تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-12-2022

ہیرے جواہرات کی ہوس

شاید ہوس بھی ہم انسانوں کی ایک جبلت ہے جسے قابو میں رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دنیا میں مشکل کامTemptation پر قابو پانا ہوتا ہے۔ اس لیے محاورہ ایجاد ہوا تھا مفت کا مال قاضی کو بھی حلال۔ انسان ایسے اجزاکا بنا ہوا ہے کہ بعض دفعہ تو خود پر ترس آتا ہے کہ یار ہم کتنے مجبور اور کتنے آزاد ہیں۔ انسان کے اندر کئی جبلتیں ہیں جو اسے وہ کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں جو شاید وہ نہیں کرنا چاہتا ہوگا۔محبت‘ نفرت‘ خون خرابہ‘ نفس‘ حسد اور ہوس بھی ان چند جبلتوں میں سے ایک ہیں جو ہر انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ہماری مینوفیکچرنگ میں یہ سب کچھ ڈالنے کے بعد ہمیں حکم دیا گیا کہ ان کے برے اثرات سے بچ کر رہو۔شاید اس لیے وہ لوگ صوفی کہلاتے ہیں جو ان برائیوں پر قابو پالیتے ہیں یا پھر ان سے بچنے کے لیے جنگلوں کا رخ کرتے تھے اور انسانی آبادیوں سے دور رہتے تھے۔انسان کے اندر دوسروں پر حکمرانی‘ دولت اکٹھی کرنے کا جنون اور قبضے کی خواہش بھی وہی جبلتیں ہیں۔ اس لیے پچھلے زمانوں میں ولی اللہ اور نیک لوگ نہ صرف حکمرانوں کے درباروں سے دور رہتے تھے بلکہ انسانی آبادیوں کے قریب بھی نہیں رہتے تھے کہ کہیں بھٹک نہ جائیں۔بڑا مشہور واقعہ ہے کہ حضرت بابا فرید ؒگنج شکر ( پاک پتن) کا ایک مرید جن کا نام مولا تھا‘ نے دلی جانے کی اجازت مانگی۔ ان بزرگ مولا میں بھی کرامات تھیں۔بابا فریدؒ نے انہیں منع کیا کہ مت جائو تم دلی میں مارے جائو گے۔ دلی کے حکمرانوں کے سامنے تمہارے اندر خود کو عوام سے منوانے کا شوق پیدا ہو رہا ہے‘ اس سے بچو۔وہ مرید نہ مانے اور دلی چلے گئے۔وہی ہوا کہ ان کرامات کی شہرت پھیلی تو لوگ ان کے دیوانے ہوئے تو دلی کے بادشاہ کو خطرہ محسوس ہوا اور ایک دن انہیں پھانسی چڑھا دیا گیا۔لیکن ان تمام جبلتوں میں سب سے بڑی جبلت لالچ ہے۔ سب کچھ اکٹھاکرنے کاجنون‘ ہر قیمت پر۔
ہمیں قارون کے خزانے کی کہانیاں سکول کے سلیبس میں پڑھائی جاتی رہی ہیں تاکہ ہمارے اندر اخلاقی اقدار پیدا ہوں کہ انسانی زندگی میں روپیہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں۔ قارون بادشاہ کا خزانہ اس کے کسی کام نہ آیا‘ آخر وہ خالی ہاتھ دفن ہوا تھا۔یہ بھی مشہور محاورہ ہے کہ سکندر نے ساری دنیا فتح کی تھی لیکن اپنی فتح کی ہوئی دنیا سے گیا تو خالی ہاتھ تھا۔قدیم بادشاہوں خصوصا ًقدیم تہذیبوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ بادشاہ یا فرعون کو دفنانے کے ساتھ بہت سا سونا‘ ہیرے جواہرات اور دیگر قیمتی سامان بھی رکھتے تھے کہ دوبارہ جنم لے گا اوران چیزوں کی ضرورت پڑے گی۔ بعض تہذیبوں میں تو یہ بھی رواج تھا کہ بادشاہ کے ساتھ مقبرے میں زندہ خادمین اور کنیزیں بھی دفن کی جاتی تھیں کہ جب وہ دوبارہ زندہ ہوں گے تو انہیں ان کی ضرورت پڑے گی۔اس طرح سکول کی کلاس میں ایک مضمون پر لکھنا ضروری تھا '' لالچ بری بلا ہے‘‘۔ یا ''ایمانداری ہی سب سے بڑا اصول ہے‘‘۔ ہم سب رٹے لگاتے رہے اور کبھی ان مضامین کے اندر چھپے پیغامات کو نہ سمجھ سکے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہمارے معاشرے میں اب کسی بدعنوانی کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ ہم نے ان مضامین کے بس رٹے لگائے تاکہ پاس ہو جائیں۔ ہم سکول کلاس کے امتحان میں تو پاس ہوگئے لیکن عملی زندگی میں ہم ناکام ہوئے ہیں۔ آج بھی اگر کوئی ان ایشوز پر بات کرنے کی کوشش کرے تو ہم ہنس کر کہتے ہیں چھڈو جی‘ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ مطلب اخلاقیات کا عملی زندگی میں کیا لینا دینا۔
جو کچھ خان صاحب کے حوالے سے سامنے آرہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے نیک لوگ جو روحانیت پر یقین رکھتے ہیں وہ بھی جب ہیرے جواہرات دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔جو حیران کن تفصیلات اب سامنے آرہی ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان جیسا بندہ جو ہاتھ میں تسبیح لیے ریاست مدینہ پر تقریریں کرتا تھا وہ بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے جسے اس کے بقول اللہ نے سب کچھ دیا۔ عمران خان جیسا بندہ بھی سونے اور جواہرات کے سامنے مزاحمت نہ کرسکا اور ہتھیار ڈال دیے۔ زرداری اور شریفوں کا ان جواہرات کے سامنے ڈھیر ہوجانا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن خان اور بیگم صاحبہ کا اس طرح جواہرات کو اکٹھا کرنا ان کے مداحوں کے لیے یقینا حیران کن اور صدمے کا سبب ہے۔
ویسے عمران خان نے اتنے جواہرات اکٹھے کر کے کیا کرنا ہے؟ ان کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ خان صاحب کے بچے لندن رہتے ہیں جن کی والدہ اتنی امیر ہے کہ انہیں ان سونے یا ہیرے جواہرات کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر یہ سب دولت مال و زر اورہیرے جواہرات اکٹھے کرنے کا شوق کس لیے ؟ ان سے پہلے جنہوں نے ہیرے جواہرات سرکاری تحائف کے نام پر اکٹھے کیے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ نواز شریف‘ پرویز مشرف‘ شوکت عزیز‘ چوہدری شجاعت‘ گیلانی‘ زرداری سب کو سعودیوں نے ہیرے جواہرات کے باکس بھر بھر کر دیے۔ ان سب کی حالت آپ کے سامنے ہے کہ جواہرات بکسوں میں بند پڑے رہے اور وہ سب ہسپتالوں کے بستر یا جیلوں کی سلاخوں میں قیدیں کاٹتے رہے۔ویسے یہ سیاستدان تو اس لیے حکمران بنتے ہیںتاکہ لوگوں کی زندگیاں بدل سکیں‘ جو سہولتیں انہیں زندگی میں ملیں وہ اب لاکھوں انسانوں کے لیے فراہم کریں کیونکہ ان کا اپنا پیٹ بھرا ہوا ہے اور وہ بھوکے ننگوں کے لیے کام کریں گے۔ انہیں اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے۔وہ یہ نعرہ مار کر سیاست میں کودتے ہیں اور اپنے رہن سہن اور گاڑیوں کی چمک سے غریبوں کی ہمدردیاں سمیٹ لیتے ہیں جو یہ سمجھ کر ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں کہ یہ امیر لوگ ہیں۔ یہ ان کی طرح چوریاں نہیں کریں گے‘ یہ اپنا پیٹ یا گھر بھرنے کے بجائے ان غریبوں کی زندگیاں بدلنے پر کام کریں گے۔ یوں لاکھوں کروڑوں کا ہجوم ان کے پیچھے لگ جاتا ہے کہ یہ حکمران ہماری زندگیاں بدلنے لگتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد پتا چلتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی ہاں وزیراعظم کے خاندان اور بیوی بچوں کی قسمت ضرور بدل گئی ہے۔ ان کے پاس اچانک دولت آنا شروع ہوجاتی ہے‘ وزیراعظم کی بیگم کو تحائف ملنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر پورا ٹبر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھتا کہ وہ کیا نعرہ مار کر اقتدار میں آئے تھے۔ اور پھر وہ پورا خاندان ہاتھوں پیروں سمیت دولت سمیٹنا شروع کر دیتا ہے۔ زیورات اور ہیرے جواہرات کے سیٹ تو ہمیشہ سے ہر وزیراعظم اور صدر کو سعودی عرب سے ملتے رہے ہیں جو وہ اونے پونے داموں گھر لے جاتے رہے ہیں‘ لیکن یہ کرتب پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ان قیمتی تحائف کو بازاروں میں بیچ کر نقدی کھری کر لی گئی ہے۔
اب عمران خان کے حامی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ خان یا ان کا خاندان بھی ہیرے جواہرات کا لالچی ہوسکتا ہے جیسے ان سے پہلے کے وزرائے اعظم کے خاندانوں پر الزامات لگتے رہے ہیں۔ وہ تو خان صاحب کو فرشتہ سمجھتے آئے ہیں جس کے قریب لالچ یا ہوس نہیں گزری‘ لیکن اب کیا کریں سب سونے اور ہیرے جواہرات خان صاحب کے گھر سے برآمد ہورہے ہیں اور روز ہورہے ہیں۔جو لوگ اس لوٹ مار کو قانونی سمجھتے ہیں وہ ذہن میں رکھیں یہ قانون بھی ملک کا وزیراعظم خود کابینہ ڈویژن کو حکم دے کر بناتا ہے اور خود اس سے فائدے اٹھاتا ہے اور کروڑوں کماتا ہے۔ چلیں مان لیا یہ قانون تھا تو کیا خان صاحب نے بائیس برس جدوجہد اس لیے کی تھی کہ ایک دن وہ وزیراعظم بن کر ہیرے جواہرات اکٹھے کریں گے؟ خان صاحب کو کتنا سونا اور ہیرے جواہرات چاہئے تھے اور کیوں چاہئے تھے؟ ٹالسٹائی کا کلاسک افسانہ یاد آگیا کہ ایک انسان کو آخر کو دفن ہونے کے لیے کتنی زمین چاہئے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved