تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     21-12-2022

سیاسی رسہ کشی اور ملکی معیشت

چند روز قبل عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں قمر جاوید باجوہ صاحب پر ایک بار پھر تنقید کے نشتر برسائے جس پر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کے بیان کو احسان فراموشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ باجوہ صاحب کے خلاف کوئی بات کی گئی تو ہماری جماعت بھی جواب دے گی۔چودھری پرویز الٰہی کے اس بیان کے بعد تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان کشیدہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔اس صورتحال کے بعد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے ممکنہ اتحاد کے ڈر سے پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور شروع کرتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر سنجیدہ بات چیت کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چودھری کے مطابق تحریک انصاف نے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کو مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت کا ٹاسک سونپا ہے لیکن یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ چودھری پرویز الٰہی پی ٹی آئی چیئرمین پر واضح کر چکے ہیں کہ وہ صرف پی ٹی آئی سیکرٹری جنرل اسد عمر‘ سابق وزیر دفاع پرویز خٹک اور سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان پر مشتمل کمیٹی سے ہی مذاکرات کریں گے۔ دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی گوکہ پی ٹی آئی سربراہ کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا دستخط شدہ لیٹر دے چکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے خان صاحب پر یہ بھی واضح کیا تھا کہ موجودہ سخت معاشی بحران کے پیش نظر اسمبلیاں تحلیل نہیں کرنی چاہئیں۔
اُدھر پنجاب کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی ہے۔وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی‘ اسمبلی کے معاملات آئین کے تابع نہیں چلارہے اور ملکی صورت حال کے زیر اثر انہوں نے پنجاب اسمبلی میں جمہوری روایات کا قلع قمع کیا ہے لہٰذا قواعد و ا نضباط کار پنجاب اسمبلی 1997ء کے آرٹیکل 53 کی ضمنی شق 7 سی اورآئین کے آرٹیکل 127 کے تحت سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان پر ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا۔
اگر دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں چودھری پرویز الٰہی کے وزارتِ ِاعلیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہو نے کی صورت میں صوبے میں آئینی بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔عمران خان اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ پھر سے تحریک انصاف کا وزیراعلیٰ منتخب کرا سکیں‘اس صورت میں پی ڈی ایم کی کسی جماعت بالخصوص مسلم لیگ (ن) کا امیدوار پھر سے پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہو سکتا ہے۔ اب ان حالات میں‘جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہو چکی ہے اور چودھری پرویز الٰہی کے بیانات سے خان صاحب پر اُن کی پالیسی بھی واضح ہو چکی ہے‘ عمران خان کو 23 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا ارادہ ترک کردینا چاہیے اوراپنی جماعت کو عوامی سطح پر منظم کر کے اگلے عام انتخابات کے لیے ابھی سے کام شروع کردینا چاہیے۔اُنہیں سیاسی مخالفین کے ساتھ اُلجھنے کے بجائے اپنی جماعت کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی کے لیے ایک جامع پارٹی منشور متعارف کرانا چاہیے۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات میں جن اُمیدواروں کو تحریک انصاف کا ٹکٹ دینے کے خواہاں ہیں‘ اُن سے متعلق یونین کونسل کی سطح پر جا کر رپورٹ حاصل کریں کہ حلقے کے عوام میں اُس شخص کے حوالے سے کیا تاثرات پائے جاتے ہیں۔ اُنہیں اس بار اپنے ارد گرد موجود افراد کے اثرو رسوخ میں آ کر ٹکٹیں بانٹنے کے بجائے اُن لوگوں کو اپنی جماعت کی ٹکٹیں بانٹنی چاہئیں جو اُن کے نظریاتی ساتھی ہیں۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے اگر آئین سے رہنمائی حاصل کی جائے تو پنجاب اسمبلی کی تحلیل آئینی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ صوبے میں امن و امان کی فضا قائم ہے‘ اسمبلی کا اجلاس بھی گزشتہ سات ماہ سے متواتر ہو رہا ہے‘ صوبے میں 726 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں‘ ان حالات میں تحریک انصاف کے سربراہ کا اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پر دباؤ ڈالنا آئین کے آرٹیکل 17 سے متصادم ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کسی بھی جماعت کو اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے ریاستی مفادات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔ عمران خان کا دونوں وزرائے اعلیٰ پر اسمبلی کی تحلیل کے لیے دبائو ڈالنا الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 اور 205 کے بھی منافی ہے۔
اُدھر سپیکر سیکرٹریٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جگہ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو پی ٹی آئی کا پارلیمانی گروپ لیڈر قرار دے دیا ہے جس کے بعد عمران خان کا بطور رکن قومی اسمبلی کردار ختم ہو کر رہ جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ اقدام تحریک انصاف کے 123اراکینِ قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفوں کے تناظر میں اٹھایا گیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے 123 اراکین نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا ہے‘جہاں وہ مستعفی ہونے کی تصدیق کریں گے لیکن سپیکر سیکرٹریٹ کے مطابق یہ استعفے قبول یا مسترد کرنے کا اختیار صرف سپیکر قومی اسمبلی کو حاصل ہے۔ سپیکر پہلے اراکین قومی اسمبلی سے انفرادی طور پر ملیں گے پھر استعفوں کی منظوری کا فیصلہ آئین اور متعلقہ قوانین کے تحت ہی کیا جائے گا اور کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جائے گا۔سپیکرقومی اسمبلی واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی ایک فرد کے کہنے پر تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفے قبول نہیں کریں گے۔ جب استعفوں پر غور کا وقت یا موقع آئے گا تو ہر رکن سے انفرادی طور پر دریافت کیا جائے گا۔ استعفوں کی منظوری کے لیے تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے لکھے خط کے بارے میں بھی سپیکر قومی اسمبلی واضح کر چکے ہیں کہ وہ شاہ محمود سے استعفے قبول کرنے کے بارے میں ان کی حیثیت دریافت کریں گے۔ بقول سپیکر قومی اسمبلی عمران خان قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے‘ اب وہ قومی اسمبلی کے سپیکر پر دباؤ ڈالنے کے اختیارات سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔
ملک میں گزشتہ آٹھ ماہ سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جاری سیاسی کشمکش اب دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس سیاسی محاذ آرائی سے ملکی معیشت کو جس تباہ کن صورتحال کا سامنا ہے‘ اس کے نتائج کا تصور ہی روح فرسا ہے۔زرِ مبادلہ کے ذخائر اس وقت درآمدات پر پابندی کے باوجود کم ترین سطح پر ہیں۔ ترسیلاتِ زر میں بھی ریکارڈ کمی واقع ہو چکی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے ملکی مفادات کا یہی تقاضا ہے کہ قومی ترقی و سلامتی کی خاطر تمام سیاسی فریق بشمول تحریک انصاف افہام و تفہیم اور مذاکرات کا راستہ اپنا ئیں تاکہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved