اتوار 11 دسمبر کو چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد کے اُس پار سے گولہ باری سے پاکستانی شہریوں کا جو جانی نقصان ہوا‘ اس پر بحث کرنے کے لیے اگلے روز قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا لیکن اس بلا اشتعال اور اندھا دھند گولہ باری اور فائرنگ کے واقعہ‘ جس میں 8 پاکستانی شہری شہید ہوئے‘ کے بارے میں کسی متفقہ اور جامع پالیسی بیان جاری کیے بغیر ختم ہو گیا۔ ایوان کی کارروائی میں سب سے نمایاں وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر تھی‘ جس میں وہ کوئی پالیسی گائیڈ لائن دینے کے بجائے‘ اراکینِ قومی اسمبلی کو یہ بتاتے رہے کہ کابل میں طالبان کی انتظامیہ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اس واقعے پر معافی مانگ لی ہے‘ اور پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ آئندہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے لیکن جمعرات 15دسمبر کو چمن بارڈر پر ہی افغان فورسز کی دوبارہ فائرنگ سے ایک شہری شہید جبکہ بچوں اور خواتین سمیت 8 افراد زخمی ہو گئے۔گزشتہ سال اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اس قسم کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ٹھیک ایک ماہ قبل‘ 14 نومبر کو چمن بارڈر پر پاک افغان سرحد عبور کرکے ایک مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کرکے ایف سی کے ایک جوان کو شہید کر دیا تھا۔ جواب میں پاکستان نے سرحد کو بندکر دیا تھا اور اعلان کیا کہ جب تک طالبان انتظامیہ ملزم کو پاکستان کے حوالے نہیں کرے گی‘ سرحد نہیں کھولی جائے گی‘ لیکن طالبان کی یقین دہانیوں کے نتیجے میں ایک ہفتے کے بعد سرحد کھول دی گئی۔ اس دفعہ اگرچہ سرحد کو تھوڑی دیر کے لیے بند کرنا پڑا‘ لیکن پاکستانی حکام نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے سرحد کو زیادہ عرصے تک بند نہیں کیا کیونکہ اس سے نہ صرف دونوں طرف سے سرحد پار کرنے والے ہزاروں پاکستانی اور افغان باشندوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات کو بھی ہوا ملتی ہے‘ کیونکہ افغانستان کی درآمدات اور برآمدات کا بیشتر حصہ اسی سرحد پر مقرر مقامات کے ذریعے آتا جاتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے واقعات میں گزشتہ تقریباً دو ماہ کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کی تاریخ بڑی پرانی اور جڑیں بہت گہری ہیں۔ سب سے اہم تنازع پاک افغان بین الاقوامی سرحد (ڈیورنڈ لائن ) کے بارے میں ہے۔ افغانستان کی کسی حکومت حتیٰ کہ طالبان کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں نے بھی اسے تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کی سابقہ حکومت کے سربراہ مرحوم ملا عمر کا تو موقف تھا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں‘ اس لیے ان کے درمیان لکیر کا کوئی جواز نہیں۔ اس تصور کو فروغ دینے میں پاکستان کی ان جماعتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو سابقہ سوویت یونین کے قبضے کے خلاف افغان عوام کی جدوجہد کو جہاد سمجھ کر اپنے کارکنوں کو طالبان کی صفوں میں شامل ہونے کی اجازت دیتی رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے زمانے میں اس مسئلے نے دونوں ملکوں کے درمیان کافی کشیدگی پیدا کر دی تھی کیونکہ طالبان نے دونوں ملکوں کے مابین سرحد کو عبور کرنے کے لیے پاسپورٹ کی شرط قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ وہ جب چاہیں‘ جہاں سے چاہیں ڈیورنڈ لائن عبور کریں گے۔ مشرف کے وزیر داخلہ معین الدین حیدر کے مطابق‘ کافی کوششوں کے بعد طالبان کو پانچ مقررہ مقامات‘ جن میں طورخم اور چمن بھی شامل ہیں‘ سے پاسپورٹ کے ساتھ سرحد عبور کرنے پر آمادہ کیا گیا۔
موجودہ کشیدگی‘ جو متعدد بار مسلح تصادم کا بھی باعث بن چکی ہے‘ کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کی طرف سے 2400کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر تقریباً 500ملین ڈالر کی لاگت سے خاردار تار کی باڑ لگائی گئی ہے۔ پاکستان کے مطابق اس کا مقصد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوں اور دیگر غیر قانونی آمدورفت کو روکنا ہے۔ سابق افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کی طرح طالبان انتظامیہ بھی اس باڑ کے سخت خلاف ہے اور اسے نہ صرف سرحد کے آرپار جانے والوں کے راستے میں رکاوٹ سمجھتی ہے بلکہ طالبان کے بعض ذمہ دار اراکین نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان اس باڑ کو کھڑا کرکے ڈیورنڈ لائن کو افغانستان پر تھوپنا چاہتا ہے۔ طالبان نے اس طویل باڑ کو نہ صرف کئی مقامات سے اکھاڑ دیا بلکہ پاکستان کی طرف سے باڑ کی مرمت کرنے کی کوششوں کی بھی مزاحمت کی گئی اور اس وجہ سے دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوئے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی افغان سرزمین سے بلا روک ٹوک پاکستانی علاقوں میں آمد اور مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے‘ بھتہ وصول کرنے اور ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے بھی طالبان انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی یقین دلایا تھا کہ غیرملکی جنگجو تنظیموں کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکیوں کے ساتھ طے کیے گئے معاہدے میں بھی طالبان نے اس شرط کو قبول کیا تھا اور اس پر کاربند رہنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن افغانستان میں گزشتہ ایک سال میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے بین الاقوامی برادری میں تاثر پیدا ہوا ہے کہ یا تو ان دہشت گرد تنظیموں کو قابو میں رکھنے کی طالبان میں سکت نہیں یا پھر ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ان کی موجودگی اور کارروائیوں سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کو توقع تھی کہ طالبان کی کابل انتظامیہ‘ کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں داخل ہونے اور دوبارہ اپنے قدم جمانے سے روکے گی‘ لیکن طالبان نے اس پر معذوری کا اظہار کیا اور پاکستانی حکام کو صاف بتایا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ساتھیوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کریں گے؛ البتہ وہ پاکستان اور کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پچھلے سال اکتوبر میں کالعدم ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے درمیان غیر مشروط مذاکرات کا آغاز ہوا اور ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک غیر معینہ عرصے کے لیے فائر بندی کا بھی اعلان کیا گیا‘ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ ٹی ٹی پی نے ان مذاکرات اور فائربندی کی آڑ میں اپنی قوت میں اضافہ کر لیا ہے اور سوات‘ مالا کنڈ اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں اپنی موجودگی میں اضافہ کیا۔
مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے پیش کردہ بعض مطالبات ایسے ہیں جو ریاستِ پاکستان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتی۔ ان میں سابقہ فاٹا کا صوبہ کے پی میں انضمام ختم کرکے اس کی سابقہ پوزیشن بحال کرنا بھی شامل ہے۔ ٹی ٹی کی کارروائیوں سے پیدا ہونے والی پاک افغان کشیدگی کے علاوہ پاکستان سے مبینہ طور پر امریکی ڈالر‘ گندم اور خوردنی تیل کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے حال ہی میں اعلان کردہ سخت اقدامات بھی ایک فوری وجہ ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس سلسلے میں ایک باقاعدہ بیان بھی جاری کیا ہے اور قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ چمن کے قریب پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کی وجہ یہ تھی کہ سمگلروں کا ایک گروہ خاردار باڑ کو اکھاڑ کر پاکستان میں داخل ہونے کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر طالبان ایسی کارروائیوں کی روک تھام میں ناکام رہتے ہیں تو یہ خطہ عدم استحکام کی ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved