پہلی سالگرہ کا خیال آئے تو ایک معصوم بچے کا تصور ابھرتا ہے جس نے ابھی پائوں پائوں چلنا سیکھا ہو۔ لیکن جب ہم روزنامہ دنیا کو پہلی سالگرہ پر دیکھتے ہیں تو یہ ایک ایسا نومولود نظر آتا ہے جس نے پہلے ہی سال میں شیرخوارگی اور طفلی کے تمام مراحل طے کرکے جوانی میں قدم رکھ دیا ہے۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو اشاعت شروع کیے ابھی ایک سال ہوا ہے لیکن اس نے اس قلیل مدت میں ہی کامیابیوں اور کامرانیوں کی ایک کہکشاں سمیٹ لی ہے۔ اور بارہ ماہ کی مختصر مدت میں قارئین کا ایک وسیع حلقہ پیدا کرلیا ہے۔ Exclusiveخبروں اور دیدہ زیب لے آئوٹ کے ساتھ روزنامہ’’ دنیا‘‘، بلامبالغہ پاکستان کا نمایاں ترین اخبار ہے۔ ایک لمبا عرصہ عملی صحافت میں گزارنے کے بعد میں جانتی ہوں کہ جب بھی مارکیٹ میں کوئی نیا اخبار آتا ہے تو پہلے سے موجود، اخبارات کے دفاتر میں مقابلے کی فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ نئے اخبار کے حوالے سے کئی طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگتی ہیں۔ نیا اخبار اگر عوام میں مقبولیت حاصل کرنا شروع کردے تو پھر پہلے سے موجود اخبارات میں بھی نئی ’’صف بندیاں‘‘ شروع ہوجاتی ہیں۔ ’’عمر رسیدہ ‘‘ اخبارات میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی دفتر میں پرانے کام کرنے والوں کے درمیان کوئی قابل اور باصلاحیت نوجوان آجائے تو وہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمیؔ کا کمال کا شعر ہے ؎ یہ ارتقاء کا چلن تھا کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے روزنامہ’’ دنیا‘‘ بھی ایسا ہی نووارد ہے جس نے عمررسیدہ اخبارات کو حقیقت میں Tough Timeدیا ہے۔ اخبار کی اس کامیابی کا کریڈٹ یقینا پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ اخبار کے گروپ ایڈیٹر نذیر ناجی، جہاندیدہ صحافی اور کہنہ مشق کالم نگار ہیں‘ ایڈیٹر کی حیثیت سے انہوں نے ذمہ داریاں خوب نبھائی ہیں۔ اخبار کے ہرشعبے میں یقیناایسے افراد موجود ہیں جو انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہیں۔ ایڈیٹوریل کے صفحات بہت خوب صورت ہیں۔ بہترین اور مقبول کالم نگاروں کی ایک کہکشاں موجود ہے۔ ہارون الرشید جیسے باکمال صاحب طرز کالم نگار، اوریا مقبول جان، اظہار الحق اور خورشید ندیم جیسے دانش میں پروئی بات کہنے والے لکھاری بھی اسی اخبار کا حصہ ہیں۔ عہد حاضر کے دوبڑے شاعر جناب ظفراقبال اور اسلم کولسری بھی روزنامہ دنیا کا حصہ ہیں۔ رپورٹنگ‘ میگزین اور نیوزروم میں بہترین پروفیشنل لوگوں کے ٹیم ورک نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو پہلے ہی سال میں شیرخوارگی سے نکال کر جوان رعنا کی صورت میں ڈھال دیا ہے۔ اب ذرابات ہو جائے ان چیدہ چیدہ خصوصیات کی جو روزنامہ دنیا کا خاصہ ہیں اور جس کی بناپر میری ناقص رائے میں اخبار کو مارکیٹ میں موجود دوسرے اخبارات پر فوقیت حاصل ہے۔ شعبہ میگزین سے میری لمبی وابستگی رہی ہے، میں اسی حوالے سے بات کروں گی ۔ اخبار میں میگزین کے شعبے میں بہترین لکھاریوں ، خاص مہارت اور حس جمالیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ میگزین میں انفارمیشن کے ساتھ ساتھ خوب صورت اظہار بیان کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک بہترین تحریر کو خوب صورت لے آئوٹ اور ڈیزائننگ کے ساتھ اخبار کی زینت بنانا بھی اسی قدر ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح میگزین ایڈیٹر‘ سب ایڈیٹر اور شعبہ ڈیزائننگ کے ماہرین تک ایک ٹیم کام کرتی ہے اور پھر اس کے بعدایک دیدہ زیب رنگین صفحہ، میگزین اور سنڈے میگزین قاری کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے۔ روزنامہ دنیا کا سنڈے میگزین خوب صورت ٹیم ورک کی بہترین مثال ہے۔ موضوعات کا چنائو، تحریر کا انداز، رنگوں کا امتزاج۔ ڈیزائننگ، لے آئوٹ، سب کچھ بہت دیدہ زیب ہے۔ کالم نگار اور ایڈیٹر میگزین عامر خاکوانی کی پوری ٹیم اوروہ خود مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سید عاصم محمود جیسے محنتی اور کرامت بھٹی جیسے خوبصورت تحریر لکھنے والے صحافی اس شعبے کا حصہ ہیں۔ دنیا ڈائجسٹ کو روزانہ ترتیب دینا اور اس میں خوب صورت تنوع قائم رکھنا مشکل کام ہے۔ دنیا ڈائجسٹ نے ایک نیاٹرینڈ دیا ہے۔ قارئین کو پڑھنے کے لیے روزانہ اتنا خوب صورت مواد کسی اور اخبار میں ملنا مشکل ہے۔ روزنامہ دنیا کی پہلی سالگرہ پر اس میں کام کرنے والے ایڈیٹرسے لے کر ہیلپر تک تمام افراد خوش ہیں مگر سب سے زیادہ خوش اور شکر گزار یقینا وہ ہے جس نے جانے کب اس خواب کو دیکھا اور پھر اس کی تعبیر کے لیے کوشاں ہوا۔ اور وہ ہیں روزنامہ’’دنیا‘‘ کے ایڈیٹر انچیف میاں عامر محمود ۔ خواب کو تعبیر میں ڈھالنے تک کا سفر آسان کب ہوتا ہے۔ اس کے لیے مستقل مزاجی‘ عزم اور ایک کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس کمٹمنٹ کو پورا کرنے میں یقینا اخبار کی پوری ٹیم نے ان کا ساتھ نبھایا ہے۔ ایڈیٹوریل سے لے کر شعبہ اشتہارات تک سبھی لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔’’دنیا‘‘ ایک ایسا اخبار ہے جو اہل اقتدار سے لے کر غریب شہر تک کی بات کرتا ہے۔ طبقہ اشرافیہ کے حالات بھی بتا تا ہے اور تہی کیسہ ، بے وسیلہ بے کسوں کی حالت زار بھی۔ ان دو دنیائوں میں توازن رکھنا اور بحیثیت اخبار نویس اپنی ذمہ داریاں دیانت سے ادا کرنا کارمشکل ہے۔ روزنامہ’’دنیا‘‘نے اس توازن کو بھی خوب صورتی سے قائم رکھاہے۔ برطانوی شاعر Rudyard Kiplingکی ایک نظم ہے \"IF\"‘ جوایک جہاندیدہ باپ کی طرف سے اپنے نوجوان بیٹے کے نام ایک نصیحت ہے اور سراٹھاکر جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔ اس کی چند لائنیں یہاں تحریر کرتی ہوں۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ مجھے بھی روزنامہ’’دنیا‘‘ کی ٹیم کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔ If you can talk with crowds and keep your virtue, Or walk with kings - nor lose the common touch, If neither foes nor loving friends can hurt you, If all men count with you, but none too much; If you can make one heap of all your winnings And risk it on one turn of pitch-and-toss, And lose, and start again at your beginnings And never breathe a word about your loss; Yours is the Earth and everything that\'s in it, And - which is more - you\'ll be a Man my son! (نوٹ: نظم کی یہ لائنیں ، مختلف Stanzasسے منتخب کی گئی ہیں )۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved