جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کے چارٹر پر دستخط کی سالانہ تقریب کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے ''سارک‘‘ کو بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ تنظیم گزشتہ چھ برس سے غیر فعال چلی آ رہی ہے کیونکہ 2016ء میں کٹھمنڈو (نیپال) کے بعد اس کی کوئی سربراہی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی۔ 2016ء میں نیپال کے بعد اگلی سربراہی کانفرنس کی میزبانی پاکستان نے کرنا تھی لیکن پاک بھارت کشیدگی کے باعث بھارت نے یکطرفہ طور پر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ اپنے قیام کے بعد 30 برس کے عرصہ کے دوران ''سارک‘‘ کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں رہی ہے اور اس کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بھی 5فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکا لیکن بھارت کے یکطرفہ اقدام سے سارک کا عمل ایک ایسے موقع پر معطل ہوا‘ جب پاکستان اور بھارت سمیت دوسرے ممالک مثلاً بنگلا دیش‘ نیپال‘ بھوٹان‘ مالدیپ‘ سری لنکا اور افغانستان پر مشتمل یہ خطہ چین کے بعد معاشی ترقی میں تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کی وجہ سے عالمی سطح پر سارک کی پروفائل بلند ہو رہی تھی اور دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین‘ چین اور جاپان سارک ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کو بڑھانے میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ گزشتہ چھ برس سے سارک عمل کے مسلسل معطل رہنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی بحالی کا انحصار پاک بھارت تعلقات کی بہتری پر ہے۔ بدقسمتی سے مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019ء کے نریندر مودی حکومت کے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام اور ریاست میں بنیادی انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باعث پاک بھارت تعلقات مکمل تعطل کا شکار ہیں۔
پاک بھارت تعلقات کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ چند ماہ پیشتر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران پاکستانی اور بھارتی وزیراعظم نے ایک دوسرے سے بات کرنا تو کجا‘ ہاتھ تک ملانے سے گریز کیا تھا۔ اس سال مون سون کی غیرمعمولی بارشوں سے سندھ اور بلوچستان میں جو تباہ کن سیلاب آیا تھا‘ اس میں متاثرین کے لیے پاکستان نے ہر ملک کی فراہم کردہ امداد کا خیر مقدم کیا مگر بھارت سے کوئی امداد نہ لی گئی۔ سیلاب سے فصلوں اور سبزیوں کی تباہی سے ملک میں اناج اور سبزیوں کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے مگر پاکستان نے اس قلت کو کم کرنے اور غذائی اجناس کی قیمتوں کو نیچے لانے کے لیے بھارت سے ان اشیا کی درآمد پر پابندی برقرار رکھی۔ حالانکہ ماضی میں پاکستان غذائی اجناس اور سبزیاں بھارت سے درآمد کرتا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک میں کئی اہم زرعی اجناس مثلاً کپاس اور گندم کی کمی کا ڈر ہے۔ زرِمبادلہ کی کمی اور موجودہ مشکل مالی حالات میں ان اشیا کو بھارت سے نسبتاً کم اخراجات سے درآمد کیا جا سکتا ہے‘ لیکن بھارت کے کشمیر میں استبدادانہ اقدامات کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں۔ جب بھارت اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات اس قدر شدید کشیدگی کا شکار ہوں تو دونوں کے درمیان سارک کی بحالی کے لیے تعاون کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے؟ خطے کے ان دو بڑے ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات‘ سارک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے خطے کے چھوٹے ممالک نے ان دونوں ممالک کو باہمی تنازعات کے حل کے لیے ایک دوسرے کے قریب لانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوششیں بھی سارک کی سربراہی کانفرنسوں کے موقع پر کی جاتی رہیں اور کئی مواقع پر کامیابی سے ہمکنار ہوتی رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے سربراہی کانفرنسوں کی سائیڈ لائن پر غیر رسمی ملاقات ا ورگفتگو کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے‘ کیونکہ سارک کے چارٹر کے تحت تنظیم کے فریم ورک میں دو طرفہ متنازع مسائل کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن سربراہی کانفرنسیں‘ سائیڈ لائن پر پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں کو غیر رسمی ملاقات اور گفتگو کا موقع فراہم کر تی رہی ہیں۔ مثلاً 1997ء میں مالدیپ میں سارک کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ملاقات اور گفتگو کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تنازعات پر دو طرفہ مذاکرات میں ایک طویل ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں مدد ملی تھی۔ فروری 1999ء میں بھارت کے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ''دوستی بس‘‘ کے ذریعے پاکستان کا دورہ کیا اور لاہور میں وزیراعظم نواز شریف اور پاکستانی حکام سے باضابطہ مذاکرات کے بعد ''لاہور ڈیکلریشن‘‘ جاری کیا گیا جس میں پاک بھارت تعاون کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی ایک روڈ میپ شامل تھا۔
اسی طرح 2004ء میں اسلام آباد میں سارک کی بارہویں سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آنے والے بھارتی وزیراعظم واجپائی اور پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے درمیان ملاقات کے نتیجے میں 6 جنوری 2004ء کا مشہور مشترکہ اعلان جاری کیا گیا جس کے تحت دونوں ملکوں نے کمپوزٹ ڈائیلاگ میکانزم کے تحت 8مسائل‘ جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا‘ پر اسلام آباد اور نئی دہلی میں باری کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ یہ مذاکرات 2008ء تک بلا تعطل جاری رہے اور اس دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد اہم اعتماد سازی کے اقدامات پر دستخط کیے گئے۔ ان میں تھرپارکر ریلوے لائن کا دوبارہ اجرا‘ مظفرآباد‘ سری نگر بس سروس کا آغاز اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ ایگریمنٹ بھی شامل ہیں۔ جن دیگر شعبوں میں پاکستان اور بھارت نے تعاون میں اضافہ کیا‘ ان میں دو طرفہ تجارت‘ عوامی سطحوں پر روابط اور سرحدوں پر منشیات اور ممنوعہ چیزوں کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی عرصہ کے دوران سارک کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی اور اس کے فریم ورک میں ممبر ممالک نے میڈیا‘ کاؤنٹر ٹیررازم‘ انسانی سمگلنگ اور عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ اسی عرصہ کے دوران سارک کے اجلاسوں میں‘ آبزرور کی حیثیت میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ دنیا نے سارک میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا اور اسی ماحول میں جنوبی ایشیا کے ممالک میں بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحوں کی آمد میں بھی اضافہ ہوا۔ تجارت‘ سیاحت‘ ثقافت اور معیشت کے شعبوں میں بیرونی دنیا سارک کے رکن ممالک کے ساتھ روابط میں اضافہ کے پیچھے پاک بھارت تعلقات میں بہتری تھی کیونکہ اس سے علاقائی امن اور استحکام کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں جو تجارت‘ سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے لیے لازمی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے سارک کی بحالی کی اپیل کی بنیاد بھی خطے میں امن اور استحکام کے لیے پاکستان کی خواہش ہے۔ پاکستان یقین رکھتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو غربت‘ پسماندگی‘ بیماریوں اور جن دیگر سماجی مسائل میں مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے‘ وہ باہمی تعاون کے ذریعے ان چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے سارک مفید ترین پلیٹ فارم ہے مگر بھارت خصوصاً بی جے پی کی موجودہ حکومت کی ہٹ دھرمی یکطرفہ اقدامات کی پالیسی اور پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والی حکمت عملی سے پاک بھارت تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس سے سارک کا ادارہ بھی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ بھارت کی موجودہ حکومت ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کی اپنی پالیسی ترک کرکے متنازع مسائل کے حل کی طرف پیش قدمی کرے تاکہ سارک جیسے مفید ادارے کو پھر سے بحال کیا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved