اتوار اور پیر کی درمیانی شب خیبرپختونخوا کے دو اضلاع لکی مروت اور بنوں میں دہشت گردی کے واقعات نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ہم گزشتہ کچھ عرصہ سے اپنے کالموں میں خیبرپختونخوا میں انتہا پسندی کے خدشات اور خطرات پر بات کرتے چلے آئے ہیں۔ ہم تواتر سے قبائلی اضلاع بالخصوص وزیرستان‘ سوات‘ ملاکنڈ‘ لکی مروت‘ بنوں اور پاک افغان سرحدی علاقوں کا ذکر کر چکے ہیں کیونکہ یہ علاقے ماضی میں بھی شدت پسندوں کا گڑھ رہ چکے ہیں۔ اتوار کو رات گئے خبر موصول ہوئی کہ سی ٹی ڈی آفس بنوں میں زیر حراست دہشت گردوں نے پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر فائرنگ شروع کر دی ہے اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا ہے جس کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہو چکی ہے جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ شدت پسندوں کا گروہ بنوں چھاؤنی کے گیٹ پر حملہ کرکے اندر گھسا اور سی ٹی ڈی کے ہولڈنگ کمپاؤنڈ تک پہنچ گیا۔ انہوں نے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی عمارت میں قید انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو حوالات سے نکالنے کے بعد کمپاؤنڈ کے ایک حصے کا کنٹرول سنبھال کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بھی یرغمال بنا لیا۔اس سنگین صورتحال کے پیش نظر پاک فوج کے دستے فوری طور پر حرکت میں آئے اور علاقے کو سیل کر دیا گیا۔ بنوں کینٹ کے مکینوں کو گھروں کے اندر رہنے کی تلقین کی گئی۔ سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے والے شدت پسندوں نے وائرل وڈیو میں اہلکاروں کی رہائی کے بدلے افغانستان تک محفوظ فضائی راستہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور یہ مطالبہ نہ مانے جانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق بنوں کینٹ میں پیش آنے والے اس ناخوشگوار واقعے کے اصل حقائق یہ ہیں کہ سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر بنوں میں زیر تفتیش دہشت گردوں نے ایک پولیس اہلکار سے بندوق چھین کر عملے کو یرغمال بنالیا اور وڈیو پیغام جاری کیا کہ ہمیں افغانستان تک جانے کے لیے محفوظ ہوائی راستہ فراہم کیا جائے لیکن ان کے اس مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا گیا اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے کلیئرنس آپریشن شروع کر دیا گیا۔ سرکاری ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے پرانی وڈیوز اپلوڈ کرکے اپنی دم توڑتی تحریک میں جان ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کچھ شرپسند عناصر کی طرف سے سوشل میڈیا پر من گھڑت پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں نے بنوں کینٹ میں موجود محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے کمپائونڈ پر حملہ کرکے گرفتار دہشت گردوں کو چھڑایا‘ جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ حکومت نے یہ مؤقف بھی اختیار کیاکہ حالات مکمل قابو میں ہیں اور مجرموں کے مذموم مقاصد کو ہر ممکن اقدام سے ناکام بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق سی ٹی ڈی پولیس سٹیشن بنوں پر کسی نے باہر سے کوئی حملہ نہیں کیا بلکہ سٹیشن میں قید دہشت گردوں نے سٹیشن میں موجود سکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر اُنہیں یرغمال بنالیا‘مگراب حالات سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ بیرسٹر محمد علی سیف کے اس بیان سے تاثر ملتا ہے کہ بنوں میں کوئی معمول کا واقعہ پیش آیا ہے‘ جس پر کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے بنوں کینٹ میں سی ٹی ڈی کے آفس پر حملہ اور عملے کو یرغمال بنانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس نے مزید کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس سے قبل جولائی 2013ء میں پولیس کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل پر حملہ کیا تھا اور دو طرفہ فائرنگ کے بعد 35 سے زائد خطرناک قیدیوں کو چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تھے‘ تب بھی سرکار کی طرف سے یہی کہا گیا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا لیکن حقیقت سامنے آ کر رہی کیونکہ حقائق آخر کب تک چھپ سکتے ہیں؟
جس وقت بنوں کینٹ میں واقع سی ٹی ڈی آفس پر حملہ کیا گیا اسی وقت لکی مروت کے تھانے برگئی پر بھی دہشت گردوں نے دو اطراف سے حملہ کیا۔ پولیس اور شدت پسند عناصر کے درمیان فائرنگ کے تبادلے سے چار پولیس اہلکار شہید ہوئے اور فائرنگ کرنے کے بعد شدت پسند فرار ہو گئے۔ بنوں اور لکی مروت تھانے پر شدت پسندوں کے حملے کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں‘ دونوں واقعات کی ٹائمنگ ایک ہی ہے‘ حملہ آور بھی ایک ہی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کارروائی کی منصوبہ بندی کہاں کی گئی؟ ہمیں کانوں کان اس کی خبر تک نہ ہو سکی۔ ہم اب بھی روایتی انداز میں انتہاپسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ پولیس کے پاس شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ ہتھیار ہیں نہ ہی ضروری تربیت اس کے باوجود دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے صفِ اول پر رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران لکی مروت اور بنوں میں شدت پسندی کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں‘ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مذکورہ علاقے شدت پسندوں کا گڑھ بن چکے ہیں۔ ان علاقوں کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے وفاقی سطح پر حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے‘ جیسا کہ اس سے پہلے ہوتا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کی حالیہ لہر کے زور پکڑنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وفاق اس کی ذمہ داری صوبے پر ڈالتا ہے جبکہ صوبہ وفاق کی طرف دیکھتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں گزشتہ نو برس سے تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ وہ صوبے کے حالات و واقعات کو بہتر طور پر جانتی ہے مگر وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے کے باعث مسئلے کی شدت کا کھل کر اظہار نہیں کرپاتی جبکہ وفاقی حکومت از خود صوبائی معاملات میں مداخلت سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔ اس سیاسی کشا کش میں صوبے میں شدت پسندی شدت اختیار کر تی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی سیاسی مجبوریوں یا مصلحتوں کی وجہ سے شدت پسند عناصر کو پھر سے پر پرزے نکالنے کا موقع مل رہا ہے۔ گوکہ عوامی نیشنل پارٹی جیسی کچھ سیاسی جماعتیں اس عفریت کے حوالے سے کھل کر اپنے خدشات کا اظہار بھی کرتی رہی ہیں لیکن ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی میں شاید کسی اور جماعت نے ان خدشات کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا۔ ہماری سیاسی قیادت کی غلط ترجیحات کی وجہ سے ہی شاید ایسے عناصر کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں جب تک قومی سلامتی کو اپنے تمام تر مفادات سے بالاتر نہیں رکھیں گی تب تک شاید شدت پسندی ایک چیلنج کی شکل میں موجود رہے گی۔ ملکی سلامتی کے ضامن ادارے نیشنل ایکشن پلان‘ آپریشن ضربِ عضب‘ آپریشن ردالفساد‘ آپریشن راہِ راست اور آپریشن راہِ نجات کی صورت میں ماضی میں ان عناصر کا قلع قمع کر چکے ہیں اور اب بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں لیکن جس سوتے سے شدت پسندی پھوٹ رہی ہے‘اسے ہمیشہ کے لیے بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملکی سلامتی کو تمام تر سیاسی مفادات سے بالاتر جان کر اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنا جائے اور اس عزم کو دہرایا جائے کہ اس سر زمین سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک کوئی بھی چین سے نہیں بیٹھے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved