تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-12-2022

حل کیا بتلائیں؟

کہا جاتا ہے کہ روتے ہی رہتے ہو‘ کبھی مسائل کا حل بھی بتلایا کرو۔ بتلائیں تب کہ حل ہو۔ پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے امراض لاعلاج ہو چکے ہیں۔ ہوا میں باتیں کی جا سکتی ہیں لیکن مسائل کی نشاندہی کریں اور ممکنہ حل پیش کریں تو صاف عیاں ہو گا کہ کسی نے حل کی طرف جانا ہے نہ سوچنا ہے۔
پہلی مثال لے لیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جو طاقتور عناصر پراپرٹی کے کاروبار میں دھنسے پڑے ہیں اُن کا اس کاروبارسے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے اور جو تعلق بن چکا ہے‘ اُسے ختم ہونا چاہئے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ کوئی یہ بات مانے گا؟ جو طاقتور عناصر اس کاروبار میں پڑے ہوئے ہیں وہ کسی کے تابع نہیں‘ اُن کا حکم چلتا ہے اُن پر کوئی حکم چلا نہیں سکتا‘ تو پھر ایسا حل تجویز کرنا بیکار کی بات نہیں بن جاتی؟ اس کا مطلب ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار کے ذریعے جس طریقے سے دولت کا ارتکاز ہو رہا ہے اور جس طریقے سے شہر پھیلتے جا رہے ہیں اور زرعی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں‘ یہ سارا عمل پورے زور و شور سے جاری و ساری رہے گا اور اس پہ کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی نہ کوئی لگانے کی کوشش کرے گا۔
خزانہ پاکستان کا کنگال ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں کیا یہ ضروری نہیں بنتا کہ اپنے تیل اور پٹرولیم کے بل کو ہنگامی بنیادوں پر ہم نیچے لائیں؟ اگر جواب یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنا چاہئے تو پھر سوچ اس طرف جانی چاہئے کہ مارکیٹیں اور بازار مغرب سے پہلے بند ہو جائیں۔ مغرب تک چھوٹے بڑے شہروں میں تمام کاروباری مراکز اپنے شٹر نیچے کریں اور شہروں میں مغرب کے بعد تمام پٹرول پمپ بند ہو جائیں۔ ہوٹل اور ریستورانوں نے کھلے بھی رہنا ہے تو رات گیارہ بجے وہ بھی بند ہو جائیں۔ کیا کوئی مائی کا لعل یہ کرنے کے لیے تیار ہو گا؟ کیا تاجر برادری مان جائے گی؟ جب خزانہ خالی ہونے کے قریب ہے‘ ڈالر صرف ایک ماہ کی امپورٹ کے لیے کافی ہیں اور اُس سے زیادہ نہیں‘ تو اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں سخت اقدامات نہیں کرنے چاہئیں؟ لیکن بتائیے ایسا کون کرے گا؟ نہ حکومتوں میں اتنا دم خم ہے نہ تاجر برادری اتنی کمزور ہے کہ ایسے حکم سن لے اور اُن پر عمل شروع کرے۔
ہونا تو یہ بھی چاہئے کہ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ ملتان‘ فیصل آباد اور پشاور جیسے شہروں میں ہفتے میں دو دن موٹر کاروں کے استعمال پر مکمل پابندی ہو۔ یعنی ہفتے میں دو خاص ایسے دن ہوں جن میں کوئی موٹر گاڑی سڑک پر نہ نکلے۔ اعلان یہ بھی ہو کہ وزیراعظم‘ چیف منسٹر اور دیگر وزرا بھی ان دنوں میں موٹر گاڑیوں کا استعمال نہیں کریں گے۔ کابینہ کی میٹنگ میں بھی جانا ہو تو سپیشل بسوں میں اس کا انتظام ہو۔ کیا پاکستان کو ایسے حکمران نصیب ہوئے ہیں جو ایسا کر سکیں؟ یا کوئی پھر یہ بتائے کہ یہ احمقانہ تجویز ہے‘ پٹرول کی بچت فلاں فلاں طریقے سے ہونی چاہئے۔ بہت خوب‘ ایسی تجاویز سامنے لائی جائیں ۔ قوم اس مرض میں مبتلا ہو چکی ہے کہ سڑکوں پر موٹر گاڑیاں زیادہ آ گئی ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ جیسی ہونی چاہئے یا جس قسم کا ٹرانسپورٹ کا نظام ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہو چکا ہے‘ ایسا نظام ہم بنا نہیں سکے۔ موٹر گاڑیوں کے استعمال کو کم کیے بغیر پٹرولیم کے امپورٹ بل کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات واضح ہے لیکن اس ملک میں کوئی یہ بات مانے گا؟ لفاظی ہوتی رہے گی‘ سطحی باتیں کی جائیں گی لیکن جن اقدامات سے خود کو تھوڑی تکلیف پہنچے وہ کرنے کے لیے کوئی تیار نہ ہو گا۔
اس ملک میں ویلتھ ٹیکس یا جائیداد پہ ٹیکس ہونا چاہئے۔ ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا برائے نام حد تک لیکن کچھ نہ کچھ تھا۔ نوازشریف وغیرہ اقتدار میں آئے تو اُنہوں نے ویلتھ ٹیکس ختم کر دیا اور انکم ٹیکس نظام کو بھی عملاً تباہ کر دیا۔ نوازشریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو فرمان صادر ہوا کہ تاجر یا دکاندار جو بھی انکم ٹیکس ریٹرن دے محکمہ پابند ہو گا کہ من و عن اُسے تسلیم کرے اور اس کی کوئی تفتیش نہ ہو سکے گی۔ اس حکم کے بعد یہ مذاق سامنے آیا کہ بڑے بازاروں کے بڑے بڑے تاجر برائے نام ٹیکس دینے لگے۔ ویلتھ ٹیکس نافذ ہو اور انکم ٹیکس قوانین سخت کیے جائیں۔ تمام بڑے گھروں پر اور بڑی کاروں پر سالانہ ٹیکس لگنا چاہئے۔ ایسا کرنے کے لیے کوئی تیار ہو گا؟ بڑے لوگ یا جنہیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں وہ بغاوت پہ نہ تل جائیں گے؟ اور جب حکومتیں ہی انہی لوگوں کی ہیں تو ایسے اقدامات کے بارے میں سوچنا ہی محال ہے‘ عمل کرنا تو دور کی بات ہے۔ جن کا کمرشل میٹر ہے اُن کو ٹیکس نیٹ میں آنا چاہئے اور وہ شور مچائیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا چاہئے۔ اس ملک میں کیا ایسا ممکن ہے؟ وکیل اور ڈاکٹر اپنی صحیح انکم تو بتاتے نہیں‘ لہٰذا اُن پر سالانہ فکس ٹیکس ہونا چاہئے اور جو بڑے ڈاکٹر ہیں اُن پر دگنا‘ تگنا ٹیکس لگنا چاہئے۔ کوئی ایسا کرے گا؟ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ باہر پرائیویٹ پریکٹس نہ کریں۔ یہ اقدام کون کرے گا اور اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟
ہندوستان میں او لیول اور اے لیول کے امتحانات کو 1964ء میں ختم کر دیا گیا تھا۔ آج ہندوستان میں کوئی او یا اے لیول نہیں ہے۔ بیشتر پاکستانیوں کے علم میں یہ بات نہیں۔ کیا یہاں بھی یہ باہر کے امتحانات ختم نہیں ہونے چاہئیں؟ پر یہ جو پرائیویٹ سکولوں والے ہیں اور جو بہت طاقتور ہیں‘ کیا ایسا ہونے دیں گے؟ ان کی استدعا ہمیشہ یہ رہتی ہے کہ ہمارے امتحانات کمزور ہیں اور مثالی تعلیم کے لیے او اور اے لیول کے امتحانات ضروری ہیں۔ اول تو یہ کہ ہمارے بورڈ امتحانات میں نقائص ہیں تو اُنہیں دور کیا جائے اور دوم یہ کہ جو مثالی تعلیم کی مثال دی جاتی ہے‘ او اور اے لیول کے سکولوں نے کتنے ڈاکٹر عبد السلام پیدا کیے ہیں؟ خواہ مخواہ کی باتیں ہیں‘ اوپر کے طبقات کو او اور اے لیول کے امتحانات راس آتے ہیں کیونکہ ان کے بچے بہ آسانی باہر کی یونیورسٹیوں میں جا سکیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ باہر پڑھنے والوں کی زیادہ تعداد سائنس وغیرہ کے مضمون پڑھنے نہیں جاتی۔ کوئی ایم بی اے کر رہا ہوتا ہے‘ کوئی قانون کی ڈگری حاصل کرنے میں لگا ہوتا ہے۔ یہاں تو پابندی ہونی چاہئے کہ سائنس اور ریاضی کے مضامین کے علاوہ باہر کی تعلیم پر مکمل پابندی ہو۔ باہر کی تعلیم علم حاصل کرنے کے لیے ہونی چاہئے نہ کہ ایک فیشن کے طور پر۔
نصابِ تعلیم اس ملک میں ایک ہونا چاہئے‘ ایک قسم کی کتابیں ایک قسم کی تدریس اور ایک ہی قسم کے امتحانات۔ ایسا کون کرے گا؟ مذہب کی تعلیم گھر کے پاس مسجدوں میں ہونی چاہئے‘ جیسا کہ ہوا کرتا تھا۔ والدین قرآن پڑھنے بچوں کو مسجدوں میں بھیجا کرتے تھے۔ سکولوں اور کالجوں میں دوسرا نصاب ہوا کرتا تھا۔ تعلیم جب فنکاری اور ڈرامہ بازی کی نذر ہوئی تو سکول اور کالجوں میں طرح طرح کے مضامین پڑھائے جانے لگے۔ مثال کے طور پر جس قسم کا مضمون پاکستان سٹڈیز کے نصاب کا حصہ ہے‘ اُسے کیسا ہونا چاہئے؟ تاریخ پڑھیں جس میں تاریخِ پاکستان بھی ہو لیکن پاکستان سٹڈیز کے نام پر تو ایک عجیب قسم کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں افسانہ نگاری زیادہ اور حقیقت پر مبنی تاریخ کم پائی جاتی ہے۔ لیکن نصاب کو درست کرنے کی کوئی کوشش تو کریں۔ مگر پنجاب یونیورسٹی والے ہی قابو نہ آئے۔ پنجاب یونیورسٹی والوں کا ویسے ہی سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی لڑکی اور لڑکا مل بیٹھ کر چائے نہ پی سکیں۔ یہ چند مثالیں ہیں۔ اور کچھ کہیں گے تو بات لمبی ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved