تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-12-2022

افرادی قوت کی برآمد

فی زمانہ کسی بھی ملک کے لیے برآمدات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ برآمدات ہی کے ذریعے زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے جو بین الاقوامی ادائیگیاں ممکن بناتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا زرِ مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے قابلِ رشک حالت میں ہے۔ برآمدات کے شعبے میں اچھی خاصی برتری کی بدولت ان کے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رہتے ہیں اور یہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی قابلِ رشک حالت ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنے آپ کو مستحکم رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طور برآمدات بڑھتی رہیں۔ برآمدات کے بڑھنے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھتے ہیں اور ملک کسی بھی بین الاقوامی سودے میں اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو انہیں برآمدات بڑھانا پڑتی ہیں اور دوسری طرف درآمدات کا گراف نیچے لانا پڑتا ہے۔ بعض معاملات میں انتہائی نوعیت کی مجبوریوں کا سامنا کرنے کے باعث ترقی پذیر ممالک درآمدات و برآمدات میں مکمل توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ پس ماندہ ممالک کا حال بہت ہی بُرا ہے۔ وہ فطری علوم و فنون کے حوالے سے بھی نچلی سطح پر ہیں اور اشیا کی برآمد کے حوالے سے بھی اُن کی حالت بہت خراب ہے کیونکہ لاگت میں کمی یقینی بنانا اُن کے بس کی بات نہیں۔ لاگت میں کمی ممکن نہ بنائی جاسکے تو عالمی منڈی میں برآمدات کے حوالے سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت و سکت پیدا نہیں ہو پاتی۔
پاکستان جیسے ممالک بحرانی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ ایک طرف سیاسی عدم استحکام ہے جو معاشی عدم استحکام کا بھی باعث بنتا ہے اور دوسری طرف معاشرتی الجھنیں ہیں جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتیں۔ معاشرہ نفسی سطح پر خاصا الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں کسی بھی انسان کے لیے اپنی بھرپور صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنا انتہائی دشوار ہے۔ انتہائی مالدار طبقے کی بات رہنے دیجیے‘ اُن کے لیے معاشی مشکلات ہوتی ہی نہیں۔ عام آدمی انتہائی باصلاحیت ہونے کے باوجود بعض معاملات میں ایسا الجھ کر رہ جاتا ہے کہ اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر معاشرے کے لیے کچھ خاص کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے لیے ایک اچھا آپشن یہ ہے کہ فطری علوم و فنون میں مہارت کی سطح بلند کرکے اپنے آپ کو عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل بنائیں۔ بعض ترقی پذیر ممالک نے خود کو ترقی یافتہ دنیا کی مجبوری میں تبدیل کیا ہے۔ بھارت اس حوالے سے سرِفہرست ہے۔ افرادی قوت کی برآمد کے حوالے سے بھارت کی پوزیشن ہر اعتبار سے اہم ہے۔ کم و بیش چار عشروں کی محنت کے نتیجے میں آج بھارت کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جو ترقی یافتہ ممالک اور خطوں کو بڑے پیمانے پر نالج ورکرز فراہم کر رہے ہیں۔ بھارت کے اعلیٰ تربیت یافتہ مصنفین، مترجمین، حساب دان، قانون دان، تدوین کار، مبصر، تجزیہ کار، صداکار، اداکار، گلوکار، آئی ٹی ماہرین اور دیگر شعبوں کے ہنرمند افراد آج دنیا بھر میں خدمات سرانجام دے کر اپنے ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کمارہے ہیں۔ غیر مقیم بھارتی (این آر آئیز) فی زمانہ بھارت کے لیے ایک بڑا اثاثہ ہیں۔ حکومت نے میڈیا کی مدد سے اُن کا عمومی امیج بلند کیا ہے۔ غیر مقیم بھارتیوں کو بھارتی معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کے حوالے سے انہیں ترجیح دی جاتی ہے۔ عام بھارتی این آر آئیز کو دیکھ کر رشک کرتا ہے اور اُسی کی طرح کچھ کرنے کا ذہن بناتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کلچر ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ اول تو حکومت کی اس باب میں بظاہر کچھ خاص دلچسپی نہیں کہ افرادی قوت برآمد کرکے ملکی معیشت کو مستحکم کیا جائے۔ اس شعبے کو بھی‘ دوسرے بہت سے شعبوں کی طرح‘ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کو ملک میں خصوصی درجہ اب تک نہیں دیا گیا۔ حکومت اُن سے رابطے بڑھاکر اُنہیں وطن کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے ٹھوس کردار ادا کرنے کی طرف مائل بھی نہیں کرتی۔ ہم برآمدات کی عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں رہے۔ ہمارے ہاں توانائی کا بحران برقرار رہتا ہے۔ بجلی مہنگی ہے‘ اس کے نتیجے میں لاگت بڑھتی ہے۔ ہمارے ہاں اُجرت بھی مہنگی ہے۔ ایسے میں برآمدی تاجروں کے لیے معیاری طریقے سے سستی اشیا تیار کرکے عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ اشیا کی برآمدات بڑھاکر معیشت کو مستحکم کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ ایسے میں لے دے کر یہی ایک آپشن بچتا ہے کہ ہم خدمات کی برآمدی منڈی میں قدم رکھیں، اپنے آپ کو منوائیں اور کچھ کام پائیں۔ دنیا بھر میں مختلف النوع خدمات کی مانگ ہے۔ ترقی یافتہ دنیا بہت سے کام خود نہیں کرنا چاہتی۔ بڑے کاروباری ادارے بہت سی خدمات کو آؤٹ سورس کرتے رہتے ہیں۔ یہ عمل اُنہیں زیادہ منافع کمانے کے قابل بناتا ہے۔
بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں حکومتوں نے خدمات کے شعبے میں افرادی قوت بڑھانے پر خصوصی توجہ دی اور کامیاب ہوئیں۔ نالج ورکرز معیاری انداز سے تربیت یافتہ ورکرز ہوتے ہیں جو ترقی یافتہ یا خوش حال ممالک میں متعلقہ اداروں کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بھارت کے نالج ورکرز کو اس لیے پسند کیا جاتا ہے کہ وہ دن رات دل لگاکر کام کرتے ہیں اور معیاری تربیت کے حامل ہونے کی بنیاد پر اپنی ہر جاب قابلِ رشک انداز سے مکمل کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں بھارتی نالج ورکرز کو پسند کیا جاتا اور بھرتیوں کے معاملے میں اُنہیں ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بے وجہ بھارت کو ترجیح دی جارہی ہے۔ بھارت میں ایسے ادارے بڑی تعداد میں ہیں جو افرادی قوت کی برآمد کا ہدف حاصل کرنے کی نیت سے کام کرتے ہیں۔ ان اداروں میں لوگ بیرونِ ملک کام کرنے کے ارادے کے ساتھ داخلہ لیتے ہیں اور پوری طرح تیار ہوکر باہر آتے ہیں۔ اُنہیں محض عصری و فنون ہی میں اعلیٰ تربیت نہیں دی جاتی بلکہ بیرونِ ملک ڈھنگ سے کام کرنے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اخلاقی تربیت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ وقت پر کام کرنے، دی ہوئی اجرت میں مطلوب سے زیادہ کام کرنے اور مقررہ اوقات سے کچھ دیر زیادہ بیٹھنے کی صورت میں اُن کی ساکھ بہتر ہوگی اور وہ زیادہ کمانے کے ساتھ ساتھ اچھی ملازمت کا برقرار رکھنا بھی ممکن بناسکیں گے۔ ہمارے ہاں معیاری اور اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت کی برآمد کو کبھی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں کیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے اب تک باضابطہ طور پر سوچا ہی نہیں گیا۔ معیاری افرادی قوت کے حوالے سے ہمارے ہاں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ نجی بلکہ انفرادی سطح پر ہوا ہے۔ لوگ اپنے طور پر رابطے کرتے ہیں۔ بات بن جائے تو ملازمت مل جاتی ہے یا کوئی مخصوص کام۔ کچھ لوگ اپنے طور پر کوئی سیٹ اَپ لگاکر کسی نہ کسی طور چند نوجوانوں کو جمع کرکے کام کرتے ہیں۔ مغربی دنیا کے بڑے ادارے اُنہیں کام سونپتے ہیں۔ وہ کام مطلوبہ معیار اور ڈیڈ لائن کے مطابق تیار کرکے بھیج دیا جاتا ہے اور زرِمبادلہ کی شکل میں کچھ رقم مل جاتی ہے۔ اگر یہی کام حکومت کی سرپرستی میں باضابطہ طور پر کیا جائے تو ملک کا بھی بھلا ہوسکتا ہے۔
ہم مینوفیکچرنگ کے شعبے میں بہت پچھڑے ہوئے ہیں۔ یہ مقابلہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ معیاری نالج ورکرز تیار کرنا بہت حد تک ممکن ہے۔ سوال صرف معیاری ادارے قائم کرکے لوگوں سے کام لینے کا ہے۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں مقیم پاکستانی بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بڑے اداروں سے رابطے بہتر بنانے میں اُن سے مدد لی جاسکتی ہے۔ آؤٹ سورسنگ رابطہ کاروں کے بغیر ممکن نہیں۔ مغربی دنیا میں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو کام دلواسکتے ہیں مگر اُن کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نوجوانوں کی پیشہ ورانہ تربیت کے حوالے سے ایک بڑے سرکاری ادارے ''نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن‘‘ (نیوٹک) کے سربراہ کی حیثیت سے سابق بیورو کریٹ ذوالفقار چیمہ نے قابلِ رشک انداز سے کام کیا ہے۔ ایسی شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ایسی معیاری افرادی قوت تیار کی جاسکتی ہے جسے آسانی سے برآمد کیا جاسکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved