کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ کبھی پیاز کاٹنے والے سے زیادہ پیاز خریدنے والے کو رونا پڑے گا۔ اور نہ صرف رونا پڑے گا بلکہ اس قدر رونا پڑے گا کہ اس بدنصیب کی آنکھوں سے آنسوئوں کی ایسی تیز اور چبھنے والی جھڑیاں بہنے لگیں گی کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ رجیم چینج کے بعد سے پیاز نے خریداری کی نیت سے گھروں سے ڈرے سہمے باہر نکلنے والوں کی اس بری طرح چیخیں نکلوا دی ہیں کہ لگتا ہے کہ ان کے قدموں کے نیچے زمین نہیں بلکہ کانٹے ہیں۔ گلی‘ محلے‘ مارکیٹ‘ بازار یا کسی جمعہ و اتوار بازار میں سبزی کی دکانوں کے ٹوکروں میں پیار‘ محبت اور بڑی ترتیب سے سجایا گیا پیاز اپنے گاہکوں کی جانب طنزیہ مسکراہٹ لیے ایسے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ''یہ منہ اور ٹماٹر‘ پیاز‘‘۔
جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی دنیا نے گزرے ہوئے منا ظر اور واقعات ایک اشارے پر ہمارے سامنے رکھنے کے انتظامات اس طرح کر دیے ہیں کہ قدرت کا وہ اشارہ یاد آ جاتا ہے جو بندے کو بتا رہا ہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو‘ وہ اسی طرح تمہارے سامنے لایا جائے گا جیسے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ اب گوگل اور یوٹیوب پر اپنی تلاش اور جستجو کو ایک لمحے میں دیکھنے کی صلاحیت میسر آ چکی ہے۔ ان سوشل فورمز پر وہ مناظر پوری طرح محفوظ ہیں کہ جب 2019ء کا سال شروع ہی ہوا تھا تو عمران خان کے کرم فرمائوں نے حکومت پر اس طرح انڈوں کی بارش شروع کر دی کہ لوگ قیمتیں سن کر ہی کانپنا شروع ہو جاتے تھے۔ انڈوں پر ہی بس نہیں‘ سبزی سے لے کر دالوں اور گھی سے لے کر چاول تک کے کوڑے تحریک انصاف پر اس بری طرح برسائے جانے لگے کہ جیسے پی ٹی آئی نہیں‘ مہنگائی کا عفریت ایوانِ اقتدار میں براجمان ہو گیا ہو۔ مہنگائی کے نام پر بازاروں میں اس طرح شور مچایا گیا کہ لگتا تھا کہ اس پُرآشوب دور میں کسی کو کھانے کو ہی کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن آج جب پیاز‘ ٹماٹر‘ گھی‘ دالیں‘ آٹا حتیٰ کہ انڈا بھی چند خوش نصیبوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے تو یہ سب آوازیں خاموش ہیں۔ لگتا ہے کہ آج کل ان کا بازار جانا نہیں ہو رہا۔ کسی نے سوچا تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ ایک انڈا تیس روپے کا ہو جائے گا۔
کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اس دفعہ بالکل ایسا ہی ہوا کہ پیاز کی برادری اور شریکوں نے جب دیکھا کہ پیاز کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دے رہا تو اس کی دیکھا دیکھی ٹماٹر اور دیگر سبزیوں نے بھی نخرے دکھانے کے لیے اپنی قیمتیں ایسے بڑھا لیں کہ چند دنوں میں ہی ٹماٹر اور ڈالر کا ریٹ ایک دوسرے کے برابر ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا‘ رجیم چینج کے اثرات نے ساتھ والے ٹوکروں میں پڑے ادرک، لہسن، گوبھی، مٹر، بھنڈی، پالک، کریلے، ٹینڈے اور میتھی‘ غرض سب کو قیمتیں بڑھانے پر مجبور کر دیا اور ان سبزیوں نے پی ڈی ایم کی طرح ''سبزی اتحاد‘‘ قائم کر کے اپنی مانگ اور قیمتیں اس قدر بڑھا لیں کہ لوگ ان سبزیوں کی خریداری تو دور کی بات‘ انہیں چھونے کو بھی ترسنے لگ پڑے۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اب ان مہنگی اور قوتِ خرید سے باہر سبزیوں کو خریدنے والے کے ذرائع آمدنی پر شک کرتے ہوئے ان کے ہمسائے ان کی وڈیوز احتسابی اداروں کو بھجوانا شروع ہو گئے ہیں۔ ہمارے استاد گوگا دانشور بتا رہے تھے کہ ان کے علا قے کے ایک سرکاری افسر نے پیاز‘ ٹماٹر اور انڈوں کی تصویروں کے ساتھ اپنی سیلفی فیس بک پر لگا رکھی ہے جنہیں وہ یا تو خرید کر یا تحفے کے طور پرگھر لائے تھے۔ ان کے بچے اور گھر کے دیگر افراد پیاز اور ٹماٹروں کی اس قدر بلائیں لینے لگے کہ لگتا تھا کہ ان صاحب کے گھر میں کوئی ننھا مہمان آیا ہے۔ عجب سماں تھا کہ سب گھر والے پیاز اور ٹماٹروں کے لفافوں کے صدقے واری جا رہے تھے۔
کل تک کسی ماہرِ معاشیات نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ ٹماٹر، پیاز اور امریکی ڈالر ایک ساتھ پوری قوم کا منہ چڑائیں گے۔ اب تو یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ منی چینجرز ایک کلو ٹماٹر یا پیاز کے بدلے ایک امریکی ڈالر دینے لگے ہیں۔ شنید ہے کہ یہ سب دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی جماعت کے پالیسی سازوں کو ہدایت کی ہے کہ پارٹی کے منشور میں تبدیلی کرتے ہوئے ''روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ کے بجائے ''آلو‘ پیاز اور ٹماٹر‘‘ کا نیا نعرہ لکھا جائے۔ پاکستان کی تمام سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کے رہنما بھی یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں اب دو ہی طبقے ہیں‘ ایک وہ جو ''پیاز اور ٹماٹر‘‘ استعمال کرتا اور انہیں خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے اور دوسرا وہ جو انہیں بس دور سے دیکھ کر دل بہلاتا ہے۔ یہ بھی سنا گیا ہے کہ بہت سے بارسوخ لوگوں نے پیاز‘ ٹماٹر اور انڈوں کو اب لندن‘ دبئی اور امریکہ کے سیف ڈپازٹس اور سوئس بینکوں کے لاکروں میں رکھوانا شروع کر دیا ہے۔ پرانے وقتوں کے لوگ اپنی تنگ دستی کی مثال دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اکثر گھر میں سالن کے طور پر کچھ نہیں ہوتا تھا تو وہ اچار یا پیاز کے ساتھ ہی روٹی کھا لیا کرتے تھے۔ وہ بھلے زمانے تھے‘ کم از کم پیاز اور اچار تو میسر تھے۔ آج کے دور میں اگر کسی مہمان کے سامنے کھانے کی میز پر پیاز اور اچار موجود ہوں تو اس شخص کو میزبان کی آمدن کے حوالے سے شکوک و شبہات لاحق ہو جاتے ہیں۔
یقین تو نہیں آ رہا لیکن سننے میں آیا ہے کہ تھانوں میں اب یہ رپورٹس بھی درج ہونے لگی ہیں کہ میری دکان سے کسی نے دو کلو ٹماٹر اور ایک کلو پیازچرا لیے ہیں یا یہ کہ رات کو گھر میں کوئی چور گھس آیا اور باورچی خانے میں رکھے ٹما ٹر اور پیاز چرا کر لے گیا جو فدوی کل شام ہی سبزی منڈی سے خرید کر لایا تھا۔ سنا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ تھانے کا محرر اس طرح کی رپورٹ درج کرانے والے کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگتا ہے ''رپورٹ تو میں درج کر لوں گا‘ پہلے یہ بتائو کہ تمہارا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ تم کرتے کیا ہو جو ایک ساتھ ایک کلو پیاز اور ٹماٹر خرید رہے ہو؟‘‘۔ اب تو حالت یہ ہو نے لگی ہے کہ لوگ سبزیاں وغیرہ چھپا کر لانا شروع ہو گئے ہیں کہ کہیں انکم ٹیکس والوں یا محلے داروں کی نظروں میں نہ آ جائیں بلکہ اب تو یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ لالچی لوگ لڑکی والوں سے جہیز میں پیاز کی بوری اور ٹماٹروں کے کریٹ کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
رجیم چینج سے پہلے پاکستان میں اول درجے کے ٹماٹروں کا نرخ پچاس سے ساٹھ روپے فی کلو تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے 220 سے تین سو روپے فی کلو تک بڑھ گیا۔ یہی حال پیاز کا ہے جو 230 سے 300 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ انڈے اس وقت 330 روپے سے 360 روپے درجن مل رہے ہیں۔ آلو ایک لمبی چھلانگ لگا کر واپس آیا ہے اور اب مارکیٹ میں 70‘ 80 روپے فی کلو تک بکنے لگا ہے مگر بتانے والے بتا رہے ہیں کہ جس طرح ہر دوسرے دن آلو کی قیمت میں دو‘ چار روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے‘ عنقریب یہ بھی ٹماٹر‘ پیاز اور ڈالر کے ساتھ 250 کراس کرنے کی ریس میں شریک ہو جائے گا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ نوبت اب یہ آتی جا رہی ہے کہ شادی ہو یا غمی‘ ہر جگہ اب پیاز اور ٹماٹروں کا ماتم جاری ہے۔ ایک جاننے والے کے گھر اس کے والد کے انتقال پر تعزیت کے لیے گئے تو وہاں سوگ پر آئے ہوئے مردوں اور عورتوں میں مرحوم سے زیادہ پیاز اور ٹماٹروں کی مہنگائی کا رونا رویا جا رہا تھا۔
پاکستان‘ جس کی دو تہائی یعنی لگ بھگ 65 فیصد آبادی دیہات سے تعلق رکھتی ہے‘ وہاں ٹماٹر‘ پیاز اور دیگر سبزیوں کی یہ قلت افسوسناک ہی نہیں‘ شرمناک بھی ہے۔ چند دن پہلے جب پیاز 220 روپے کلو بکنا شروع ہوئے تو لوگ پیاز کاذکر ایسے دکھ بھرے لہجے میں کرتے تھے کہ پیاز کاٹے بغیر ہی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو جاتے تھے۔ کسی نے کبھی سوچا تھا کہ یہ ٹماٹر‘ پیاز بھی ہاتھ سے اس طرح نکل جائیں گے؟ اگر کسی ایک فرد نے بھی سوچا ہوتا تو وہ حکومت سے یہ سوال ضرور کرتا کہ زرعی ملک میں سبزیوں بالخصوص ٹما ٹر اور پیاز کی قیمتیں کس طرح بڑھ گئیں؟ مٹی کا تیل، گھی، چینی، پیاز اور ٹماٹر کوئی سامانِ تعیش نہیں ہیں کہ جو صرف اونچے گھرانوں والے ہی استعمال کرتے ہیں بلکہ یہ سب چیزیں ہر اس گھر کی ضرورت ہیں جہاں انسان بستے ہیں۔ پیاز اور ٹما ٹر پاکستان جیسے ملک میں ہر ہانڈی کی بنیادی ضرورت ہیں۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میں آلو، پیاز، ٹما ٹروں اور دوسری سبزیوں سمیت گندم‘ چاول اور چینی کی پیداوار کہاں گئی؟ کیا پاکستان کی زمینیں اس قدر بانجھ ہو گئی ہیں کہ وہ ملکی ضروریات بھی پورا نہیں کر سکتیں؟ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پہلے پیاز غائب کیا اور پھر ٹما ٹر غائب کر دیے اور اب آلو کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ یہ مس مینجمنٹ ہے یا حکومتی نااہلی؟ زرعی اجناس سے متعلق غلط منصوبہ بندی‘ بلکہ عدم منصوبہ بندی سے ملک بھر میں ان اشیا کی قلت پیداکر کے ان کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے اس قدر دور کی جا رہی ہیں کہ ان کا چھونا یا کھانا تو دور کی بات‘ اب ان کا دیکھنا بھی ایک سعادت بن چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved