الغرض خان صاحب اپنی سیاست اور حکمرانی میں مقتدرہ پر ہی انحصار کرتے رہے، لہٰذا وہ ایک منجھے ہوئے اور پختہ کار سیاست دان نہ بن سکے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو وہ اپنے مخالف سیاست دانوں سے مُکالمہ کرتے، ان کے لیے ایک درجۂ قبولیت پیدا کرتے، سیاست ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنے کا نام ہے، ہمارے سیاسی اثاثے میں کوئی بھی سو فیصد پارسا نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے عیوب کم ہوں اور کسی کے زیادہ۔ سیاست قبائلی اور نسلی عداوتوں کی طرح دوسروں کو فنا کے گھاٹ اتارنے، منظر سے غائب کرنے اور نیست و نابود کرنے کا نام نہیں ہے، آپ عدالت نہیں ہیں کہ کسی کے مجرم یا بے قصور ہونے کے فیصلے صادر فرمائیں‘ یہ عدالتوں کا کام ہے۔
لیکن یہ قوم 2011ء سے خان صاحب کی زبانِ مبارک سے چور ڈاکو کے القاب کے ساتھ ایک ہی تقریر سنتی چلی آئی ہے، اب اُبکائی آنے لگتی ہے۔ صرف ان کے محبین کو ہی اُن کا یہ طرزِ خطابت بھلا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ سائنسی طریقے سے ان کے ذہنوں کو ایک خاص سوچ اور فکر کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے اور اس سانچے کا بدلنا آسان نہیں ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: ''ہمارا ذہنی سانچا آہنی ہے، اسے آپ توڑ سکتے ہیں، موڑ نہیں سکتے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے عہدِ اقتدار میں خان صاحب کا من پسند مشغلہ ترجمانوں کا اجلاس ہوتا تھا کہ مخالفین پر یلغار کیسے کی جائے، ان کی توہین و تحقیر کرکے لطف کیسے اٹھایا جائے۔ ان کے حکمرانی کے ''توشہ خانہ‘‘ میں ایسا کوئی اثاثہ تھا ہی نھیں، جس کی وہ مارکیٹنگ کر سکتے، سو اپنی خوبیوں پر جینے کے بجائے دوسروں کی حقیقی یا مفروضہ خامیوں پر انہوں نے اپنی سیاست کی بساط بچھائی۔ چنانچہ آخرِ کار قمر جاوید باجوہ صاحب کے بقول‘ 2021ء میں انہوں نے خان صاحب سے کہا: ''اب آپ اپنی حکومت اپنے بل پر چلائیں‘‘۔
آج سپریم کورٹ نااہلی کے بارے میں جو ریمارکس دے رہی ہے، ذرا ان کا تقابل 2017ء تا 2018ء کے عدالتی ریمارکس اور عالی مرتبت جج صاحبان کے فیصلوں سے کر کے دیکھ لیں، فرق سمجھ میں آجائے گا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار شیخ رشید کو بغل میں لے کر ان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے، اُس شعار کو خان صاحب اور اُن کی جماعت کے لیے ''سنہری دور‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، مگر تاریخ میں اسے ''تاریک ترین دور‘‘ سے تعبیر کیا جائے گا۔ پس اس غیبی امداد نے خان صاحب کو حقیقی سیاست دان بننے نہ دیا۔
اب باجوہ صاحب نے خان صاحب کے الزامات کا بالواسطہ جواب دیتے ہوئے کہا: ہم نے مارچ 2021ء میں انہیں کہا: ''اب اپنی حکومت خود چلائیے‘‘، کیونکہ ان کی بری حکمرانی کی ساری ذمہ داری اداروں پر آ رہی تھی، تو خان صاحب نے کہا: ''تین کام اب بھی آپ اپنے ذمے لیے رکھیں: ''یعنی بجٹ پاس کرنے کے لیے ارکانِ پارلیمنٹ کو گھیر گھار کر لانا، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو ڈیل کرنا، سفارت کاری اور چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زرِ مبادلہ کی اعانت حاصل کرنا‘‘۔ مختلف ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں خان صاحب جو بگاڑ پیداکرتے تھے‘ ان کو سدھارنے کا کام پہلے ہی انہوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ حکمرانی کے جو کام انہوں نے خود کیے، آج وہ بزبانِ خود انہیں اپنی غلطیاں قرار دے رہے ہیں، ان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس، جنرل باجوہ کی توسیع، روس کا دورہ، بلڈر مافیا کے لیے کالا دھن سفید کرنے کا قانون اوردیگرغیر معمولی مراعات دینا شامل ہیں۔ وہ نواز شریف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے کو بھی اپنی غلطی قراردیتے ہیں۔
یہ کتھا سنانے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدرہ نے خان صاحب کو اپنے پائوں پر چلنے نہ دیا، ہمیشہ انگلی پکڑ کر چلاتے رہے، وہ اپنے بل پر نظام کو چلانے کے بجائے مقتدرہ کے کندھوں پر سوار ہوکر چلانے کو ترجیح دیتے رہے، آخر میں جب ہاتھ کھینچ لیا گیا تو ایک معروف پراپرٹی ٹائیکون سے فرمائشیں کرتے رہے : ''زرداری سے پیچ اَپ کرائو‘‘۔ گویا اگر زرداری صاحب اُن کے اقتدار کے بچائو کے لیے آ جاتے تو اُن کے تمام عیوب دُھل جاتے، دامن بے داغ ہو جاتا، کردار اُجلا ہو جاتا، جیساکہ خان صاحب اپنی کابینہ میں ایم کیو ایم کے وزرا کے بارے میں کہتے تھے: ''میں تو ان سے بہت ڈرا ہوا تھالیکن یہ تونہایت مہذب اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں‘‘، اُن کا دہشت گرد اور قاتل ہونا سب باتیں قصۂ پارینہ بن چکی تھیں، اسی پالیسی کے تحت چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا۔ الغرض وہ نازنین سے سیاست دان نہ بن سکے، یہ ذہنی ساخت، طبعی نہاد اور ادائیں آج بھی اُن کے پائوں کی زنجیر ہیں۔ آج بھی وہ خود رائی، خود پرستی، اپنی پارسائی کے زُعم میں مبتلا ہیں۔ وہ اب ترجمانوں کی جگہ مَن پسند ''یوٹیوبرزاور وی لاگرز‘‘ کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہیں، حالانکہ بہت سی ایسی باتیں منصّۂ شہود پر آچکی ہیں کہ وہ بھی اخلاقی سطح پر ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے دیگر سیاسی رہنما۔ ابھی تو ان کا اُس طرح احتساب شروع ہی نہیں ہوا، جیساکہ انہوں نے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کر رکھا تھا، کیونکہ یہ باور کیا جاتا ہے کہ اداروں میں اب بھی ان کے لیے ہمدردی کا ایک واضح جذبہ موجود ہے، تاحال اُن کو تحفظ دیا جا رہا ہے، اس کے باوجود فواد چودھری عدلیہ سے خائف نظر آتے ہیں۔
جس طرح خان صاحب اپنی بیشتر تقریروں اور انٹرویوز میں کرکٹ ورلڈ کپ، شوکت خانم، نمل کالج وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں، لگتا ہے: وہ دوسرے ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے ساتھ اپنے فضائل سے گفتگو شروع کرتے ہوں گے، کیونکہ باجوہ صاحب نے بالواسطہ طور پر اپناجو موقف دیا ہے، اس میں کہا ہے: ''خان صاحب سفارتی آداب سے ناواقف تھے، وہ یہ بھول جاتے تھے کہ وہ دوسرے ملک کے سربراہ کے ساتھ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے ہم کلام ہیں، وہ نرگسیت اور ذاتی فضائل و کمالات کے حصار سے نکل نہیں پاتے تھے‘‘۔
وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزولی کے بعد انہوں نے جلسوں اور ریلیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ ماضی میں جب ہماری ہاکی ٹیم کے پاس ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی اور ایشیا کپ سمیت سارے اعزازات تھے، ایک بار لوئر ٹوپہ میں ایک ٹورنامنٹ کے لیے ان کا طویل ٹریننگ کیمپ منعقد کیا گیا، مگر جب وہ میدان میں اترے تو نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا، کیونکہ طویل ٹریننگ کیمپ نے انہیں تھکا دیا تھا اور وہ تازم دم نہیں تھے؛ چنانچہ میں نے لکھا تھا: ''خان صاحب قومی انتخاب کا اصل معرکہ آنے سے پہلے اپنے کارکنوں کو تھکا دیں گے‘‘، اب اُن کے ہمدرد اعتزاز احسن نے کہا ہے: ''خان صاحب نے اپنے کارکنوں کو تھکا دیا ہے، اب انہیں آرام دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ انتخاب کے لیے وہ تازہ دم ہو جائیں‘‘۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے عہدِ حکومت کا جائزہ لیں، اپنی کامیابی اور ناکامیوں کا زائچہ بنائیں اور ناکامیوں کے اسباب کا تعین کریں، آئندہ کے لیے یکسو ہو کر حکمتِ عملی مرتب کریں، قابل لوگوں کی ٹیم منتخب کریں، نااہل اور چاپلوس قسم کے لوگوں کو اپنی صفوں سے نکالیں، مدح و ستائش کے شِعار کو ترک کر کے آزادانہ بحث وتمحیص کی روش اپنائیں۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کی توہین، تحقیر اور تذلیل کا جو شعار انہوں نے اختیار کر رکھا ہے، اسے یکسر ترک کریں، شریعت کی نظر میں یہ ''معروف‘‘ نہیں بلکہ ''منکَر‘‘ ہے۔
ان کے سابق رفیقِ خاص فیصل واوڈا اور وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے بھی کہا ہے: ''خان صاحب کے گرد و پیش خاص مقرّبین میں بعض ایسے لوگ ہیں جو مقتدرہ سے اُن کی دوری کا باعث بنے ہیں‘‘، انہوں نے یہ بھی کہا: ''بعض لوگ پارٹی قیادت اور وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں‘‘۔ لہٰذا پنجابی محاورے کے مطابق خان صاحب کو ''اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے‘‘ کی بھی ضرورت ہے۔ 10 اپریل سے 8 ماہ انہوں نے گزار ہی لیے ہیں اور 25 اگست تک ساڑھے آٹھ ماہ کی مدت باقی ہے، یہ بھی گزر جائے گی اور اکتوبر 2023ء میں وہ بھرپور تیاری کے ساتھ آئندہ قومی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس دوران اگر چاہیں تو قومی اسمبلی میں واپس جا کر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ نیز اگر اس عرصے میں معیشت کی گاڑی دوبارہ ٹریک پر چڑھ جاتی ہے، تو یہ اُن کے بھی مفاد میں ہو گا، ورنہ انہیں پھر صفر یا منفی درجے سے سفر شروع کرنا ہو گا، یہ بات ہم اس مفروضے پر لکھ رہے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ آئندہ انتخاب انہوں نے ہی جیتنا ہے۔ سیاسی تلاطم میں جب تک ٹھیرائو نہیں آئے گا اور سیاسی عدمِ استحکام کا تاثّر دور نہیں ہوگا، قومی معیشت کی بحالی یقینا متاثر ہو گی اور اس کا خمیازہ تمام سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت معیشت فوری ڈیفالٹ سے بچنے کے باوجود خطرے سے باہر نہیں آئی‘ آکسیجن ٹینٹ میں ہے، قریبی دوست ممالک بھی ایک منقسم قوم کی مدد کے لیے کیسے ہاتھ بڑھائیں گے، نہ کوئی اندھے کنویں میں چھلانگ لگاتا ہے اور نہ اندھیرے میں تیر چلاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved