کچھ نامور سیاست دانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا‘ بہت سے سیاست دانوں کے معاملات بھی مسلسل دیکھتے آئے اور ملکی معاملات میں سب کی پالیسیاں بھی ہمیشہ سامنے رہیں۔ یہ خیال اب یقین میں بدل چکا ہے کہ سیاست ایک نشہ ہے جو اقتدار کے نشے سے الگ اپنے جام‘ اپنے ساقی اور اپنے ہم پیالہ و اپنے ہم نشین رکھتا ہے۔ یہ دو نشے مل جائیں تو وہی صورت بن جاتی ہے کہ بقول فرازؔ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ لیکن اقتدار کی منزل ملے یا نہ ملے یا مل کر دور ہو جائے‘ سیاسی نشہ ہمیشہ رگوں میں گردش کرتا رہتا ہے۔ فلاں حریف کو کیسے پچھاڑا جائے‘ فلاں حلیف نے پچھلی بار جو بدعہدی کی تھی‘ اس بار اسے کیسے جکڑا جائے۔ حریف کے فلاں داؤ کو ناکام کیسے بنانا ہے اور کون سا مہرہ کس طرف اور کب بڑھانا ہے۔ یہ نشہ کبھی چکھ کر دیکھیں۔ ایک بار لگا تو ہمیشہ کے لیے لگ گیا۔
اُن کا سوچیں ذرا جنہیں یہ نشے آج سے نہیں‘ بچپن سے لگے ہوئے ہیں۔ خاندان اور گلی‘ محلے کی سیاست سے اٹھ کر یونین کونسل‘ ضلع کونسل تک پہنچنا اور پھر وہاں سے اٹھ کر صوبے اور ملکی سطح کی سیاست میں مرکزی کرداروں میں سے ایک کے طور پر شریک ہو جانا‘ اور اگر کہیں وزارتِ عظمٰی تک رسائی ہو گئی تو عالمی سیاست کی بساط پر کھیلنا‘ یہ کام آسان نہیں۔ ''اُنہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘۔ لیکن معاملہ حوصلے سے زیادہ لت اور اس لت کی لذت کا ہے۔ جب مزاج اس خو میں ڈھل جائے کہ سونا جاگنا‘ کھانا پینا‘ اوڑھنا بچھونا سب جوڑ توڑ اور داؤ پیچ کے محور کے گرد گھومنے لگے تو بظاہر یہ مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن وہ لذت جو اس میں حاصل ہوتی ہے اور وہ نشہ جو توانائی بن کر رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے‘ انہی بے رنگ چیزوں میں رنگ بھر دیتا ہے۔ ایک عام آدمی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیا زندگی ہے۔ نہ کھانے کی لذت‘ نہ پینے کا مزہ‘ نہ آزادانہ گھومنے پھرنے کی آزادی‘ نہ ہر جھنجھٹ کو جھٹک کر زندگی کے پل جینے کا لطف۔ لیکن سیاست دان کے دل سے پوچھا جائے تو وہ اپنے دائرے ہی میں یہ سب کچھ حاصل کر لیتا ہے۔ وہ اس پھل سے رس کشید کر لیتا ہے جو بظاہر خشک نظر آتا ہے لیکن سیاست دان کو سیراب کرنے کے لیے کافی ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے کھلاڑی ریٹائر ہوتے ہیں تو بطور کھلاڑی دوبارہ میدان میں نظر نہیں آتے۔ لیکن سیاست دان کو آپ نے میدان سے ریٹائر ہوتے کم کم ہی سنا اور دیکھا ہو گا‘ خاص طور پر ہمارے ممالک میں۔ حسرت ہی رہ جاتی ہے کہ سابق کا سابقہ کسی سیاست دان کے نام کے ساتھ نظر آئے۔ وہ سابق ہوتا ہی نہیں! کیسے کیسے حاضر ہم نے دیکھے جو سابق ہوتے ہی نہ تھے۔ نہ آج بھی ہونا چاہتے ہیں۔ پلیٹ لیٹس خوفناک حد تک گر جائیں‘ گولیوں سے ٹانگیں چھلنی ہو جائیں‘ کوئی انتہائی خطرناک بیماری دبئی کے کسی ہسپتال کا مستقل مقیم کر دے‘ عزیز ترین رشتے دار اور دوست دنیا سے چلے جائیں‘ بولتے وقت لفظ بالکل قابلِ فہم نہ رہیں‘ محفلوں میں لوگ سب حفاظتی اقدامات توڑ کر جوتے مار دیں‘ گلیوں‘ بازاروں میں چلتے ہوئے لوگ گالیاں دیں‘ پھبتیاں کسیں۔ سب کچھ ہو جائے! کچھ بھی ہو جائے لیکن آخر تک آخری اور سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہونے یا رہنے کی خواہش پیچھا نہیں چھوڑتی۔ نشہ تب تک طاری رہتا ہے جب تک خون کی گردش ہے۔ یہ نشہ کب ختم ہوتا ہے؟ قرآن فرماتا ہے: حتیٰ زرتم المقابر۔ ترجمہ: یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔
کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس نشے کی موجودگی میں‘ جسے دولت، شہرت اور منصب کی شرابیں مزید تیز و تند کر دیتی ہیں، کسی سیاست دان کو یہ سوچنے کا موقع دیں گی کہ ہائے! مائی منظوراں کی جھگی میں آج بھی چولہا نہیں جلا۔صدیق دفتری کا راستہ لانگ مارچ اور جلوس نے پھر روک لیا۔ سہیل مستری کی دہاڑی آج پھر ٹوٹ گئی۔ غفورا آج بھی بچے کی سکول فیس جمع نہیں کرا سکا اور زرینہ کی بیٹی کو آج پھر اوباشوں نے گلی میں گھیر لیا‘ وہ کل سے کالج نہیں جا سکے گی۔
انہیں اس سے کیا غرض کہ بینک انتہائی ضروری ادویات کے خام مال کے لیے بھی ایل سیز نہیں کھول رہے۔ مریض دوائیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہلکان ہو رہے ہیں۔ وہ انتہائی مہنگی دوائیں اب نایاب ہونے کے دہانے پر ہیں جن پر زندگیوں کا دار و مدار ہے۔ جو پہنچ چکے وہ کنٹینرز بندرگاہ پر کھڑے ہیں کہ چھڑانے کے لیے ڈالرز نہیں ہیں۔ ڈالرز اس لیے نہیں ہیں کہ حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔ بینک کی قیمت اور کھلی مارکیٹ کی قیمت میں ڈالر ریٹ میں 25 روپے کا ہولناک فرق ہے۔ ہر جگہ‘ ہر بازار میں کام ٹھنڈا پڑا ہے۔ نہ آرڈرز مل رہے ہیں نہ مال دستیاب ہے نہ رقوم وعدوں کے مطابق ادا ہو رہی ہیں۔ کسی سیاست دان کے سینے میں وہ دل نہیں ہے کہ ان حالات پر کڑھے اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہو؟ کوئی ذکر کرتا ہے تو اس لیے کہ حریف پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ دونوں بڑے حریف ان حالات کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ دونوں حکومت میں ہیں۔ ایک مرکز میں اور دوسرا دو صوبائی حکومتوں میں۔ لیکن دونوں اپوزیشن بنے ہوئے ہیں۔ دونوں مظلوم بنے ہوئے ہیں۔
اصل مظلوم سانس روکے کے پی اور پنجاب کی طرف دیکھ رہے ہیں جہاں اسمبلیوں کی تحلیل سر پر ہے۔ یہ تماشا ختم ہو گا تو نیا شروع ہو جائے گا کہ مداری بھی بہت ہیں‘ بازی گر بھی بہت اور جوکر بھی بہت۔ تماشا مسلسل چلتا ہے اور پردہ گرتا ہی نہیں۔ کچھ گرتا ہے تو جسم گرتے ہیں‘ جو کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ کچھ کم بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن سفاکی سے دل سینوں سے کھینچ لینے کی صلاحیت پوری پوری ہوتی ہے۔ مفاد اصل مطلوب ہے، لیکن عوام کا نہیں، ملک کا نہیں، ذاتی مفاد! ایک دوسرے کی مخالفت میں ہر حد پار کرجانے والے اگر آج حلیف بنے ہوئے ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ ہے۔ حکومتی اتحاد کو دیکھ لیجیے! کسی اَن جانے، اَن دیکھے خطرے نے انہیں ایک کر دیا تھا۔ بطور سیاست دان ختم ہو جانے، نگل لیے جانے کا خطرہ! عمران خان کا خطرہ! یہی حال دوسری طرف بھی ہے۔ حلیف نظریاتی اور اصولی بنیاد پر نہیں ہیں۔ اس بنیاد پر ہیں کہ دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔ ان سب سے پوچھیے کہ یہ جو معاشی تلوار سر پر لٹک رہی ہے‘ یہ جو ملک پاتال کی طرف لڑھک رہا ہے‘ کیا یہ خطرہ انہیں ایک کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا بطور سیاست دان آپ کو محسوس نہیں ہو رہا کہ آپ نگل لیے جائیں گے؟ آپ کی شناخت ختم ہو جائے گی؟ اگر یہ خطرہ اب دکھائی نہیں دے رہا تو کب دکھائی دے گا؟
گرد و پیش میں ہونے والا تماشا دیکھیں اورکسی بھی سیاست دان کا حامی یا مخالف بنے بغیر کبھی اپنے آپ سے ایک حقیقت پسندانہ سوال پوچھیں۔ اپنے دل سے سچا جواب مانگیں۔ کیا یہ سیاست ہے؟ کیا یہ انتقام ہے؟ کیا یہ ذاتی اناکی تسکین ہے؟ کیا یہ زخم خوردگی کی کیفیت میں سب کچھ تباہ کرنے کی کوشش ہے؟ کیا یہ ہر صورت میں بدلہ لینے کی دلی خواہش ہے؟ کیا یہ خود کو عقلِ کل سمجھنے کی آخری منزل ہے؟ اس سوال کے جواب الگ الگ ملیں گے لیکن آپ جواب دل سے پوچھیے گا، سیاست دانوں سے نہیں‘ ورنہ جواب یہی ملے گا کہ یہ جمہوریت ہے۔ یہی جمہوریت کی خوب صورتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved