تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-09-2013

کارکردگی میں جمود

محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی روایتی خصوصیات کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ نئی حکومت کی روایتی رفتار کو متاثر کر دیاہے۔ ورنہ نوازشریف تو اقتدار سنبھالتے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ڈھیلے ڈھالے اور سست رو پرزوں کو‘ تیزی سے حرکت میں لے آتے تھے۔ بائوگیری کی غنودگی توڑ کے‘ انہیں تیزرفتاری سے کام کرنے پر لگا دیتے تھے اور بہت جلد عوام کو محسوس ہونے لگتا تھا کہ اب ان کے کام ہوا کریں گے اور ہوتا بھی ایسے ہی تھا۔ موبائل ٹیلیفون کی سکیم میں تیزی لائے تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں سیل فون پھیل گئے۔ ییلوکیب سکیم لائے‘ تو شہر شہر‘ گلی گلی پیلی ٹیکسیاں فراٹے بھرتی نظر آنے لگیں۔ ایک بار وہ سندھ کے دورے پر گئے‘ تو واپسی پر نہایت خوش تھے۔ جب انہیں سندھ کے دوردراز گائوں میں پیلی ٹیکسیاں دھول اڑاتی نظر آئیں اور پھر موٹروے کا عظیم منصوبہ بھی شروع ہو گیا اور اگر اس کے مکمل ہونے کا عرصہ شمار کیا جائے‘ تو صرف 15مہینے بنتا ہے۔ البتہ اس کی تعمیر میں وقفہ طویل پڑ گیا تھا۔ موٹروے کو شروع کئے ابھی 8مہینے ہی گزرے تھے کہ ان کی حکومت توڑ دی گئی اور اس دوران جو نئی حکومت آئی‘ اس نے موٹروے پر سارے کام بند کرا دیئے۔ تعمیر درمیان میں رک جائے‘ تو بہت سے کام خراب بھی ہو جاتے ہیں اور جب دو ڈھائی سال کے بعد دوبارہ تعمیرشروع کی جائے‘ تو یقینی طور پر اصل میں مقرر کی گئی مدت سے تکمیل کے لئے مقررہ وقت بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی نوازشریف 1997ء میں دوبارہ وزیراعظم بنے‘ انہوں نے پہلی فرصت میں موٹروے کی تعمیر کا کام پھر سے شروع کرا دیا۔ اس میں مذاکرات کی وہ مدت بھی شامل ہے‘ جو ٹھیکے کی شرائط ‘طویل تعطل کی بنا پر دوبارہ طے کرنا پڑیں۔ لیکن یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ موٹر وے 1997ء کے دوران ہی ٹریفک کے لئے کھول دی گئی تھی۔ اب بھی وہی نوازشریف ہیں۔ لیکن ان کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد جس طرح بیوروکریسی کی زنگ آلود مشینری تیزی سے حرکت میں آ جاتی تھی‘ اس بار ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔ حکومت کے 3مہینے پورے ہو چکے ہیں۔ یہ وہ گریس پیریڈ ہوتا ہے‘ جو کسی بھی جمہوری حکومت کو عوام دیتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان 90یا 100 دنوں میں حکومت کچھ نہیں کرے گی۔ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ حکومت ‘ اختیارات سنبھالنے کے بعد زیرعمل منصوبوں کا جائزہ لیتی ہے۔ اپنی طرف سے جو منصوبے شروع کرنے کی تیاریاں کی گئی ہوتی ہیں‘ ان کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ اس کے بعد ترجیحات کے مطابق منصوبوں پر عملدرآمد کے انتظامات کر کے کام شروع کرنے کے اعلانات ہونے لگتے ہیں اور 90 دن ختم ہونے سے پہلے پہلے منصوبوں پر عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اگر وہ کوئی تعمیری کام ہے‘ تو اس کی افتتاحی رسوم ادا ہونے لگتی ہیں اور اگر انتظامی اصلاحات ہیں‘ تو انہیں بروئے عمل لانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ اس بار نوازشریف کا روایتی انداز کار کہیں نظر نہیں آ رہا۔ نہ کوئی بڑا منصوبہ شروع ہوا۔ نہ حکومتی کام کاج میں اس طرح کی تبدیلی آئی اور نہ کسی نئی پالیسی کے نفاذ کا آغاز ہوا۔ اس سے بہتر ابتدا تو نو آموز حکمران آصف زرداری کی تھی۔ وہ پہلی مرتبہ کسی حکومت کے انتظامی سربراہ بنے تھے۔ وہ ایک وزیراعظم کے شوہر کی حیثیت سے سرکاری کام ہوتے ہوئے تو دیکھ چکے تھے۔ لیکن دیکھنے اور کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ پہلی بار کوئی بھی کام تیزی سے نہیں کیا جا سکتا اور حکومت تو ایک بہت بڑا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس کے تمام کل پرزوں کو پہلی بار دیکھنے اور سمجھنے کے لئے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے مزاج کو سمجھنا اور اس سے کام لینا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور زرداری صاحب کے ساتھ تو ایک دشواری یہ بھی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ اور مخالفین کی ملی بھگت سے‘ ان کے خلاف دو عشروں تک مخالفانہ مہم چلا کر ‘ ان کے کردار کو بری طرح مسخ کیا گیا تھا۔ بغیر کسی ٹرائل اور عدالتی فیصلے کے‘ ان کے جرائم کا گہرا تاثر پیدا کر دیا گیا تھا۔ حد یہ تھی کہ میڈیا میں ان جرائم کو یوں دہرایا جانے لگا‘ جیسے واقعی سرزد ہوئے ہوں۔ زرداری صاحب غالباً دنیا کے واحد سیاسی لیڈر ہیں‘ جن کے ناکردہ گناہوں پر انہیں اتنے ناموافق حالات کا مقابلہ کرنا پڑا ہو۔ مجھے یاد ہے‘ جب وہ صدر بنے تو میڈیا اس بری طرح سے ان کی کردارکشی پر اترابلکہ بپھرا ہوا تھا کہ مجھے ان کا دفاع کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ غالباً میں اکیلا ہی تھا جس نے ان کے دفاع میں کھڑے ہو کر‘ ان کے غضب ناک مخالفین کا سامنا کیا۔لیکن صرف ایک کالم کہاں تک اثر انداز ہو سکتا تھا؟ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ حریفانہ سلوک کر رہی تھی۔ اپوزیشن بہت طاقتور تھی۔ وہ حکومت میں نئے نئے تھے۔ ان کے حریف نوازشریف سیاست میں بے نظیربھٹو جیسی شخصیت سے محاذآرائی کر کے آگے آئے تھے اور دو مرتبہ اقتدار میں رہنے کا انہیں تجربہ بھی تھا اور آصف زرداری کے سامنے جتنے بڑے بڑے چیلنج تھے‘ انہیں یاد کر کے آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ پہلی مرتبہ حکومتی امور کا چارج لینے والے آصف زرداری نے ان کا سامنا کیسے کیا ہو گا؟ سب سے بڑا مسئلہ اپوزیشن تھی‘ جس کی سربراہی نوازشریف کر رہے تھے۔ انہوں نے آئینی ترامیم کے سوال پر قدم قدم پر حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کیں۔ ایسے ایسے زوردار حملے کئے‘ جن کے سامنے صدر زرداری کا قدم جما کر کھڑے رہنا مشکل تھا اور مذاکراتی مراحل میں ان پر برا وقت بھی آیا۔ مگر وہ ہر طرح کے الزامات کو برداشت کرتے ہوئے‘ آگے قدم بڑھانے کی کوشش میں لگے رہے۔ لیکن ان کی ہر کوشش کو مضبوط مخالفین نے تیزرفتاری سے ناکام بنایا اور بدنصیبی سے انہیں غیرجمہوری قوتوں کے جو وار سہنے پڑے‘ ان سے بچنے میں اپوزیشن مدد کرنے کی بجائے‘ دبائو ڈالنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوتی رہی۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ جمہوریت کے ساتھ نوازشریف کی کمٹمنٹ میں فرق نہیں آیا۔ جب بھی غیرجمہوری قوتیں ‘ حکومت کو قبل ازوقت گرانے کی طرف بڑھنے لگتیں اور مخالفین آگے بڑھ کر فوج کو مداخلت پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے‘ نوازشریف فوراً سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے اور اعلان کر دیتے کہ اگر غیرجمہوری قوتوں نے حکومت کو قبل ازوقت گرانے کی کوشش کی‘ تو وہ اس کے دفاع کے لئے سامنے آ کر کھڑے ہو جائیں گے۔ آصف زرداری کا دوسرا مسئلہ ان کا اپنا پیدا کردہ تھا۔ صدر بن کر وہ مجبور ہو گئے کہ وزارت عظمیٰ اپنے کسی ساتھی کے سپرد کریں۔ یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ جن دو افراد کو انہوں نے وزارت عظمیٰ کے قابل سمجھا‘ وہ دونوں ہی پارٹی اور عوام کے بجائے‘ صرف اپنے مفادات کو دیکھتے رہے اور ان کا طرزکارکردگی پارٹی اور اس کی قیادت کے لئے بوجھ بنا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی خدمت کے لئے کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کر سکے۔ دوسرا انہیں کولیشن پارٹنرز نے جکڑ رکھا تھا۔ وہ ایک اتحادی پارٹی کو مناتے‘ تو دوسری نئے مطالبے لے کر آگے کھڑی ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ انہیں اپنوں اور غیروںدونوں سے لڑتے ہوئے وقت گزارنا پڑا۔ یہ مسائل نوازشریف کو درپیش نہیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ‘ ان سے کھل کر نہیں لڑ سکتی۔ ایسا وہ کرتی بھی نہیں۔ وہ ایک مکڑی کا جالا ہے‘ جس میں حکمران اس طرح پھنستے ہیں کہ آزاد ہونے کی گنجائش کم رہ جاتی ہے۔ البتہ شہبازشریف کے سامنے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ شہبازشریف اپنی حد سے زیادہ شخصی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے کام ضرور کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جس نیت سے اسٹیبلشمنٹ کام کرتی ہے‘ اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ لیکن سیاسی طور پر نوازشریف کو کسی مزاحمت یا مشکل کا سامنا نہیں ہے۔ ان کے سب سے بڑے حریف آصف زرداری نے ایوان صدر سے رخصت ہونے سے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ حکومت کو 5سال کی مدت پوری کرنے میں ہر طرح کی مدد دیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کو معلوم ہے کہ نوازشریف کو زیادہ عرصے تک روایتی کاری گری سے‘ سست رفتاری پر مجبور نہیں رکھا جاسکتا۔ انہیں قومی اسمبلی کے اندر بھی زیادہ مشکلات کا سامنانہیں۔ وہ اپنی جماعتی طاقت کے بل بو تے پر حکومت میں آئے ہیں۔وہ اپنے کسی بھی اتحادی کے دبائو میں نہیں آ سکتے۔ میں نے کل بھی عرض کیا تھا کہ عوام سے بھاری مینڈیٹ لینے کے بعد‘ اب انہیں کسی سیاسی مدد گار کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ انہوں نے خواہ مخواہ اے پی سی کا بوجھ اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ جمہوریت میں عوامی تائید اور ووٹ سے زیادہ بڑی طاقت کوئی نہیں ہوتی۔ عوام نے انہیں فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ انہیں کل جماعتی کانفرنسوں کی احتیاج نہیں ہے۔ انہیں اپنا مینڈیٹ استعمال کرتے ہوئے‘ روایتی رفتار سے کام شروع کر دینا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ ‘ان کی رفتار میں کمی لانے کی طاقت نہیں رکھتی۔ خودنوازشریف ہی اپنی رفتار کو متاثر کر رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ صرف ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔ کراچی میں جو منی اے پی سی کانفرنسیں ہوئیں‘ ان میں سے کیا نکلا؟ کوئی بھی فریق مطمئن نہیں اور کوئی فریق‘ ان کانفرنسوں میںکئے گئے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ جتنے بھی فیصلے کئے گئے ہیں‘ ان میں کوئی نیا پن نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ افرادی قوت اوراداروں کے سربراہ بھی وہی کے وہی ہیں۔ جو نتائج وہ ابھی تک حاصل کرتے آ رہے ہیں‘ آنے والے دنوں میں ان سے مختلف نہیں کر پائیں گے۔ انتخابی مہم میں جو ترجیحات عوام کے سامنے رکھی گئی تھیں‘ ان میں سے کسی پر بھی کام شروع نہیں ہوا۔ ابھی وقت ہے ‘ نوازشریف اپنے پرانے طریقہ کا ر پر عمل شروع کریں۔ فوری نتائج حاصل کرنے کی عادت کو بحال کریں۔ ایسا نہ ہو کہ حالات کے جبر نے ان کی کارکردگی میں جو نیم جمودی کیفیت پیدا کر رکھی ہے‘ وہ بعد میں ان کے اور ان کے ساتھیوں کی عادت ہی نہ بن جائے۔جتنی جلدی ممکن ہو‘ انہیں حکومتی کارکردگی میں آیا ہوا جمود توڑ دینا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved