تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     16-12-2022

نیا سائنسی انکشاف‘ دنیا ایک دھوکا اور سراب

سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ وقت ایک مخلوق ہے‘ یعنی وقت ازل سے موجو دنہیں تھا‘ اس کا ظہور بڑے دھماکے (بگ بینگ) کے بعد ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہی ٹائم یعنی وقت کا خالق ہے۔ اپنے بندوں کیلئے وقت کے دھاروں کو بدلنے والا وہی ہے۔ 2022ء کا آخری مہینہ اپنی نصف مدت پوری کر چکا ہے۔ یہ سال اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ حالیہ دنوں میں دنیا کا سب سے بڑا انعام یعنی ''نوبیل‘‘ انعام دیا گیا ہے۔ تین سائنسدان اس کے حقدار قرار پائے ہیں۔ پہلے سائنسدان کا نام جان کلازر (John Clauser) ہے۔ یہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے رہنے والے ہیں۔ 80 سالہ جان کلازر 1942ء میں پیدا ہوئے تھے۔ دوسرے سائنسدان کا نام ایلن آسپیکٹ (Alain Aspect) ہے۔ ان کی عمر 75 سال ہے۔ 1947ء میں فرانس کے شہر پیرس میں پیدا ہوئے۔ تیسرے سائنسدان کا نام انٹون زیلنگر (Anton Zeilinger)ہے۔ یہ 1945ء میں پیدا ہوئے اور مشرقی یورپ کے ملک آسٹریا کے شہر ویانا کے رہنے والے ہیں۔
نوبیل پرائز میں یہ تینوں سائنسدان برابر کے شریک ہیں۔ تینوں کی ریسرچ ایک ہی ہے۔ ملک اپنے اپنے‘ یونیورسٹیاں اپنی اپنی مگر تینوں کی تحقیق کا رزلٹ ایک ہی ہے۔ اس رزلٹ کو انٹون زیلنگر نے جو عنوان دیا‘ وہ آج کی جدید سائنس کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔ یہ تحقیق تھیوری اور نظریہ نہیں ہے بلکہ لیبارٹریوں میں تجربات کی بھٹی سے گزری ہوئی ایک سائنسی حقیقت ہے۔ اس نظریے کو سائنسی حقیقت میں تبدیل ہونے کے لیے نصف صدی سے کچھ زیادہ کا فاصلہ طے کرنا پڑا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن کو مانا جاتا ہے‘ آئن سٹائن اور اس کے ہمنوا سائنسدانوں کا نظریہ تھا کہ ذرّے سے لے کر گلیکسیوں وغیرہ تک‘ ہر شئے مستحکم ہے۔ اس کے برعکس ''نیلز بوہر‘‘ (Niels Bohr) ایک ایسا ڈینش سائنسدان تھا جو آئن سٹائن سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا تھا کہ جب ذرّے سے بھی چھوٹے لیول پر جائیں‘ ایٹم کے ذیلی ذرّات کی دنیا میں داخل ہوں تو کائنات غیر حقیقی (Anti Realistic) ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں کچھ بھی طے شدہ (determine) نہیں ہے۔ نیل بوہر کا ساتھ دینے والے سائنسدان بھی نامی گرامی تھے۔
جان بیل آئر لینڈ کا ایک سائنسدان تھا۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی لیبارٹری سرن میں کام کرتا تھا۔ اس نے 1964ء میں ایک مقالہ لکھا کہ ہماری کائنات غیر حقیقی ہے۔ یہ حقیقی (Real) نہیں ہے۔ اس کے بعد جان کلازر نے 1972ء میں اپنی ریسرچ کی اشاعت کی اور پہلے کی نسبت زیادہ دلائل کے ساتھ واضح کیا کہ ہماری کائنات غیر حقیقی ہے۔ یہ ایک دھوکا اور سراب ہے۔ 2022ء میں تین سائنسدانوں‘ جنہوں نے نوبیل پرائز حاصل کیا‘ ان میں زیادہ اور بنیادی کام جان کلازر ہی کا ہے؛ البتہ مندرجہ بالا ریسرچ کے عنوان کا تاج جس کے سر پر رکھا گیا وہ جناب انٹون زیلنگر ہیں۔ ان کا دیا ہوا سلوگن یا عنوان ملاحظہ ہو:
The Universe Is Not Locally Real۔ مطلب: مقامی سطح پر کائنات غیر حقیقی ہے۔
قارئین کرام! لوکل یا مقامی کا سائنسی مفہوم اس طرح ہے کہ ہماری کائنات میں بنیادی شئے روشنی ہے۔ اس کی رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ کائنات کی ہر شئے اسی رفتار میں بند ہے‘ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لحاظ سے یہ لوکل ہے۔ جس جہان میں اس سے زیادہ رفتار ہو‘ وہ پھر کوئی اور جہان ہے۔ ہماری لوکل کائنات سے بالکل مختلف ہے۔ اب یہ روشنی ایک ذرّے ''فوٹون‘‘ پر مشتمل ہے۔ فوٹون کی ویسے تو کئی اقسام ہیں مگر بنیادی طور پر دو اقسام ہیں۔ یہ دونوں ''اَپ‘‘ اور ''ڈاؤن‘‘ ہیں۔ ایک اپنے رویے میں ایک سمت اختیار کرتا ہے تو دوسرے کا اختلاف بھی سامنے آتا ہے۔ روشنی کے Wave Function سے جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے‘ اسے Hidden Variables کہا جاتا ہے یعنی یہ چھپی ہوئی تبدیلیاں ہیں۔ جی ہاں! یہاں فزکس کے قوانین جواب دے جاتے ہیں۔ قوانین کے عدم وجود پر یہاں کائنات غیر حقیقی ہو جاتی ہے۔ اس کے پیچھے کون ہے؟ سائنسی اصطلاح میں اس کو Randomnessکہا جاتا ہے؛ یعنی بے ترتیبی۔ اس بے ترتیبی کے پیچھے کون ہے‘ جو اپنی ترتیب اپنے پاس رکھ کر جلوہ افروز ہے۔ اس کا پتا چلے تو پھر منزل سر ہوتی ہے۔ مقصد اور ٹارگٹ کا حصول ممکن ہو پاتا ہے۔
امریکہ کا معروف سائنسی میگزین Scientific American نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں کی ریسرچ پر لکھتا ہے کہ
Under quantum mechanics, nature is not locally real: particles may lack properties such as spin up or spin down prior to measurement, and they seem to talk to one another no matter the distance.
یعنی ذیلی ذرّات کی سائنس جسے کوآنٹم مکینکس کہا جاتا ہے‘ اس کے تحت فطرت مقامی سطح پر حقیقت نہیں ہے۔ مزید کہا کہ نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں نے اس حقیقت کو سائنسی پیمانے پر ثابت (Prove) کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ:
The universe is "Real" but only when you are Looking at it.
یہ کائنات حقیقت ہے مگر صرف اس وقت (یا اس قدر) جب آپ اسے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اللہ اللہ! مذکورہ سائنسی تھیوری کے سائنسی حقیقت و انکشاف بننے پر سائنسدانوں کے دو گروہ ایک ہو گئے۔ آئن سٹائن اور نیلز بوہر کے پیروکار باہم متحد ہو گئے اور پکار اٹھے!
The universe is not Locally Real, A monist Perspective
کائنات اپنی مقامی سطح پر کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یکتائی (توحیدی) نقطۂ نظر کا نظارہ ہے۔
قارئین کرام! 2022ء کے آخری ایام پیغام دے رہے ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے اس کو چلانے والا ایک وجود موجود ہے۔ وہ ایک ہے! ساری کائنات میں اس کی توحید اور وحدانیت کا منظر‘ عربی الفاظ میں ہر ذرّے سے ہر مجرّے (گلیکسی) تک دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ کہ اس کائنا ت کا کوئی خالق موجود تو ہے مگر اس نے قوانین بنا دیے ہیں‘ وہ خود مداخلت نہیں کرتا‘ کائنات بس خود کار طریقے سے چل رہی ہے‘ یہ اب غیر سائنسی اورجاہلانہ نظریہ ثابت ہو گیا ہے۔ علمی اور سائنسی حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر لحظہ اپنی مخلوق کو چلا رہا ہے اور زبردست نگرانی کر رہا ہے۔ ''آیۃ الکرسی‘‘ میں اُس رب کریم کی جو صفات بیان کی گئی ہیں‘ اصل علمی اور سائنسی حقیقت وہی ہے۔ اس رحمن مولا کریم کا تعارف ''سورۃ اخلاص‘‘ بھی ہے۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا سائنسی حقیقت کے بعد یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے۔ امریکی، یورپی اور دنیا بھر کے پڑھے لکھے لوگوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ
What are we? Nothing! if not the universe.
ہم کیا ہیں‘ اگر یہ کائنات کچھ نہیں ہے تو؟
جی ہاں! پھر ان کا اگلا سوال بھی ہے What is Real? ، ریئل یعنی حقیقت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ یعنی اپنے خالق سے غافل اور دہریت و الحاد میں ڈبکیاں کھاتی پریشان انسانیت کو ریئل کا مطلب کون بتائے گا؟ دنیا بھر میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والے بتائیں گے؟ میرے وطن عزیز میں اس کا رحجان کافی زیادہ ہو چکا ہے۔ اس قدر زیادہ کہ حکومتوں کے گھپلے اس میں، فساد اس میں، مقدمے بازی اس میں، جھوٹ اور فراڈ اس میں۔ یہ بے چارے لوگ زمین پر موجود زرعی اراضی اور پلاٹوں کو ریئل سمجھے بیٹھے ہیں کہ باقی کاروبار کی نسبت زمینی کاروبار ریئل ہے۔ اصل زمینی حقیقت ایک ہی ہے کہ اللہ کی قسم! ہر ایک کو برابر قبر کی جگہ ملتی ہے‘ ایک جیسا لباس(کفن) ملتا ہے اور قبر پر مشتمل ہر انسان کی ریئل اسٹیٹ کا اختتام یہ ہے کہ ریئل اسٹیٹ سارا وجود کھا جاتی ہے اور نجانے ایک ہی قبر وجود کھاتی کھاتی کتنے سینکڑوں مردوں اور عورتوں کے وجود کو ایک ہی جگہ کھاتی رہتی ہے۔ یہ ہے ریئل اسٹیٹ کی ریئل حقیقت۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں تین جگہ پر دنیا کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ ارشاد فرمایا ''یہ دنیا کچھ نہیں ہے مگر ایک دھوکے (سراب) سے کچھ فائدہ اٹھانے کا موقع ہے‘‘ (آل عمران: 185، الاعراف: 22، الحدید: 20) بالکل وہی بات جسے آج سائنسی انکشاف سے بتایا گیا کہ اس دنیا کی حقیقت بس اسی قدر ہے جس قدر ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں اور جب تک دیکھتی ہیں یعنی فائدہ صرف آنکھ کے نظارے کا ہے۔ آنکھ بے چاری سطحی نظارہ کرتی ہے جبکہ اصل حقیقت کچھ بھی نہیں۔ آنکھ کو بنانے والے نے سطحی اس لیے رکھا تاکہ فائدہ اٹھا لیا جائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ''دنیا فائدہ اٹھانے کی جگہ ہے اور دنیا میں بہترین فائدہ مند شئے نیک بیوی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
یعنی نیک بیوی‘ جو نیک کاموں میں معاون ثابت ہو‘ اس کے ساتھ نیکیاں کرتے کرتے زمین پر وقت گزر جائے۔ جی ہاں!
جو چیز ریئل ہے وہ انسان کی روح ہے‘ جسے واپس آسمانوں میں جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو خواب و سراب اور دھوکے کا مقام بنا کر سورئہ حدید میں فرماتے ہیں کہ ''مقابلے کی دوڑ لگاؤ تو اللہ کی مغفرت کی جانب دوڑ لگاؤ اور اس جنت کی جانب دوڑ لگاؤ کہ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے۔ یہ جنت ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے۔ (جنت میں داخل ہو جانا) ہی تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘ ‘۔ (آیت 21) ۔ آئیے! آسمانی ریئل اسٹیٹ کے حصول کی جدوجہد میں اپنے دن رات ایک کر دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved