ہماری تاریخ شاندار اور قابلِ فخر فتوحات سے بھی مالامال ہے اور بدقسمتی سے اس کے اندر ہزیمت ورسوائی کے واقعات بھی درج ہیں۔ ہماری کامیابی اللہ تعالیٰ کی مدد، جذبۂ شہادت اور ملّی وحدت و یکجہتی کی مرہونِ منت رہی ہے جبکہ ہماری شکست ایمان کی کمزوری، باہمی اختلاف اور اندرونی منافقین کی سازشوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی رہی۔ سقوطِ بغدادہو یا سقوطِ غرناطہ، سرنگاپٹم کا سانحہ ہو یا سقوطِ ڈھاکہ کا زخم‘ سبھی میں یہ عوامل شامل رہے ہیں۔ باہر کے دشمن سے ہم نے کبھی مات نہیں کھائی۔ ہمیں مارہائے آستین ہی نے ہمیشہ زک پہنچائی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے تناظر میں بریگیڈیئر صدیق سالک مرحوم کی کتاب ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ ایک چشم کشا دستاویز ہے۔ دسمبر آتا ہے تو بے ساختہ پرانے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔
16دسمبر1971ء وہ سیاہ دن تھا جب اپنوں کے غیرذمہ دارانہ رویوں اور غیروں کی عداوت وسازش کے نتیجے میں وطن عزیز دولخت ہوگیا۔ ہنود ویہود نے ہمیشہ پاکستان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے روز مشرقی پاکستان کے محب وطن شہریوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ تمام عناصر جو اس وقت بھارتی فوج کی یلغار کے خلاف اپنے وطن کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے تھے، پھانسیوں کے حق دار قرار پائے ۔ نہ کوئی انصاف ہے، نہ عدالت! یہ سب ایک طویل داستان کا حصہ ہے جسے ہر سال سنا اور سنایا جاتا ہے۔ یہ دن گزر جاتا ہے تو ہمارے لوگ بھول جاتے ہیں، مگر بنگلہ دیش میں بے گناہ لوگ آج بھی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
ان سطور کی تحریر کے وقت جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیرڈاکٹر شفیق الرحمن، ان کا نوجوان بیٹا ڈاکٹر رفعت اور جماعت کے کئی قائدین راتوں کو گھروں سے اٹھا کر جیلوں اور حوالات میں بند کر دیے گئے ہیں۔ بی این پی کی قیادت بھی محبوس ہے۔ ہم فریاد بھی اللہ تعالیٰ ہی سے کرتے ہیں اور اپنا دکھڑا بھی اسی ذاتِ کبریا کو سناتے ہیں۔ ظالم بنگلہ دیشی وزیراعظم اور اس کی ٹیم کو اپنے باپ اور بنگوبندھو شیخ مجیب الرحمن کا دردناک انجام یاد رکھنا چاہیے۔ فطرت کی تعزیریں بڑی سخت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں! اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ عوامی لیگی حکومت کے تحت نہ قانون کی قدر ہے، نہ اخلاقیات کا کوئی وزن۔ایک اندھیر نگری ہے اور مظلوم داد رسی کے لیے ترس رہے ہیں۔
عوامی لیگ جب بھی برسر اقتدار آتی ہے‘ بھارت اور دیگر پاکستان و اسلام دشمن قوتوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ عوامی لیگ بنگلہ دیش کے قیام سے قبل مکتی باہنی کے لبادے میں بھارتی فوج کی بٹالین کے طور پر کام کر رہی تھی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت عوامی لیگ کی قیادت بھارتی ٹینکوں پر سوار ہو کر ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئی۔ اس المناک واقعے کے بارے میں اب تک درجنوں کتب سامنے آچکی ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب ''شکستِ آرزو‘‘ اور سابق سفیر بنگلہ دیش لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالیم کی کتاب ''پاکستان سے بنگلہ دیش، اَن کہی جدوجہد‘‘ میں اتنے حقائق جمع کیے گئے ہیں کہ تصویر کا صحیح رخ سامنے آجاتا ہے۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو پاکستانی جیل سے رہائی ملی اور وہ نوزائیدہ ملک میں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ۔ سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایک جانب یہ زہر آلود فقرہ کہا کہ نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے تو دوسری جانب اس نے یہ فلسفہ بھی بگھارا کہ اب بنگلہ دیش میں پاکستان سے متعلق نرم گوشہ رکھنے والے غدار کبھی ایوانِ اقتدار کا منہ نہ دیکھ سکیں گے۔ یوں شیخ مجیب الرحمن اور اندرا گاندھی پاکستان دشمنی میںیک جان دو قالب ہو گئے۔ انھوں نے لمبے چوڑے منصوبے سوچے مگر مخلوق کے اختیار میں کیا ہے‘ فیصلے تو خالق ہی کے نافذ ہوتے ہیں۔ دونوں پاکستان دشمن رہنما یکے بعد دیگر دردناک انجام کو پہنچے۔ یقینا اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
شیخ مجیب‘ جس نے تاحیات صدارت حاصل کر لی تھی‘ اپنی ہی فوج کے چند جونیئر افسران کے ہاتھوں 15اگست 1975ء کو اپنی بیوی، تین بیٹوں اور دیگر پندرہ افراد کے ساتھ اپنے گھر، دھان منڈی ڈھاکہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ شیخ مجیب کی دو بیٹیاں جو اس وقت جرمنی میں تھیں‘ بچ گئیں۔ ان میں سے ایک حسینہ واجد دھاندلی کے ذریعے بنگلہ دیش کی وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوئی اور اب تک اپنے مظالم کے ذریعے خود کو خون کی دیوی ثابت کرچکی ہے۔ اندرا گاندھی کو اس کے اپنے باڈی گارڈز نے 31 اکتوبر 1984ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ عوامی لیگ ہمیشہ پاکستان مخالف پالیسیاں اپناتی ہے۔ آج کل جماعت اسلامی ہی نہیں‘ لفظِ اسلام بھی حسینہ واجد حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ وہاں یہ بحث جاری ہے کہ کوئی پارٹی اپنے نام کے ساتھ اسلامی کا سابقہ یا لاحقہ لگا سکتی ہے یا نہیں۔ جماعت اسلامی اپنے نام اور نشان سے انتخاب نہیں لڑ سکتی۔ اسی طرح اسلامی لٹریچر پر ناروا پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ سرکاری اداروں اور لائبریریوں میں بالخصوص مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتب کے تراجم کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
جن محب وطن شہریوں نے 1971ء میں پاکستان کی حمایت کی تھی‘ انہیں نام نہاد عدالتوں کے ذریعے جنگی مجرم قرار دیا گیا۔ جعلی کورٹس کے ذریعے سزائے موت سناد ی گئی۔ اس کے نتیجے میں عبدالقادر ملا، قمرالزمان، علی احسن محمد مجاہد، صلاح الدین قادر چودھری، مولانا مطیع الرحمن نظامی اور میرقاسم علی جیسے عظیم فرزندانِ ملتِ اسلامیہ تختۂ دار پہ لٹکادیے گئے۔ مولانا اے کے ایم یوسف، پروفیسر غلام اعظم اور مولانا اے کے سبحان جیل ہی میں موت سے ہم کنار ہوکر شہادت پا گئے۔ کئی دیگر رہنماؤں کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ آج بھی ہزاروں مرد اور سینکڑوں خواتین جیلوں میں جھوٹے الزامات کے تحت مقید ومحبوس ہیں۔
ہر ایک بات زباں پر نہ آسکی باقیؔ
کہیں کہیں سے سنائے ہیں ہم نے افسانے
ڈھاکہ میں بھارتی سفارتخانہ براہِ راست حسینہ واجد کو جو ہدایات دیتا ہے وہ سرکاری پالیسی بن جاتی ہیں۔جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ اور اسلامی لٹریچر پر پابندی لگوانے کے بعد اب ان عناصر کی یہ بھی کوشش ہے کہ بنگلہ دیش میں خواتین کے برقع پر پابندی لگا دی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہندو تہذیب کی یلغار اور میڈیا پر اخلاق باختہ پروگراموں کی بھرمار کے باوجود بنگلہ دیشی مسلمانوں کی اکثریت آج بھی اسلام اور دینی شعائر کا بڑا احترام کرتی ہے۔ توہین آمیز خاکوں پر بنگلہ دیش کی حکومت نے کہا کہ ہم فرانس سے کوئی احتجاج نہیں کریں گے‘ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے، مگر بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگ ڈھاکہ کے علاوہ بھی ہر شہر میں سڑکوں پر نکل آئے۔ بنگلہ دیش کے عوام اس ظلم وستم سے نہ صرف تنگ ہیں بلکہ وہ اس شب وروز کو بدلنے کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔ ملکی انتخابات جب بھی غیرجانب دار حکومت کے تحت ہوئے، عوامی لیگ کی رعونت زمین بوس ہو جائے گی۔ بے پناہ مظالم کے باوجود حسینہ واجد اندر سے خوف زدہ ہے کہ اگر ملک میں کوئی تبدیلی آگئی تو اس کا کیا بنے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کے جرائم اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ قرآنِ مجید میںایک انسان کو ناحق قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ جس نے ایک نہیں‘ ہزاروں انسانوں کو گولیوں اور پھانسیوں کا نشانہ بنایا‘ وہ اپنے انجام سے کب اور کہاں تک بچ سکتی ہے؟ مودی سرکار سے تمغے حاصل کرنے والی بنگلہ وزیراعظم کو ایک دن خالقِ کائنات کے سامنے بھی حاضر ہونا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved