یہ دسمبر کے مہینے کی رو پہلی سہ پہر ہے۔ کراچی سے حیدر آباد جاتے ہوئے میں چائے پینے کے لیے یہاں رکا ہوں۔ یہ ایک وسیع احاطے پر واقع روایتی ریستوران ہے جہاں ایک بڑا ہال ہے اور عقب میں کشادہ صحن جہاں چارپائیاں بچھی ہیں جن پر گاؤ تکیے رکھے ہیں۔ میں بھی ایک چارپائی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ رینٹ اے کار کا ڈرائیور حیدرآباد کا رہنے والا ہے۔ میں اسے کہتا ہوں وہ بھی چائے پی کر تازہ دم ہو جائے۔ حیدر آباد میں اس سے پہلے دو‘ تین بار جا چکا ہوں۔ وہاں جائیں تو حیدر آباد کی مٹھائی‘ چوڑیاں اور بمبئے بیکری کا خیال آتا ہے پھر حیدر آباد کا مکھی پیلس اور یہاں کا پرانا بازار‘ جو ریشم گلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کچھ فاصلے پر رانی کوٹ کا قلعہ ہے جو اپنی طرزِ تعمیر میں سب سے منفرد ہے۔ لیکن آج مجھے حیدر آباد سے آگے بھٹ شاہ جانا ہے۔ وہی بھٹ شاہ جہاں سندھی زبان کا عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی آخری نیند سو رہا ہے۔
پاکستان کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے تاریخ کے آثار میں نجانے کیسی کشش ہے کہ میرے قدم خود بخود اُٹھنے لگتے ہیں۔ بھٹ شاہ سے میں اپنے سکول کے زمانے میں واقف ہوا تھا۔ تب ہماری کو رس کی ایک کتاب میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی کہانی ہوتی تھی جو میرے دل میں بس گئی تھی۔ تب اور اب میں برسوں کا فاصلہ حائل ہے۔ سکول‘کالج اور یونیورسٹی کا عرصہ تمام ہوا اور میں روزگار کے جھمیلوں میں کھو گیا ہوں۔ کراچی کی آغا خان یونیورسٹی میں تین برس پڑھایا۔ اس دوران حیدر آباد بھی جانے کا اتفاق ہوا لیکن اس سے تقریباً چالیس کلومیٹر پر واقع بھٹ شاہ نہ جا سکا۔ کہتے ہیں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے‘ آج یوں ہی بیٹھے بٹھائے مجھے بھٹ شاہ کی مہک نے بے چین کر دیا۔وہی مہک جو ہرات کے چمنستان سے چلی تھی اور سندھ کی ہواؤں کا حصہ بن گئی۔
شاہ عبد اللطیف کا خاندان علم و ادب کی روایت میں رچا بسا تھا۔ شاہ صاحب کے پردادا شاہ عبد الکریم قادر الکلام شاعر تھے۔ والد شاہ حبیب بھی تصوف کے راستے کے مسافر تھے اور دور و نزدیک کے لوگ ان کے حلقۂ اثر میں تھے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ہالہ کے قریب ایک جگہ ہالہ حویلی میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان ہالہ حویلی سے قریبی علاقے کوٹری مغل منتقل ہو گیا۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کی پرورش شعرو ادب اور تصوف کے اسی ماحول میں ہو رہی تھی۔ اب ان کی عمر تقریباً بیس برس تھی۔ تب ایک دن ایسا ہوا کہ ان کی دنیا بدل گئی۔ ہوا یوں کہ اردگرد کے لوگ ان کے والد شاہ حبیب کے پاس اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل لے کر آتے تھے ایک دن علاقے کے رئیس مرزا مغل کی بیٹی کی طبیعت ناساز تھی۔ اسے شاہ حبیب کے آستانے پر لایا گیا۔ اتفاق سے اس دن شاہ حبیب موجود نہیں تھے اور ان کے جواں سال بیٹے شاہ عبد اللطیف بھٹائی موجود تھے۔ مرزا مغل کی بیٹی سعیدہ بیگم اپنی بیماری کے علاج کے لیے آئی تھی لیکن جاتے وقت شاہ عبد اللطیف کو اپنا بیمار بنا گئی۔نجانے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی ایک لمحہ کوئی ایک چہرہ‘ کوئی ایک منظر ہمارے دل میں سما کر امر ہو جاتا ہے۔ شاہ عبد اللطیف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ سعیدہ بیگم کی آنکھوں کی نقاہت اور چہرے کی زردی میں جانے کیا کشش تھی کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نقدِ دل ہار بیٹھے۔ کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔ جب اس کی خبر مرزا مغل تک پہنچی تو جیسے قیامت آگئی۔ ایسے میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے خاندان کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ حویلی کوٹری مغل کو چھوڑ کر ہالہ حویلی واپس چلے جائیں۔ ان کا خاندان توہالہ حویلی منتقل ہو گیا لیکن شاہ عبداللطیف بھٹائی کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ سعیدہ بیگم کا سراپا ان کے قلب و روح میں سرایت کر چکا تھا۔ کوئی بے چینی سی بے چینی تھی جو اُن کو بے قرار کیے ہوئے تھی۔ تب انہوں نے گھر اور گاؤں کو خیر باد کہا اور آبادی سے دور''نجو ٹکر‘‘ چلے گئے۔''ٹکر‘‘ سندھی میں پہاڑی کو کہتے ہیں۔ شہر کے ہنگاموں سے دورجا کر وہ سب کچھ بھلا دینا چاہتے تھے لیکن اس گمبھیر تنہائی میں بھی سعیدہ بیگم کی آنکھوں کی نقاہت اور بیمار چہرے کا حسن ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ تب شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے ا پنا ساز و سامان اُٹھایا اور ایک طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ اب کے ان کی کوئی مخصوص منزل نہیں تھی۔یہ ایک مسلسل سفر تھا۔ اس میں کتنے ہی قصبے اور کتنے ہی شہر آئے۔ ٹھٹھہ‘ بھنبور‘ کراچی‘ حیدر آباد‘ لسبیلہ‘جوناگڑھ اور جیسلمیر۔ اس سفر میں ان کی ملاقات کتنے ہی جوگیوں سے ہوئی جو اپنے گھروں سے دور گرد ہوتی ہوئی مسافتوں کا حصہ بن گئے تھے۔ اس سفر میں ان کی کتنے ہی لوگوں سے ملاقات ہوئی‘ کتنے ہی نئے مقامات دیکھے۔ شاہ صاحب کا یہ سفر تین سال پر محیط تھا۔اس سفر نے ان کے اندر کی دنیا بدل دی۔ دنیا کا عارضی پن اور بے معنویت ان پر آشکار ہو چکی تھی۔اس سفر نے انہیں احساس اور دانائی کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ ان کے دل میں شاعری کی کو نپل پھوٹ رہی تھی۔ شہر شہر کی خاک چھان کر تین سال بعد جب وہ واپس اپنے گھر پہنچے تو ان کے اندر اور باہر کی دنیا بدل چکی تھی۔ اب شاہ عبد اللطیف کی شخصیت میں تصوف‘ شاعری اور موسیقی کے رنگ گھل مل گئے تھے۔
اچانک میری گاڑی کے ڈرائیور نے کہا: صاحب آپ چائے پی چکے ہوں تو چلیں؟ تب مجھے احساس ہوا کہ میں کراچی اور حیدرآباد کے درمیان واقع ایک ریستوران میں بیٹھا ہوں۔ میں نے کہا: بالکل‘ چلتے ہیں۔جب ہم بھٹ شاہ پہنچے سہ پہر کے سائے شام کے سرمئی رنگوں میں ڈھل رہے تھے۔ مزار سے کچھ فاصلے پر ڈرائیور نے گاڑی پارک کی اور مجھے کہا: وہ سامنے مزار ہے‘ آپ آرام سے جائیں‘ جتنی دیر چاہیں بیٹھیں۔ واپسی پرمیں یہیں پارکنگ میں آپ کو ملوں گا۔ میں گاڑی سے اُتر گیا اور مزار جانے والے راستے پر چلنے لگا جس کے دونوں طرف چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں جن میں پھول‘ چوڑیاں‘ کھلونے اور کھانے پینے کی چیزیں دستیاب تھیں۔ ہر دکان پر گاہکوں کی بھیڑ تھی۔ مزار ذرا بلندی پر واقع ہے اور وہاں تک پہنچنے کیلئے خوبصورت سیڑھیاں ہیں۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے پیچھے مڑ کر مزار کی طرف آنے والے راستے کو دیکھا جو عقیدت مندوں کے ہجوم سے چھلک رہا تھا۔ اب میں مزار کے وسیع صحن میں تھا‘ اس سے آگے برآمدہ تھا اور پھر وہ دروازہ جس میں داخل ہو کر شاہ صاحب کا مزار آتا ہے۔ میں دروازے سے اندر داخل ہو گیا۔ پتا چلا کہ یہ حلقہ ہے جو شاہ صاحب کے زمانے میں بھی ہوتا تھا۔ ذکر کے بعد حلقے کے لوگ شاہ صاحب کے مزار کے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ میں برآمدے کے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ مجھے بشارت کا انتظار تھا۔ جو مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور جس کا تعلق فقیروں کے خاندان سے ہے۔ اس نے مجھے یہیں ملنے کو کہا تھا۔ اچانک شور اٹھا اور سب لوگ ایک جگہ اکٹھے ہونے لگے۔ کسی نے کہا زائرین میں چُوری تقسیم کی جا رہی ہے۔ چُوری یہاں کا تبرک ہے۔میں سر جھکائے ستون کے ساتھ لگ کر بیٹھا رہا۔پتا نہیں بشارت نے اتنی دیر کیوں کر دی تھی۔ اچانک مجھے یوں لگا کوئی میرے سامنے کھڑا مجھے بلا رہا ہے۔ میں نے آنکھیں اُٹھا کر دیکھا۔وہ ایک لڑکی تھی۔اسی نے سر پر رومال باندھا ہوا تھا اور رومال کو گلے کے گرد گرہ دے کر چھوڑ دیاتھا۔ اس کے چہرے میں اس کی آنکھیں نمایاں تھیں۔ اجلی‘ روشن اور بے قرار آنکھیں۔ اس کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر تبرک کی چُوری رکھی تھی۔ اس نے مجھے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے دیکھا تو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگی‘ آپ دربار کی چُوری نہیں لیں گے‘ کہتے ہیں اس کے کھانے سے جو منت مانگیں پوری ہو جاتی ہے۔ میرے چہرے پر حیرت دیکھ کر وہ خود بھی ہنسنے لگی۔ اس کی ہنسی سن کر مجھے یوں لگا جیسے کسی قدیم مندرمیں گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved