تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     17-12-2022

پاکستان کیسے ٹوٹا؟

چند ماہ قبل ارضِ مقدس حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس روح پرور سفر کے دوران میں نے حرمین شریفین اور سعودی عرب کے دیگر شہروں میں بنگالی بھائیوں کو مختلف خدمات پر مامور دیکھا۔ مجھے یہ دیکھ کر مسرّت ہوئی کہ ہمارے یہ بھائی ہوٹلوں‘ ہسپتالوں‘ ہوائی اڈوں‘ دکانوں وغیرہ میں صفائی سے لے کر منیجرز تک کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں اور اپنے ملک کے لیے بھاری مقدار میں زرِمبادلہ کما کر ارسال کر رہے ہیں۔ مکۃ المکرمہ کے ایک ہوٹل میں ایک بنگالی روم اٹینڈنٹ نے کمرے میں کمبل‘ تولیے اور بہت سی چیزیں نہایت ادب کے ساتھ فراہم کیں اور پھر وہ لجاجت سے کہنے لگا ''صاب کوئی غلطی ہو گیا ہو تو معاف کر دیں‘‘۔
یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے بنگالی نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ بیٹے! غلطی تو ہم سے ہوئی تھی‘ بہت بڑی غلطی۔ تاریخ سے ناواقف بنگالی لڑکا حیرت سے میرا منہ تکنے لگا۔ سقوطِ بغداد اور سقوطِ غرناطہ کے بعد سقوطِ ڈھاکہ بھی بہت بڑا المیہ ہے۔ہم نے اس ٹریجڈی کے حقیقی اسباب معلوم کرنے اور اُن سے اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور بار بار انہی غلطیوں کو دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ ہماری عسکری قیادت نے اس المیے کو جنم دینے والے عوامل کے خاتمے کی طرف کوئی توجہ کی اور نہ ہی ہماری سیاسی لیڈرشپ نے اپنی انائوں کے اڑیل گھوڑے کو لگام دینے اور باہمی مشاورت و مفاہمت کی طرف آنے کی کوئی حقیقی سعی کی۔
اہلِ حکمت و دانش کہہ گئے ہیں کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے غلطیوں‘ خامیوں اور کوتاہیوں کا ایک طویل سلسلہ موجود ہوتا ہے۔ بلاشبہ کسی ملک کی سرکاری زبان ایک ہو تو باہمی الفت و یگانگت پروان چڑھتی ہے؛ تاہم کسی ملک کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر سرکاری زبان ایک سے بڑھ کر بھی ہو سکتی ہیں جیسا کہ کینیڈا میں ہے۔ اردو کو دونوں صوبوں میں نافذ کرنے پر مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج ہوا۔ ہمارے سیاسی اربابِ بست و کشاد کو بہت دیر سے اس کا ادراک ہوا کہ سنگینوں سے دلوں کو مسخر نہیں کیا جا سکتا۔
تقسیمِ ہند سے پہلے بنگال سے تعلق رکھنے والے مقبول رہنما حسین شہید سہروردی اپنی ایک سیاسی جماعت کے صدر تھے۔ جب 1936 ء میں قائداعظمؒ نے ایک وفد کے ذریعے انہیں مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی تو انہوں نے قائداعظم کی پکار پر لبیک کہا اور مسلم لیگی بن گئے اور اپنی پارٹی کو اس میں ضم کر دیا۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا تو اسی سہروردی کو حیلوں بہانوں اور سازشوں سے پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر دیا گیا۔
جب سہروردی جیسے محبِ وطن پر مسلم لیگ کے دروازے بند کر دیے گئے تو انہوں نے 1949 ء میں اپنی نئی جماعت عوامی لیگ قائم کر لی جس کے سربراہ وہ خود اور جوائنٹ سیکرٹری نوجوان شیخ مجیب الرحمن تھے۔ 1956 ء میں حسین شہید سہروردی وزیراعظم پاکستان بن گئے تو انہیں کچھ ہی مدّت بعد وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروا کے حوالۂ زنداں کر دیا گیا۔ پھر ایوب خان نے 1956 ء کے جمہوری اور متفقہ آئین کی بساط بزورِ شمشیر لپیٹ دی اور مارشل لاء نافذ کر دیا۔ انہوں نے 1962 ء کا صدارتی دستور نافذ کر کے ''بنیادی جمہوریتوں‘‘ کا غیر جمہوری طریق کار متعارف کروایا۔ اسی بالواسطہ ووٹنگ کی دھاندلی کے ذریعے ایوب خان نے قائداعظم ؒ کے بعد قوم کے لیے سب سے محبوب و محترم ہستی محترمہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس طرح کے آمرانہ اقدامات کے نتیجے میں حریت پسند اور جمہوریت نواز بنگالی بھائیوں نے سوچنا شروع کر دیا کہ انگریزوں کی غلامی کے بعد ہمیں کب تک مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور افسروں کی چاکری کرنا پڑے گی۔
دس‘ گیارہ برس من مانی کرنے اور آمرانہ حکمرانی کے بعد جب جنرل ایوب خان کو عوامی مطالبات کے سامنے سرِتسلیم خم کرنا پڑا تو جاتے جاتے وہ اپنے ہی دیے ہوئے دستور کے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے تازہ دم جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر گئے۔ جنرل یحییٰ خان نے ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر الیکشن کرانے اور بنگالیوں کی فوج میں تعداد دوگنی کرنے کی نوید جولائی 1969 ء میں قوم کے نام اپنے ابتدائی خطاب میں سنائی۔ ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے مصنف بریگیڈیئر صدیق سالک 1970 ء کے ڈھاکہ کی تصویرکشی اپنی کتاب میں یوں کرتے ہیں کہ ان دنوں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ‘ جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی بہت سرگرم تھیں ۔ 11 جنوری کو ڈھاکہ پلٹن میدان میں عوامی لیگ نے اپنا پہلا انتخابی جلسہ منعقد کیا کہ جو بہت کامیاب تھا۔ عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ 1956 ء کے دستور میں بنگالیوں نے برابری کے اصول کو تسلیم کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی مگر اب ہم کسی کو ''برابری‘‘ دوبارہ ٹھونسے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایک ہفتے بعد جماعت اسلامی نے جنوری 1970 ء میں اسی پلٹن میدان میں اپنا جلسہ منعقد کیا جس پر عوامی لیگ کے کارکنوں نے حملہ کر دیا اور جماعت کے دو افراد کو ہلاک اور 50 کو زخمی کر دیا۔ امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو بغیر تقریر کے جلسہ گاہ سے واپس جانا پڑا۔ انتخابی مہم کا آغاز جنوری 1970 ء میں ہوا اور اس کا اختتام 7 دسمبر 1970 ء کو انتخابات کے انعقاد پر ہوا۔ گویا مسلسل ایک سال تک مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو انتخابی مہم چلاتے رہے۔ انہیں عوامی جذبات بھڑکانے اور محرومیوں کی سچی جھوٹی کہانیاں سنانے کی آزادی تھی۔
عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 160 نشستیں جیت لیں مگر مغربی پاکستان میں وہ ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی 138 میں سے 81 نشستیں جیت کر پورے مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بلاچون و چرا پورے پاکستان کی اکثریتی پارٹی کو اقتدار سونپ کر اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی مگر بھٹو صاحب نے غیرجمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور سندھ طاقت کے سرچشمے ہیں انہیں نظرانداز کر کے کوئی حکومت وجود میں نہیں آ سکتی۔ یحییٰ خان نے 3 مارچ 1971 ء کو قومی اسمبلی کا بلایا گیا اجلاس کوئی متبادل تاریخ دیے بغیر منسوخ کر دیا۔ اس پر مشرقی پاکستان میں شدید ردِّعمل کا اظہار کیا گیا۔ 26 مارچ 1971 ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت ہوئی۔ نتیجتاً پہلے خانہ جنگی شروع ہو گئی اور پھر بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں اور یوں ہمیں وہ روز سیاہ دیکھنا پڑا جس روز ہماری فوج کے لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
مشرقی پاکستان توڑنے کی مرکزی ذمہ داری جنرل یحییٰ خان پر عائد ہوتی ہے کیونکہ 1969 ء سے 1971 ء تک وہی متحدہ پاکستان کے مالک و مختار تھے۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی اس سانحے کا باعث بنا۔ ہمارے سیاستدانوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ آج بھی پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انائوں میں جکڑی ہیں اور عوام مہنگائی کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ ہمارے قائدین کو ہدایت دے اور پاکستان کو اس طرح کے حوادث و سانحات سے محفوظ رکھے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved