تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     24-12-2022

جب اداسی دل کو گھیر لے

بھارت پاکستان کے خلاف کوئی منصوبہ بناتا تو وہ نہ ہوتا جو ہم خود اس ملک کے ساتھ کررہے ہیں۔اب تو دیہات تک یہ بات پہنچ چکی ہے کہ ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔ہر طرف ایک عجیب کیفیت چھائی ہوئی ہے کہ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے۔خوف اس با ت سے آ رہا ہے کہ حالات پر کسی کا کنٹرول نہیں۔یعنی حالات بے قابو ہو رہے ہیں اور حکومتیں اور جنہیں ہم ادارے کہتے ہیں بے بس نظر آ رہے ہیں۔بہت کچھ زندگی میں دیکھا ہے ایسی کیفیت نہیں دیکھی۔
یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔موجودہ وفاقی حکومت نمائندہ حکومت نہیں ہے۔ دم خم اس میں نہیں ہے۔ سوچ کا فقدان ہے۔ نئے انتخابات کے ذریعے ہی امید لگائی جاسکتی ہے کہ ایک مضبوط حکومت اس عمل سے نکل پائے گی۔لیکن یہ بھی معلوم ہے کہ جو طاقت کا منبع یا سرچشمہ ہیں اُنہوں نے انتخابات نہیں ہونے دینے کیونکہ انتخابات سے ڈر ہے کہ ایک پارٹی سب کچھ صاف نہ کردے۔اور یہ ہمارے طاقتوروں کو منظور نہیں۔ یعنی ملک بھنور میں پھنسا ہے تو پھنسا رہے‘ ناؤ ڈوبی جا رہی ہے تو ایسے ہوتا رہے لیکن انتخابات ہم نے نہیں ہونے دینے۔ حالات کی مماثلت 1971ء سے بنتی ہے۔اُس بحران کا واحد ممکنہ حل یہ تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 3مارچ 1971ء کو بلایا جاتا لیکن نہ بلایا گیا اورپھر جو ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔ آج بھی موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے ایک ہی راستہ ہے لیکن ٹھیکیداران ِ ملت مُصر ہیں کہ یہ راستہ اختیار نہیں کرنا۔بتائیے پھر اس بھنور سے ہم نکلیں گے کیسے؟
ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں؟ہم مرچ مسالے سے بھری آڈیو ریکارڈنگز قوم کی دلچسپی کیلئے سامنے لا رہے ہیں۔لیں مزہ ان ریکارڈنگزکا۔ کالا باغ کا نام لیں اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں۔ ملک کے ساتھ جو ہو رہا ہے‘ ہوتا رہے۔ہم نے مرچ مسالے والا کام جاری رکھنا ہے۔ ٹھیکیدارانِ ملت سے پوچھا جائے کہ چلیں ہنسی کا سامان مرتب ہو گیا لیکن حاصل کیا ہوا؟ پاکستان جس مشکل میں پھنسا ہوا ہے اُس میں کوئی افاقہ آئے گا؟ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں‘ مانا ایک شخص یا ایک جماعت کو آپ آگے آنے نہیں دیں گے لیکن حضورِ والا! اتنا تو بتائیے کہ ذہن میں کوئی اور پلا ن بھی ہے ؟قوم کو باور کرایاجا رہا تھا کہ نومبر میں فلاں تقرری ہوگی تو استحکام آ جائے گا۔ تقرری ہو گئی لیکن جس تلاطم میں ملک گھرا جا رہا ہے اُس میں کمی کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں؟ یہ ایسا ہی ہے کہ 1971ء کا بحران ہو اور آپ شیخ مجیب الرحمن کو برا بھلا کہتے رہیں۔ ایسی ترکیبوں سے کیا ہوتا ؟
ہونا کیا چاہئے؟ جناب الیکشن کرائیں اور دیکھیں کہ عوام کی رائے کیا ہے‘ اور اُس رائے کے مطابق چلیں لیکن یہ نہیں ہوپا رہا کیونکہ جیسے عرض کیا‘ خوف ہے اور ضد ہے کہ الیکشن ہوئے تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔آپ کا استدلال مان لیا‘ جو آپ کہہ رہے ہیں درست کہہ رہے ہیں لیکن اتنا تو بتائیے کہ متبادل کیا ہے؟ چلیں‘ الیکشن نہیں کرانے‘ پھر اور کیا کرانا ہے؟کچھ تو کیجئے لیکن جیسے ہر کسی نے سانپ سونگھ لیا ہو نہ سوچ نہ کچھ کرنے کی ہمت۔دھڑکا لگا ہوا تھا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی تو پھر کیا کریں گے۔وہ خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن ملک کی عمومی صورتحال کیا بہتر ہو گی؟ آپ سے حالات سنبھل جائیں گے؟ مسئلہ پنجاب کا نہیں ہے‘ ملک کا ہے۔کیفیت تو غالبؔ والی ہے کہ 'نے ہاتھ باگ پرہے نے پاؤں ہے رکاب میں‘۔ لیکن سچ پوچھئے ہم نے فکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ہمارے مسائل لاعلاج نہیں ہم لاعلاج ہیں۔ سوچ نہیں‘ صلاحیت نہیں‘ ہر کوئی حسبِ استطاعت چوری چکاری میں لگا ہوا ہے۔ ایسے میں فکر کرنے کی پھر کیا ضرورت؟
کرسمس کل ہے اور نیوایئر کی شا م کچھ دنوں میں ہوگی۔ کراچی میں بینک لیٹر آف کریڈٹ کھول رہے ہیں یا نہیں ہمارا دردِ سر نہیں‘ معیشت کی ناؤ بھنو ر میں ہے ہمیں کوئی پروا نہیں۔ہماری پروا یہ ہے کہ کرسمس کی شام اور نیوایئر کی شام خالی نہ جائے۔ہاتھ پہ پاتھ رکھ کر بیٹھے نہ رہیں۔ان دوشاموں کو ہمارے لیے کوئی راستہ کھلتا ہے تو ہم اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھیں گے۔دو بھڑولے گندم کے پڑے ہیں‘ یعنی اگلی فصل تک دانے ہمارے پاس ہیں۔مالٹے اور کینوں کے درختوں پر پھل لگا ہوا ہے‘ ان سردیوں میں خالص جوس میسر ہوتا رہے گا۔جہاں تک دوسری خالص چیزوں کی تمنا ہے اللہ مسبب الاسباب ہے‘ اُس کی ذات پر امید رکھنی چاہئے۔یعنی اور دیگر خالص چیزیں بھی مل جائیں گی۔ آڈیولیکس کے بعد کالا باغ صرف ایک قصبے کا نام نہیں رہا یہ ایک ذہنی کیفیت کے حوالے سے یاد کیا جائے گا۔گھر کی گندم ہو‘ اپنے مالٹوں کا رس ہو‘ کالا باغ کے راستوں کی کچھ جانکاری آپ رکھتے ہوں تو ہو پنجاب میں جو ہونا ہے۔ کون آئی جی تعینات کیا جاتا ہے‘ چیف سیکرٹری کون ہے‘ گورنرہاؤس سے کون سے نوٹیفکیشن جاری ہو رہے ہیں ہماری بلا جانے۔سردی صحیح طرح نہیں پڑ رہی تھی‘ اب پڑنا شروع ہو گئی ہے۔ٹی وی پروگرام کے لیے لاہور آنا پڑ ا ہے نہیں تو گاؤں میں ہوتے سردیوں میں جو آگ جلانے کا عمل ہوتا ہے وہ ہماری جھونپڑی میں کل سے شروع ہو جاتا۔ کیکر اور پھلاہی کی کچھ لکڑی ا کٹھی کی ہوئی ہے‘ اب استعمال میں آنے لگے گی۔
سابقہ فاٹا میں دہشت گردی ایک با ر پھر سراٹھا رہی ہے‘ ہر روز سننے میں آتا ہے کہ فلاں چیک پوسٹ پر حملہ ہوا ہے۔ بلوچستان کے حالات اچھے نہیں۔ لیکن ان سب کا ہم کیا کریں؟ جنہوں نے فیصلہ سازی کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے وہ عوام الناس کی نہیں سنتے ہماری کیا سنیں گے؟تو پھر سر پٹخنے کی کیا ضرورت؟ البتہ اتنا کہنا پڑتا ہے کہ جو کھیل جاری ہے‘ نہایت خطرناک ہے۔سری لنکا کو صرف دیوالیہ پن کا خطرہ تھا۔ ہماری صورتِ حال مختلف ہے۔ یہاں صرف دیوالیہ پن کا خطرہ نہیں بہت کچھ اور کا بھی ہے۔ مستقبل کی سوچ آتی ہے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔جی کر رہا ہے کہ یوگوسلاویہ کی تاریخ پڑھی جائے۔ ہماری زندگیوں میں جو سوویت یونین کا حشر ہوا اُس کے بارے میں پھر سے کچھ پڑھا جائے۔مصیبت یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں بہت کچھ نہیں ملتا اچھی کتابیں بھی مشکل سے ملتی ہیں۔ ویسے بھی کس کو فرصت ہے یہاں پڑھنے کی۔
کیا حشر اس ملک کاہم نے کردیا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ یہ کچھ ہوگا تو ہم نہ مانتے‘لیکن چھ سات ماہ کے عرصے میں خرابی کی وہ رفتار ہے کہ خدا کی پناہ۔ پہلے کون سے حالات اچھے تھے لیکن کام چل رہا تھا‘ کشتی ڈوبنے والی بات تو نہیں کی جاتی تھی‘ لیکن اپریل میں بغیر سوچے سمجھے ایسا جھٹکا دیا گیا کہ نتائج اُس کے سنبھالے نہیں گئے۔ چھوڑیں ان باتوں کو۔ یہ جو دن آ رہے ہیں مغربی دنیا میں انہیں خوشی کا سیزن کہتے ہیں۔ شاپنگ ہوتی ہے‘ پارٹیاں ہوتی ہیں‘ سامانِ راحت کا استعمال وافر ہو جاتا ہے۔ایسی چیزوں کا سوچیں۔ حالات خراب ہوں اُن میں بھی آپ کچھ خوشی کا سامان پیدا کر سکیںتو بہادری کہلائے گی۔بارہا دل نے کہا کہ چھوڑو تجزیے اور نصیحتیں۔ یہاں کسی چیز نے کام نہیں کرنا‘ یہاں کچھ نہیں سدھرنا۔لیکن جب اداسی دل کو گھیر لے تو کیا کریں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved