یادوں کا معاملہ زندگی بھر کا ہے۔ جو کچھ ہوچکا ہے اور ہم نے دیکھ لیا ہے‘ وہ یاد رہتا ہے۔ ویسے تو خیر دوسروں کا کیا دھرا بھی ہمیں یاد رہتا ہے؛ تاہم جو کچھ ہم نے خود کیا ہو یا بھگتا ہو‘ وہ تو ایسا یاد رہتا ہے کہ لاکھ جتن کرنے پر بھی حافظے کی جان نہیں چھوڑتا۔
ایک نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رکھیے‘ بہت کچھ ہے جو ہمیں یاد رہتا ہے اور دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہم یاد کرتے رہتے ہیں یعنی بھولنا نہیں چاہتے۔ جو کچھ عمومی سطح پر ہو وہ تو یاد رہتا ہی ہے۔ ہم بھول اس لیے نہیں پاتے کہ اُس سے متعلق کوئی چیز یا معاملہ سامنے آجائے تو ذہن میں سب کچھ ایک بار پھر بیدار ہو جاتا ہے۔ جو کچھ یاد رہتا ہے اُس کے حوالے سے ہم بہت حد تک بے بس ہیں۔ ہم اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراسکتے ہیں نہ کسی اور کو مگر ہاں‘ جو کچھ ہم یاد کرتے رہتے ہیں اُس کے حوالے سے ہمارے اختیار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی بھر ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو ہم بھول سکتے ہیں مگر بھولتے نہیں یا پھر بھولنا نہیں چاہتے۔
ہم بہت کچھ بھولنا کیوں نہیں چاہتے؟ خوش گوار یادوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمارا دل بہلاتی ہیں۔ ڈھنگ سے گزارے ہوئے لمحات ہمیں تھپکی دیتے رہتے ہیں۔ حالات کی سختی یا بے رحمی کا سامنا کرتے کرتے ہم جب بہت تھک جاتے ہیں اور کوئی بڑی، مثبت تبدیلی رونما نہیں ہو رہی ہوتی تب ہم حسین یادوں کا سہارا لیتے ہیں۔ گزرے ہوئے سنہرے لمحات ہمارے موجودہ ذہنی ماحول کو تھوڑا سا جگمگادیتے ہیں۔ یہ سب کچھ بظاہر بہت اچھا ہے مگر بہر کیف! یہ عمل ہمیں زمینی حقیقتوں سے دور تو کرتا ہی ہے‘ ہم عمل کی دنیا میں بھی وہ سب کچھ نہیں کر پاتے جو کر سکتے ہیں یا کرنا چاہیے۔ یہ تو ہوا حسین یادوں کا معاملہ۔ تلخ یادیں اور بھی زیادہ ستم ڈھاتی ہیں۔ اول تو یہ حافظے کی اوپری سطح پر رہتی ہیں یعنی اِنہیں بھلانا آسان نہیں ہوتا۔ جس بات سے تکلیف پہنچی ہو وہ بار بار یاد آتی رہتی ہے۔ اگر کسی نے آپ سے بُرا سلوک کیا ہے، آپ کو کوئی نقصان پہنچایا ہے تو یہ سب کچھ آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا۔ جب بھی کوئی اس سے متعلق معاملہ سامنے آتا ہے تو آپ اپنے گزرے ہوئے بُرے وقت کو یاد کرکے اندر ہی اندر رونے لگتے ہیں۔ یہ رونا پیٹنا زندگی بھر لگا رہتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں انسان فکر و عمل کے اعتبار سے کمزور پڑتا چلا جاتا ہے۔
کیا زندگی جیسی نعمت محض اس لیے ہے کہ سوچے سمجھے بنا ضائع کردی جائے؟ جب کبھی آپ غور کیجیے گا تو اِسی نتیجے پر پہنچئے گا کہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی ہمیں محض نعمت کی شکل میں نہیں بلکہ ایک بڑی ذمہ داری کے طور پر عطا فرمائی ہے۔ ہم سے اِس دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا پورا پورا حساب لیا جائے گا۔ اگر کسی نے ہم سے بُرا سلوک روا رکھ کر ہمیں تکلیف پہنچائی ہے تو اُس سے جواب طلبی ہوگی اور اگر ہم نے کسی سے زیادتی کی ہے تو ہمیں بھی اُس کا حساب دینا پڑے گا۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار نہ لانے کے لیے بھی جواب دہ ہونا ہے۔ تلخ یادیں تکلیف دیتی ہیں‘ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں! مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ تلخ یادوں کو تکلیف دہ حالت میں رکھنا نہ رکھنا کسی حد تک ہماری پسند و ناپسند کا معاملہ ہے۔
یہ نکتہ قدم قدم پر ذہن نشین رہے کہ گزرے ہوئے زمانوں میں جتنے بھی تکلیف دہ لمحات گزرے ہیں اُنہیں ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہیں دینا ہے۔ ہم تین زمانوں میں زندہ رہتے ہیں۔ ایک ہے گزرا ہوا زمانہ‘ یعنی ماضی، جو اصلاً ہمارے لیے زیادہ کام کا نہیں۔ دوسرا ہے موجودہ زمانہ یعنی حال، اِسی میں ہم جی رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں اور اپنے حصے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ زمانۂ حال میں ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل رہنے کی معقول ترین صورت یہ ہے کہ ہم گزرے ہوئے زمانے میں زیادہ وقت نہ گزاریں اور زمانۂ حال پر متوجہ رہیں۔ تیسرا زمانہ ہے مستقبل، یعنی وہ عہد جو ابھی آیا ہی نہیں۔ اُس کے بارے میں سوچنا لازم ہے مگر ایک خاص حد تک! مستقبل کے لیے تیاری ضرور کرنی چاہیے اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مستقبل میں ہمیں جن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے وہ ہم ابھی سے یقینی بنائیں۔ بچوں کی تعلیم اور کیریئر کے حوالے سے والدین کو مستقبل کی ضرورتوں اور تقاضوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہی متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ یہ فطری امر ہے۔
ہمارا وجود ذہن کی بدولت ہے۔ دل تبدیل کیا جاسکتا ہے‘ دماغ نہیں۔ دماغ کی خراب کارکردگی ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ یہ ایک الگ اور باضابطہ بحث ہے کہ دل اور دماغ الگ الگ ہوتے ہیں یا نہیں اور یہ کہ دماغ کے نہ ہونے کی صورت میں دل کسی کام کا نہیں رہتا تو پھر دماغ ہی کو اولیت دی جانی چاہیے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دماغ ہی دل سمیت پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ کو پہنچنے والی چوٹ انسان کو ختم کر ڈالتی ہے۔ گولی دل میں لگے تو گردشِ خون رکنے کی صورت میں انسان ملکِ عدم کی راہ لیتا ہے؛ تاہم یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ تو ہنگامی معاملہ ہوا۔ اگر دل میں خرابی پیدا ہو تو اُسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جسم کو کنٹرول کرنے والا حقیقی سٹیشن صرف اور صرف دماغ ہے۔
جب ایک بار یہ طے ہوگیا کہ سب کچھ دماغ کی بدولت ہے۔ ہمارا ذہن دراصل اُس لوتھڑے کے اندر ہی تو ہی ہے جسے دماغ کہا جاتا ہے۔ دماغ کی اچھی کارکردگی قدرتی ماحول کے اعلیٰ معیار سے مشروط ہے۔ انسان تازہ ہوا میں سانس لیتا ہو، گرد و غبار سے دور رہتا ہو اور ماحول میں بدبو نہ ہو تو دماغ کِھلا کِھلا رہتا ہے، ڈھنگ سے کام کرنے پر مائل ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ اچھی خوراک اور معیاری مشروبات دماغ کو توانا رکھتے ہیں۔ یہ تو ہوا گوشت پوست کا معاملہ۔ اب آئیے ذہن کی طرف۔ تگڑا دماغ ذہن کو بھی تگڑا رکھ سکتا ہے مگر یہ ہماری پسند کا معاملہ ہے۔ ماحول صاف ستھرا ہو تو دماغ تقویت پاتا ہے۔ یہ قدرتی معاملہ ہے یعنی اِس میں ہمارا کچھ خاص عمل دخل ممکن نہیں۔ ذہن کس طور کام کرے گا اور کس حد تک توانا رہے گا یہ طے کرنا بہت حد تک ہمارا کام ہے۔ ہم اگر ذہن کو اُلجھا ہوا رکھنا چاہیں تو ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔ بالکل اِسی طور اگر ہم طے کرلیں کہ ذہن سے کام لینا ہے تب بھی کوئی ہماری راہ میں دیوار نہیں بن سکتا۔ حافظہ ذہن ہی کا حصہ ہے۔ یہ تحت الشعور کا معاملہ ہے۔ ہماری ایک بڑی ناکامی اور کمزوری یہ ہے کہ ہم بسا اوقات تحت الشعور کو شعور کا حصہ بنا ڈالتے ہیں اور اِس حوالے سے جس نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے اُس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
ذہن کی اچھی کارکردگی صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ ہم اِسے فضول معاملات سے دور رکھیں۔ یہ معاملہ صرف زمانۂ حال تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ گزرے ہوئے زمانوں کی تلخ یادوں کو سرد خانے کی نذر کردینے ہی میں دانش مندی ہے۔ تلخ یادیں اِس قابل نہیں ہوتیں کہ اُنہیں گلے لگاکر رکھا جائے اور اُن سے کچھ سیکھا جائے۔ حسین لمحات کو یاد کرنے میں دل کے لیے راحت کا سامان ضرور ہے مگر اس معاملے میں بھی ایک خاص حد تک ہی جایا جاسکتا ہے۔ حسین لمحات ہمیں فکر و عمل کی تحریک دیتے ہیں مگر بہت زیادہ نہیں۔ یہ لمحات اصلاً صرف ایک کام کرتے ہیں ‘یہ ہمیں کچھ دیر کے لیے زندگی کے جھمیلوں سے نکال کر سُکون و اطمینان کی وادیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ وہاں کچھ وقت گزار کر ہم تھوڑے سے تازہ دم ہو جاتے ہیں تاکہ زمانۂ حال کی سختیوں اور پیچیدگیوں کا بھرپور قوت سے سامنا کرنے کے قابل ہوسکیں۔ جب تک دم میں دم ہے تب تک ہمیں کسی نہ کسی سطح پر الجھنوں کا سامنا رہے گا۔ گزرے ہوئے یا آنے والے زمانے میں گم ہوکر ہم کچھ زیادہ نہیں پاسکتے۔ یاد رکھیے! سب کچھ یاد نہیں رکھنا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں‘ اس لیے متعلقہ کوششیں لاحاصل ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved