گزشتہ چند ماہ کے دوران سات لاکھ سے زائد پاکستانی ملک چھوڑ گئے ہیں۔ یقینا اس اقدام کے پیچھے بہتر مستقبل اور معاشی حالات کا خواب ہو گا۔ ویسے تو کورونا کے بعد سے ہی ملکی اور عالمی حالات بد تر ہونا شروع ہو گئے تھے لیکن گزشتہ سات‘ آٹھ ماہ سے تو معاشی بدحالی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس کی عالمی وجوہات بھی ہیں اور ملکی بھی۔ عالمی کساد بازاری اس وقت اپنے عروج پر ہے اور آئندہ سال‘ جس کے آنے میں اب چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں‘ اس میں کئی گنا اضافے کا خدشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس جنگ سے ان دونوں ممالک کو ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ پورا یورپ اس جنگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے کیونکہ یورپ میں تیل اور توانائی سمیت گندم اور سبزیاں تک یوکرین سے جاتی ہیں۔ یورپ کے معاشی حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو اس کا اثر اس خطے سے جڑے دنیا کے ان تمام ممالک پر بھی پڑا جو کسی نہ کسی طرح یورپ سے منسلک ہو کر تجارت کر رہے تھے۔اس طرح معاشی تباہی کا یہ دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیااور اس کی زد میں وہ چھوٹے چھوٹے ترقی پذیر ممالک بھی آگئے جن کی معیشت کی سانسیں پہلے ہی اکھڑی ہوئی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانیوں کو ان حالات میں ملک چھوڑ کر جانا چاہیے تھا۔ کیا ان کے بیرونِ ملک جانے سے حالات بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس کا شافی جواب تو ان لوگوں سے ملے گا جو یہاں سے چلے گئے ہیں لیکن انفارمیشن اور کمیونیکیشن کی دنیا اتنی وسیع اور ہر شخص کی دسترس میں آ چکی ہے کہ یہاں بیٹھ کر بھی کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ ویسے ویسے بیرونِ ملک جا کر آباد ہونا یا سیٹ ہونا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج سے بیس برس قبل تک یہ کام بہت آسان تھا مگر اب لگ بھگ ناممکن ہو چکا ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ آج کے دور میں وہی شخص بیرونِ ملک جا کر زیادہ کامیاب رہے گا جس کے پاس کوئی پروفیشنل ڈگری ہے۔ محض ٹیکسی چلا کر یا شاپنگ مالز اور پٹرول سٹیشنز پر کام کر کے شاید گزارہ آج وہاں بھی ممکن نہیں ہے۔پہلے پہل صرف ٹیکسی چلا کر بھی اچھی گزر بسر ہو جاتی تھا اور اس طرح کئی لوگوں نے اچھے خاصے پیسے بنائے۔ یہ کام آج سے تین‘ چار دہائیوں قبل تک ٹھیک تھا لیکن آج مقابلہ بہت زیادہ سخت ہے‘ آبادی بھی بڑھ چکی ہے‘ توانائی کے مسائل بھی سر اٹھا چکے ہیں‘ رہائش کے لیے جگہیں کم پڑ گئی ہیں‘ نائن الیون کی وجہ سے امیگریشن کے قوانین بھی سخت ہو گئے ہیں اور کئی ممالک میں تو مہنگائی نے ستر‘ ستر سال کے ریکارڈ بھی توڑ دیے ہیں۔ ایسے میں جبکہ مہنگائی کا پانی یورپی ممالک کے مقامی لوگوں کی گردن سے بھی اوپر ہو رہا ہے‘ نیا بندہ وہاں جا کر کتنی دیر میں سیٹ ہو سکتا ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
دور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان جدید ممالک میں مہنگائی ہے‘ بیروزگاری بھی ہے‘ ٹیکسوں کی بھرمار ہے لیکن کچھ چیزیں پھر بھی ایسی ہیں تیسری دنیا کے ملکوں میں بیٹھ کر جن کے بارے میں صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ قانون پر عمل داری‘ وقت کی پابندی‘ میرٹ پر عمل درآمد وغیرہ۔ اسی طرح صاف اور خوشگوار فضا‘ لوگوں کا اپنے کام سے کام رکھنا‘ سیروتفریح کے صاف ستھرے مقامات ‘ صحت اور تعلیم کی اعلیٰ سہولتیں ‘ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کی یہاں شاید امید بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دن دہاڑے کسی کے ساتھ کوئی واردات ہو جائے تو وہ تھانے میں جا کر رپورٹ کرانے سے پہلے دس مرتبہ سوچتا ہے کہ پتا نہیں کیس درج کرانے کا کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں۔ چھوٹے موٹے نقصانات میں تو لوگ تھانے جاتے ہی نہیں کہ معلوم نہیں ہمارا کوئی والی وارث بنے گا بھی یا نہیں۔پھر جتنی تعداد میں کیس درج کرائے جاتے ہیں اس حساب سے پولیس کے پاس تفتیش کے لیے عملہ اور دیگر سہولتیں موجود ہیں یا نہیں‘ یہ الگ المیہ ہے۔ہسپتالوں کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ ویسے تو ہر دوسرے‘ تیسرے مہینے کوئی نہ کوئی آفت آئی رہتی ہے۔ کبھی کورونا‘ کبھی ڈینگی ‘ کبھی سموگ اور اس دوران سرکاری ہسپتالوں میں بیڈ ملنا ناممکن ہو جاتا ہے چاہے آپ ایم ایس کو چھوڑ کر‘ کسی وزیرکی سفارش ہی کیوں نہ کرا لیں۔جب ہسپتال میں بیڈ ہی کم ہوں گے اور پہلے ہی متعدد مریض وارڈوں کی راہداریوں تک میں لیٹے ہوں گے تو ایسے میں وزیر یا ایم ایس کی سفارش کیا کرے گی۔ اب ڈاکٹر یا پیرامیڈیکل سٹاف اپنے گھروں سے بیڈ لا کر دینے سے تو رہا۔ نجی ہسپتالوں میں جانے کی ہر کسی میں ہمت ہے نہ جیب میں سکت۔ بیماری کوئی بھی ہو‘ اگر آپریشن ہوا ہے تو ایک دن کا اوسطاً ایک لاکھ روپیہ لگ جاتا ہے۔ادویات اور دیگر اخراجات الگ! سابق حکومت کا ہیلتھ کارڈ بہرحال اس حوالے سے ایک نعمت دکھائی دیتا ہے اور ہزاروں لوگ اس سے مستفید ہو چکے ہیں لیکن یہ کارڈ بھی اس وقت تک کارآمد ہے جب تک حکومتیں ہسپتالوں کو واجبات کی ادائیگی کرتی رہیں گی۔ جیسے ہی انہوں نے ہاتھ کھینچا‘ یہ سسٹم بھی زمین بوس ہو جائے گا۔
تعلیم کی بات کریں تو ہر حکومت اپنی اپنی پالیسیاں لاتی ہے۔ طلبہ کو آخر وقت تک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پتا نہیں جس سسٹم کے تحت وہ تیاری کر رہے ہیں امتحان بھی اسی کے مطابق لیا جائے گا یا نہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں میڈیکل کے ایک ٹیسٹ میں ہوا۔ ایسے ایسے طلبہ بھی انٹری ٹیسٹ میں فیل ہو گئے جنہوں نے ایف ایس سی میں ٹاپ کیا تھا۔سابق وزیراعظم عمران خان نے ویسے درست ہی کہا تھا کہ اس ملک میں بارہ موسم ہیں۔غالباً انہوں نے یہ بات بیوروکریسی کے حوالے سے کی تھی کہ جس کی جانب سے ہر چھ مہینے بعد کوئی نئی پالیسی لاگو کر دی جاتی ہے اور عوام ہکا بکا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔کاروبار کی بات کریں تو جن کے بہت پرانے کاروبار ہیں‘ وہ تو کسی طرح قدموں پر کھڑے ہیں لیکن نیا کاروبار شروع کرنا اور اسے منافع میں چلانا لگ بھگ ناممکن ہو چکا ہے۔ایک طرف حکومتی پالیسیاں اور دوسری جانب کورونا اور سموگ جیسی آفتیں مگرمچھ کی طرح منہ کھولے کھڑی ہیں۔
کورونا سے گرتے پڑتے ابھی کاروبار کھڑے ہی ہوئے تھے کہ عالمی کساد بازاری کی لہر آ گئی۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت نے الگ سے معیشت کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ سونے کی قیمت ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہے۔نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لے کر گھوم رہے ہیں اور انہیں کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں کہ ڈگریوں کا زمانہ اب لد چکا۔ ڈگری کے ساتھ جب تک سکلز نہ ہوں گی‘ ڈگریوں کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ حکومتوں کے پاس بھی عوام کو دینے کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ حکومتی خزانے اور زرِمبادلہ کا حال بھی عیاں ہے۔ایسے میں جو لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ ممکن ہے وہ بہت مجبوری کی حالت میں یہ فیصلہ کر رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ چند برسوں کے بعد ان کے حالات بہتر ہو جائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیرونِ ملک جا کر جتنی سخت محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے اس سے آدھا زور اگر اپنے ملک میں لگا دیا جائے تو عیاشی نہ سہی لیکن اپنوں کے درمیان رہتے ہوئے دو وقت کی روٹی تو پوری ہو ہی سکتی ہے۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بیس سے تیس برس کے نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے جدید سکلز سیکھ کر لاکھوں روپے کما رہے ہیں اور یہاں بیٹھے ڈالر کھرے کر رہے ہیں۔
بیرونِ ملک جانے سے شاید ان کے حالات تو اچھے ہو جائیں گے لیکن ان کو بہت سے کمپرومائزز کرنا پڑیں گے۔ اپنے پیاروں سے دوری اور تنہائی کا عذاب ہی ان کو چین نہیں لینے دے گا اس لیے حتیٰ الامکان کوشش یہی ہونی چاہئے کہ یہاں پوری جان مار کر محنت کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو بیرونِ ملک سے بھی زیادہ رزق اپنے ملک میں عطا کرے تاکہ آپ اپنے والدین اور اپنے پیاروں کے ساتھ زندگی کا زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved