ہر دور کے انسان نے مشکلات سے جان چھڑانے اور آسانیوں کو ممکن بناکر زندگی کا حصہ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ہزاروں برس کی جدوجہد کا کم و بیش جامع نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ مگر یہ کیا؟ محنت رنگ لے آئی ہے تو دل کا خون ہوگیا ہے۔ جب تک مشکلات تھیں تب تک بہت کچھ کرنے کی تمنا جوان تھی۔ انسان جانتا تھا کہ منزل بہت دور ہے۔ قدم قدم پر مشکلات تھیں، الجھنیں تھیں۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے پیشرفت برائے نام تھی۔ اس برائے نام پیشرفت نے انسان کو متحرک رکھا۔ تب کسی بھی مشکل سے چھٹکارا پانا آسان نہ تھا۔ معمولی درجے کی ایجاد ممکن بنانے میں بھی ایک عمر کھپ جاتی تھی۔ آج ہم جن چیزوں کو انتہائی معمولی گردانتے ہیں وہ کسی زمانے میں اعلیٰ ترین درجے کی ایجادات و اختراعات میں شمار ہوتی تھیں۔ جب تک مشکلات تھیں تب تک انسان ایسا متحرک تھا کہ اِدھر اُدھر دیکھنے کی فرصت نہ تھی۔ زندگی کا اخلاقی پہلو بھی اس لیے متوازن تھا کہ وقت اور وسائل کے ضیاع کی گنجائش برائے نام تھی۔ انسان کو کمانے اور ڈھنگ سے جینے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا تھا۔ اس جھنجھٹ سے چھٹکارا ملنے کی صورت ہی میں عیاشی کی طرف جانے کی گنجائش پیدا ہوتی تھی۔ تبھی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو سینے سے لگائے رکھنا بھی ممکن تھا۔ آج ہم بھول چکے ہیں کہ جب مشکلات تھیں تو اُن سے چھٹکارا پانے کی سبیل نکالنے کی تگ و دَو بھی تھی اور یہ تگ و دَو مستقل نوعیت کی تھی۔ زندگی کو مشکلات کے خار زاروں سے نکال کر آسانیوں کی سیج تک پہنچانے کی تگ و دَو میں دلکشی تھی، رنگینی تھی، زندگی تھی۔ ڈھنگ سے جینے کا یہی سب سے معقول طریقہ تھا۔ لوگ اِس طرزِ زندگی کے عادی تھے اور کم و بیش تمام معاملات میں بھرپور دلچسپی لیتے تھے۔ آپ چاہیں تو اِسے ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ خیر‘ آپ جو چاہیں سمجھیں، حقیقت یہ ہے کہ جب تگ و دَو لازم تھی تب زندگی کا انداز کچھ اور تھا، اُس کی رعنائی کچھ الگ ہی قسم کی تھی۔ اِس سادہ سی حقیقت کو سمجھنے میں بیشتر انسان غلطی کر جاتے ہیں یا سمجھ ہی نہیں پاتے کہ زندگی اُسی وقت دلکش، بامعنی اور بامقصد ہو پاتی ہے جب مشکلات درپیش ہوں اور اُن سے نجات پانے، اُنہیں آسانیوں میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ ذہن نشین رہے کہ صرف وہی مشکلات ہمیں تگ و دَو کرنے کی تحریک دیتی ہیں جو حالات کی پیدا کردہ ہوں یا پھر کسی نے دانستہ ہماری راہ میں کانٹوں کی طرح بچھائی ہوں۔ جو مشکلات ہم اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کے نتیجے میں پیدا کرتے ہیں اُن سے نمٹنے پر متوجہ رہنے کے بجائے ہمارے ذہن محض تاسّف کی گرد میں اَٹے رہتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات انسان کو زیادہ لگن کے ساتھ کام نہیں کرنے دیتیں۔ توجہ منتشر رہتی ہے اور توانائی کا بڑا حصہ تاسّف اور بے دِلی کی نذر ہو جاتا ہے۔ ناکام انسانوں کے معاملات کا جائزہ لینے پر اندازہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی بیشتر مشکلات خود پیدا کیں اور پھر کام کرنے کی سچّی لگن سے محروم ہوگئے۔
جو لوگ صرف آسانیوں کے متلاشی رہتے ہیں اُنہیں کچھ اندازہ نہیں کہ وہ اپنے وجود پر کیسا ظلم ڈھارہے ہوتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں آسانیاں ہوں تو اُس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے مگر آسانیاں حاصل کردہ ہوں‘ پکی پکائی تازہ روٹی کے مصداق مفت میں ملی ہوئی نہ ہوں۔ کسی بھی ماحول میں ایسے لوگوں کو شناخت کرنا زیادہ مشکل نہیں جو زندگی کی جنگ میں شکست تسلیم کرچکے ہیں یا جنہیں یہ جنگ لڑنی ہی نہیں پڑی۔ دونوں ہی حالتوں میں نتائج یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی کچھ نہیں ہو پاتا۔ اگر کوئی سخت نامساعد حالات سے دوچار ہو تو ہمت ہار بیٹھتا ہے یعنی کچھ نہیں کرتا۔ بالکل ایسی ہی کیفیت اُن کی بھی ہوتی ہے جنہیں باپ دادا سے ترکے میں بہت کچھ مل گیا ہو۔ جب بیٹھے بٹھائے بہت کچھ مل جائے اور کمانے کی ضرورت ہی نہ رہے تو انسان ناکارہ ہو جاتا ہے۔ پہلے وہ تن آسانی کی طرف جاتا ہے، پھر عیاشی کی طرف اور آخر میں بالکل ناکارہ ہوکر پھیکی پھیکی، بے رنگ زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ مشکلات سامنے آتی رہیں اور ہم اُنہیں چیلنج کے طور پر قبول کرکے آگے بڑھتے رہیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ انسان کا مزاج عجیب واقع ہوا ہے۔ ایک طرف وہ بہت سی آسانیاں چاہتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آج ہمیں جتنی ترقی دکھائی دے رہی ہے وہ مشکلات کو پچھاڑ کر ہی ممکن بنائی گئی ہے۔ کسی کو آسانیاں جتنا سہل پسند بناتی ہیں کسی اور کو مشکلات اُتنی ہی زیادہ محنت کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ ہر مشکل صرف اُس وقت بارآور ثابت ہوتی ہے جب ہم اُسے چیلنج کی حیثیت سے قبول کریں اور اپنے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے آسانی کی راہ ہموار کریں۔ کم ہی لوگ اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں کہ زندگی کا حسن بہت حد تک اس بات سے عبارت ہے کہ ہم مشکلات کو چیلنج کے روپ میں لیں اور تگ و دَو کے ذریعے اُن کا تدارک یقینی بناکر آسانیوں کی راہ ہموار کریں۔ انسان چاہے کتنی ہی کوشش کر دیکھے، لطف آسانیوں یا بیٹھے بٹھائے مل جانے والی آسانیوں میں نہیں بلکہ جسم و جاں کو شدید تھکن سے دوچار کرنے والی محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آسانیوں میں ہے۔ اصغرؔ گونڈوی کہتے ہیں ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
کیا ہی خوبصورت بات ہے! اس حقیقت سے انکار کرنے کی ہمت کس میں ہے کہ ہماری زندگی میں حقیقی معنویت اور رعنائی پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب ہم مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور اُن سے کماحقہٗ نمٹ کر اپنے لیے آسانیاں ممکن بناتے ہیں؟ ہر دور کے انسان نے مشکلات کو پچھاڑ کر ہی پیشرفت ممکن بنائی ہے۔ مسائل ہی تو ہیں جو چیلنج کے روپ میں قبول کیے جانے پر انسان کو بلندی عطا کرتے ہیں۔ اِسی بات کو محترم ظفرؔ اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
یہی معلوم ہوا کوششِ بسیار کے بعد
کہ ہر اِک طرح سے مشکل ہی میں آسانی تھی
مشکل میں آسانی؟ یقینا! مشکلات ہی تو زندہ رہنا سکھاتی ہیں، بامقصد طریقے سے زندہ رہنا۔ جینا وہی جینا ہے جو کسی نہ کسی مقصد کے تحت ہو۔ جب ہم اپنے لیے کسی مقصد کا تعین کرتے ہیں تب بہت کچھ بدلنے لگتا ہے۔ کسی مقصد کے حصول کی سچی لگن انسان کو فضول سرگرمیوں سے دور کردیتی ہے۔ یہ کرشمہ اُس وقت رونما ہوتا ہے جب انسان یہ طے کرلیتا ہے کہ کسی بھی مشکل کو محض مشکل نہیں سمجھے گا بلکہ اُسے اپنے پورے وجود کیلئے ایک بڑا چیلنج سمجھ کر قبول کرے گا۔ ایسی حالت ہی میں زندگی جگمگاتی ہے، جھلملاتی ہے، مسکراتی ہے۔ کبھی کسی ایسے انسان سے مل کر دیکھیے جس نے مشکلات کو شکست سے دوچار کرکے اپنے لیے آسانیاں ممکن بنائی ہوں۔ آپ محسوس کریں گے کہ ایسے لوگوں کی شخصیت کا رنگ، ڈھنگ سبھی کچھ الگ‘ کچھ منفرد ہوتا ہے۔ جب کوئی مشکلات کو ہراکر آگے بڑھتا ہے تب اُس کی شخصیت کی اٹھان قابلِ دید ہوتی ہے۔ بے مثال نوعیت کا احساسِ افتخار چہرے سے ہویدا ہوتا ہے اور پورے وجود کو سرشار کرتا چلا جاتا ہے۔
زندگی معقول نوعیت کے حسنِ عمل سے عبارت ہونی چاہیے یعنی آپ بلا جواز مشکلات سے دامن بچاتے ہوئے چلیں اور فطری طور پر پیدا ہونے والی الجھنوں سے نمٹنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں۔ جینے کے بہت سے انداز ہوا کرتے ہیں مگر معقول ترین انداز یہ ہے کہ انسان تن آسانی ترک کرتے ہوئے حسنِ عمل کی منزل تک پہنچے اور اپنے وجود کا جواز ثابت کرے۔ وجود کا جواز ثابت کرنے کا اِس سے اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے کہ انسان کچھ ایسا کرے کہ اپنے لیے بھی کچھ آسانی پیدا کرے اور دوسروں کیلئے بھی کام کا ثابت ہو۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر عمل اور حسنِ عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ اس تقاضے کو نبھاتے ہی بنتی ہے۔ مشکلات سے نہ گھبرائیے، عمل اور اُس سے بھی کئی قدم آگے جاکر حسنِ عمل پر توجہ دیجیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved