بارہ سالہ پوتے‘ حمزہ‘ کے بال کٹوانے کے لیے میں حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔یہ حجام ایرانی تھا۔ بیس بائیس برس کا بچہ! میرے ہر سوال کا‘ جو فارسی میں تھا‘ اس نے انگریزی میں جواب دیا۔ تارکینِ وطن کی اکثریت اپنی پہلی نسل ہی کو اپنی زبان سے جس طرح محروم کر دیتی ہے‘ یہ بچہ اس کی ایک مثال تھا۔ کچھ نے ایسا نہ کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کی کئی پرتیں ہیں۔یہ قلمکار اس مسئلے پر ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہے۔مگر اس وقت ایک اور بات کرنی ہے۔
وہ دکان میں داخل ہوا تو میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ ماڈرن لاٹھی ! جسے یہ لوگ'' واکنگ سٹک‘‘ کہتے ہیں۔ بال بے حد سفید۔بقول سعدی :
سرو مویش از برفِ پِیری سفید!
بڑھاپے کی برف بالوں پر بُری طرح گری تھی! بال الجھے ہوئے تھے۔پتا چل رہا تھا کہ کئی دنوں سے کنگھی نہیں کی۔ خشخشی داڑھی اور آنکھوں کے درمیان جو جگہ تھی اس پر بھی بال تھے۔ داڑھی سے نیچے والے بال گلے کو جیسے کراس ہی کرنے والے تھے۔وہ کچھ دیر دکان کے درمیان کھڑا رہا پھر جیسے اپنے آپ سے پوچھا ''یہ باربر کہاں ہے ؟‘‘۔اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔ بہت نرمی سے اس نے بوڑھے کا ہاتھ پکڑا اور بنچ پر بٹھا دیا۔ بوڑھے نے بیٹھنے کے بعد لاٹھی ایک طرف رکھ دی اور آنکھیں بند کر لیں۔ادھیڑ عمر شخص باہر چلا گیا اور ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اس دن حجام کے ہاں رش تھا۔ کافی دیر کے بعد میں اور حمزہ باہر نکلے۔ادھیڑ عمر شخص وہیں کھڑا تھا۔میری خراب عادتوں میں سے ایک عادت‘ جو میری اہلیہ کو ناپسند ہے‘ یہ ہے کہ میں ہر شخص سے‘ بلا جھجک‘ باتیں کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ میں نے اسے سلام کیااور پوچھا کہ کیا یہ اس کے والد ہیں؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ ان کی عمر ستاسی سال تھی اور اس بیٹے کی پچپن!وہ اندر بیٹھے ہوئے بوڑھے باپ کی طرف محبت سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ تقریباً ہر وقت ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ابھی واپس جا کر غسل کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔میں نے جب کہا کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے بہت ٹھوس سرمایہ کاری کر رہا ہے تو کہنے لگا '' ہاں! جو بوئیں گے وہی کاٹنا ہو گا‘‘۔
ترقی یافتہ ملکوں کے حوالے سے ہمارے بہت سے تصورات صحیح نہیں ہیں۔ہمارا ایک عام آدمی‘ خاص طور پر جو ملک سے کبھی باہر نہیں گیا‘ مغرب کے ہر شخص کو شرابی‘ عیاش اور بدکار سمجھتا ہے اور یہ بھی کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے! یہ جو اصطلاح ہے مغرب کی‘ یہ بھی پیچیدہ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور‘ جاپان ہمارے مشرق میں ہیں۔ ہم جب مغرب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ترقی یافتہ ممالک ہوتے ہیں۔ یہ اور بات کہ '' ترقی یافتہ‘‘ کی اصطلاح بجائے خود غور طلب ہے! آسٹریلیا اور کینیڈا میں چینی کثیر تعداد میں بس رہے ہیں۔ ایشیائی قدروں کی بدولت چینی خاندان اپنے بزرگوں کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں۔ رہے سفید فام تو وہ سارے کے سارے ایسے نہیں جیسا ہم سمجھتے ہیں۔کلچر کا فرق بہر طور موجود ہے۔ جس طرح ہم اپنے بزرگوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں‘ ادب کرتے ہیں‘ اپنے ہاتھوں سے ان کی کنگھی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ہر کام فوراً کریں‘ مغرب میں ایسا نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا! مگر بے شمار سفید فام اپنے بزرگوں کا خیال‘ اپنے کلچر اور اپنے طریقوں کے حساب سے‘ ضرور رکھتے ہیں۔یہاں تین عوامل اور بھی کار فرما ہیں۔ اول: اولڈ ہوم کا وجود اور رواج۔اولڈ ہوم ان لوگوں کی مجبوری بھی ہے۔ میاں بیوی دونوں صبح سے لے کر شام تک ملازمت کرتے ہیں‘ بچے سکول میں ہیں۔ سکول سے واپس آکر کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں اور تیراکی سیکھنے جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بزرگ مرد یا خاتون گھر میں ہے وہ صبح سے شام تک اکیلی رہے گی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازم کا ان ملکوں میں وجود ہی نہیں۔ اس اکیلے پن کا اور صبح سے شام تک بے یار و مدد گار رہنے کا واحد حل اولڈ ہوم ہی تھا۔ جو اولڈ ہوم دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا اس میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں حاضر تھیں۔کمرے اور باتھ روم ہر روز صاف کیے جاتے تھے۔ وقت پر کھانا ملتا تھا۔ ادویات وقت پر کھلائی جاتی تھیں۔ کافی اور چائے کی سہولت موجود تھی۔ مطالعہ کا کمرہ الگ تھا۔ بزرگ لاٹھیوں کے سہارے یا واکر کی مدد سے چل پھر رہے تھے۔ کچھ رضاکار یہاں باقاعدگی سے آتے تھے جن میں کچھ ترک نوجوان بھی تھے۔ وہ بھی ان بزرگوں کی خدمت کرتے تھے۔
دوم: ہمارے ہاں کے برعکس‘ ان ملکوں میں اپنا کام خود کرنے کا رواج ہے۔ ہمارے ہاں بچے ذرا بڑے ہوتے ہیں یا ملازم موجود ہو تو چالیس پچاس برس کا شخص بھی کرسی یا بستر سے اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ریموٹ کنٹرول ڈھونڈو‘ پانی لا کر دو۔ دوا پکڑاؤ‘ چائے میں چینی ملانے کے لیے چمچ لاؤ‘ اخبار پکڑا دو۔گھنٹی ہوئی ہے‘ دیکھو کون آیا ہے۔بالائی منزل سے فلاں کتاب لے آؤ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان حکم چلانے والے کو ہوتا ہے۔ جسم کے اعضا زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔مغربی ملکوں میں اپنا کام خود کرنے کا کلچر ہے۔ یہ کلچر بڑھاپے میں بھی موجود ہوتا ہے۔ جب تک بس چلے‘ ہر مرد اور عورت اپنا کام خود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے قصبے راچسٹر میں ایک سپر سٹور میں ایک بہت ہی بوڑھی عورت سودا سلف سے بھری ٹرالی لے جا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں مدد کر سکتا ہوں ! اس نے جواب میں مجھ پر سوال داغ دیا ''کیوں‘‘۔ اپنا کام خود کرنے کی عادت ان لوگوں کو دیر تک صحت مند رکھتی ہے اور یہ تنہا رہ سکتے ہیں۔ سوم: ان ملکوں کی اکثریت سکیورٹی سٹیٹ ہے نہ پولیس سٹیٹ! بلکہ ویلفیئر سٹیٹ ہے یعنی فلاحی ریاست ! ریاست بہت حد تک بوڑھوں کو اپنے لواحقین کی احتیاج سے بچا لیتی ہے۔ پنشنروں کے لیے خصوصی گھر ہیں جہاں علاج سمیت سہولتیں دروازے تک پہنچائی جاتی ہیں یہاں تک کہ ' 'متحرک‘‘ لائبریریاں ان کے پاس چل کر جاتی ہیں‘ کتابیں ان کے بستر کے پاس کھڑی ہو کر ایشو کرتی ہیں اور واپس بھی لیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی اخلاقیات بھی اس حوالے سے مددگار ہے۔ ڈاکٹر یا اس کا سٹاف خود رابطہ کرتا ہے کہ آپ کے فلاں چیک اَپ کو اتنا عرصہ ہو چکا ہے اور اب فلاں تاریخ کو ہونا ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بزرگ اپنے گھر میں رہے اور اس کے بچوں یا لواحقین میں سے کوئی اس کی خدمت پر ہمہ وقت مامور ہو تو اس کا نعم البدل کو ئی نہیں! مگر کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو ایسا کتنے بزرگوں کے ساتھ ہو رہا ہے ؟ مجموعی طور پر اس حوالے سے کیا صورت حال ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کی برائی کرتے کرتے ہم بھول رہے ہیں کہ ہمارا اپنا کلچر اس سلسلے میں کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ''تم سے زیادہ مقدّس‘‘( holier-than-thou)کا رویّہ ہمیں خود اپنے ہاں کی صورت حال نہیں دیکھنے دے رہا؟ ہم کوشش کریں گے کہ اگلی نشست میں ان سوالوں کا جواب دے سکیں !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved