘ پڑھنا سیکھنے سکھانے کا اہتمام موجود تھا۔ بڑے گھرانوں اور خاص طور پر شاہی خاندانوں کی خواتین عربی و فارسی کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی عبور رکھتی تھیں۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی بیٹی زیب النسا اعلیٰ پائے کی دانشور اور شاعر تھیں۔
اسی طرح مالیاتی خود مختاری کے ضمن میں بھی مسلم خواتین کے مسائل نہ ہونے کے برابر رہے ہیں۔ مڈل کلاس اور غریب طبقات کی خواتین گھریلو دستکاریوں کے علاوہ کھیتوں کھلیانوں میں محنت مزدوری کے ذریعے اتنی آمدن کر لیتی تھیں جس سے انہیں نجی ضروریات کے لیے باپ، بھائی اور خاوند کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ برصغیر میں کچھ ایسے طبقات بھی ہیں جن کی عورتیں کام اور مرد گھروں کی رکھوالی کرتے ہیں، ان میں اوڈھ، کہل اور مصلی شامل ہیں لیکن ہمارے معاشروں میں خواتین کو ان کے محنت مزدوری اور نجی و سرکاری ملازمتوں میں مصروف رہنے کے باوجود مضبوط سماجی اقدار نے سنبھالے رکھا۔ وہ خاوند اور بچوں کے ذریعے خاندانی نظام سے مربوط رہیں؛ چنانچہ ہمارے ہاں آزادیٔ نسواں کی اکثر تحریکیں فی الواقع خواتین کے حقوق کی محافظ یا اس جنس کی خیرخواہ نہیں لگتیں بلکہ اُن کا ہدف خاندانی نظام اور اس سے جڑی اُن اقدار کو تحلیل کرنا محسوس ہوتا ہے جنہوں نے مسلم سماج کو منظم رکھا ہوا ہے۔ لاریب تہذیبوں کی جنگ کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کیونکہ مغرب میں جب عورت کمانے لگی تو وہ غیرذمہ دارانہ اور آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے والدین کی نگرانی کا جوا اتار کر گھر کی سکونت ترک کر دیتی تھی۔ اس لیے گھر کے آنگن سے وابستہ اخلاقیات اور عزتِ نفس کے احساس سے جڑی خاندانی روایات سے رشتہ توڑ کر شہری ہجوم میں گم ہونے والی عورتیں شادی اور حصولِ اولاد کے تصور کوبھی غلامی تصور کرنے لگیں۔ جرمنی میں ایک عورت نے اپنی تین ماہ کی بیٹی کے سر میں کیل ٹھونک کر اسے قتل کر دیا۔ عدالت نے پوچھا کہ بیٹی کو کیوں مارا تو ملزمہ نے جواب دیا: اس بچی نے میری زندگی کا چین اور آزادی چھین لی تھی۔ اس آزاد روی نے مغربی عورت کو نکاح کی ذمہ داریوں سے فرار، ضبطِ تولید اور اسقاطِ حمل کی راہ دکھائی۔
ماہرینِ نفسیات کہتے ہیںکہ غیرشادی شدہ مرد کی بے کیف زندگی سے شادی شدہ مرد کی دکھوں سے لبریز زندگی کہیں زیادہ بامقصد اور خوشگوار ہوتی ہے۔ شادی میں تاخیر سے مغربی شہروں میں ایسے مرد و زن کی تعداد بڑھنے لگی جو سارا دن کام اور ساری رات کلبوں میں گزار دیتے حالانکہ ان کے اجداد ذہنی آسودگی کے مقابلے میں مال و دولت کو وقعت نہیں دیتے تھے۔ وہ خود کو فطرت سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے اوائلِ عمری میں بچوں کی شادیاں کر دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اولاد میاں بیوی کی محبت کا مشترکہ سرمایہ اور فطری رشتے کی بنیاد بنتی ہے۔ بلاشبہ خاندان سماجی اداروں میں سب سے زیادہ فطری ادارہ ہے۔ عورت جانتی ہے کہ اصلاح کی ابتدا گھر سے ہوتی ہے، اس لیے وہ ایک جہاں گرد مرد کو بچوں کا شیدائی بنا کر اپنی نسل کی نمائندگی کرتی ہے۔ عمومی طور پر عورت کو امورِ سلطنت اور قانونی جھمیلوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ فطرتاً اپنے گھر میں مگن رہتی ہے۔ فطرت نے عورت کو افزائشِ نسل کی ذمہ داریاں نبھانے کی خاطر روزگار کے جھمیلوں سے مبرا رکھا حالانکہ عورت پیدائشی طور پر ذہین ہوتی ہے۔ سماجیات کے ماہرین کہتے ہیں ''عورت فکری تصورات کی اہل نہیں لیکن وہ واقعات کے لیے عمیق نظر اور تیز حافظہ رکھتی ہے، وہ کلیہ سازی کے میدان کی شہسوار نہیں مگر تفاصیل میں کھو جاتی ہے، وہ اشیا اور نظریاتی اصولوں سے زیادہ بچوں اور گھر میں دلچسپی رکھتی ہے‘‘۔آج اگر مغربی عورت گھر اور بچے کی حفاظت اور اپنے مقام و مرتبے کو قائم رکھنے میں ناکام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی فطرت کو بھلا کر سود کے بازاروں، کارخانوں، مارکیٹوں اورشوبزکی چکاچوند روشنیوں میں کھو گئی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved