دھند کے اس موسم میں صوبۂ پنجاب کا سیاسی مستقبل بھی دھندلا نظر آ رہا ہے۔ پانچ ماہ میں ایک بار پھر پنجاب کا کار زارِ سیاست حصولِ اقتدار کے لیے لگائے جانے والے داؤ پیچ کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے 17دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں فوراً توڑنے کے بجائے ایک ہفتے کا وقت دینا‘ ویسے تو پی ڈی ایم کے لیے دعوت تھا کہ آؤ میرے ساتھ قبل از وقت انتخابات کے لیے مذاکرات کرو‘ لیکن پی ڈی ایم نے اس موقع پر پنجاب کے حکمران اتحاد میں پڑی دراڑوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیک وقت اعتماد کا ووٹ لینے کا ڈول ڈال کر اور تحریک عدم اعتماد پیش کرکے پنجاب اسمبلی بچانے کی پیش قدمی شروع کر دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں انٹرویو دینے کے بعد‘ (ق) لیگ کی پالیسی کو عمران خان کی پالیسی سے متصادم سمجھا گیا اور اس کے دو معنی اخذ کیے گئے۔ اول یہ کہ مسلم لیگ (ق) پنجاب اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں اور دوسرا یہ کہ اگر اسمبلی توڑنی ہی ہے تو (ق) لیگ کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر مزید نشستیں دینا ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ چودھری پرویز الٰہی کا یہ دعویٰ کرنا کہ پی ٹی آئی کے 99فیصد اراکین بھی اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں‘ پی ڈی ایم کے لیے حوصلے کا باعث بنا کہ وہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل سے بچانے کے لیے جدوجہد تیز کرے اور وہاں اپنا سیٹ اَپ لانے کی کوشش کرے۔
صوبے میں جو موجودہ سیاسی صورتحال بن چکی ہے‘ اس کے بعد اس معاملے کا عدالت میں جانا ناگزیر نظر آتا ہے کیونکہ جب دونوں فریق اپنی اپنی مرضی سے آئین‘ قانون اور رولز کی تشریح کرنے لگیں تو پھر معاملہ عدالت میں ہی جاتا ہے۔ بادی النظر میں اس تمام صورتِ حال سے عمران خان کا ملک میں جلد از جلد عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے حال ہی میں صحافیوں سے ہوئی ملاقاتوں میں واضح کیا تھا کہ وہ صوبائی اسمبلیاں توڑ کر وفاق کو پورے ملک میں جلد انتخابات کرانے پر مجبور کردیں گے‘ لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جب پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں خلل پیدا ہو جائے گا تو پھر عمران خان خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے سے بھی اجتناب کریں گے اور پی ڈی ایم یہی چاہتی ہے کہ صوبائی اسمبلیاں کام کرتی رہیں۔ لاہور میں وزیراعظم شہبازشریف‘ آصف علی زرداری اور چودھری شجاعت حسین کا ٹرائیکا بھی اس عرق ریزی میں مشغول ہے کہ پنجاب میں پی ڈی ایم کا سیٹ اَپ کیسے لایا جائے۔ ماضی میں ان تینوں شخصیات کے گٹھ جوڑ سے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تھے مگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63(ون) کی تشریح حمزہ شہباز کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن گئی۔
صوبائی اسمبلیاں توڑنا عمران خان کی ترکش میں شاید آخری تیر ہے‘ جس کے ذریعے وہ ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ کسی طرح ملک میں جلد انتخابات کا راستہ نکل آئے۔ وہ اپنے دو لانگ مارچوں سے یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ خان صاحب لیکن جلد انتخابات کیوں چاہتے ہیں‘ اس کی چند واضح وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا بیانیہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر انہوں نے امریکی بیانیے سے یوٹرن لے کر واضح کردیا ہے کہ ان کی سیاست کسی مستقل بیانیے پر نہیں کھڑی اور یہ کہ اُن کے بیانیے ہواؤں کے رُخ کے پیش نظر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ دوم‘ انہیں اپنی نااہلی کا ڈر ہے۔ انہیں توشہ خانہ کیس اور فارن فنڈنگ کیس کی صورت میں اپنی نااہلی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے ہر دوسرے روز آنے والی ان کی مبینہ آڈیو لیکس بھی اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت وہ آر یا پار والی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ اگر وہ سیاسی طور پر اتنے مجبور نہ ہوتے تو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے سخت انٹرویو کے بعد ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے بجائے ان سے راہیں جد ا کر چکے ہوتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ (ق) لیگ کی قیادت بھی بخوبی جانتی ہے کہ اگر عمران خان کو موقع ملا تو وہ (ق) لیگ کے حوالے سے بھی سخت رویہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اس لیے وہ تذبذب کا شکار ہے کہ آیا عمران خان انہیں جو سیٹیں دینے کا وعدہ کریں گے اس کو پورا بھی کریں گے؟ اسی لیے چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی توڑنے کی کوئی جلدی نہیں‘ اگر پنجاب اسمبلی کا سیکرٹریٹ رات پونے دس بجے پی ڈی ایم کی جانب سے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے لیے کھل سکتا ہے اور سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کو بھی اس کی خبر نہیں ہو سکی تو پھر سمجھنے والوں کے لیے اس میں نشانی موجود ہے۔
چودھری پرویز الٰہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس دن پنجاب اسمبلی ختم ہوگی‘ عمران خان کے لیے ان کی اور مونس الٰہی کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔ شاید اسی لیے چودھری پرویزالٰہی نے عمران خان کے انٹرویو میں باجوہ صاحب کے حوالے سے بیان بازی کو کپتان سے فاصلہ اختیار کرنے کا بہانہ بنایا۔ اور ایک اہم شخصیت سے ملاقات کے بعد یہ خبر بھی نکالی کہ موجودہ ملکی حالات کے پیش نظر مقتدرہ نہیں چاہتی کہ اسمبلی ٹوٹے‘ یوں اُنہوں نے ایک اور راستہ نکال لیا کہ انہیں اسمبلی توڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت تمام صورتحال اس سوال کے گرد گھوم رہی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کیا چاہتے ہیں؟ آپ اس بات کو مانیں یا نہ مانیں‘ یہ ان کی کامیابی ہے کہ وہ صرف 10نشستوں کے ساتھ اس وقت کنگ میکر بنے بیٹھے ہیں۔ گوکہ ان کے صاحبزادے مونس الٰہی اپنے سارے پتے عمران خان کی جھولی میں ڈالنے کو بے تاب ہیں کیونکہ انہیں (ن) لیگ کے ساتھ سیاست کرنے میں اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ چند ماہ میں مونس الٰہی نے جس طرح سے کپتان کا دل جیتا ہے‘ اس نے ان کی آئندہ سیاست کی راہیں آسان کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر نظریں اس وقت چودھری پرویز الٰہی پر ٹکی ہوئی ہیں‘ جو گزشتہ دنوں بیک وقت عمران خان کے ساتھ اور ان کے مخالف کھڑے ہونے کا شاندار مظاہرہ کر چکے ہیں۔ وہ اب اس کوشش میں ہیں کہ عمران خان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی الگ شناخت بھی برقرار رکھی جائے اور اُن کا دباؤ بھی بنا رہے۔ یہ ایک دلچسپ سیاسی صورتحال ہے جس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں نکل سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کو فی الحال اپنی صفوں میں کسی بغاوت کی توقع نہیں کیونکہ ان کے ایم پی ایز سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے کی صورت میں ڈی سیٹ ہو جائیں گے لیکن (ق) لیگ کے اراکین کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں۔ دلچسپ صورتِ حال ہے‘ دیکھتے ہیں بازی کس کے حق میں پلٹتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved