تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     24-12-2022

دبئی کا سفر‘ چند تاثرات … (2)

عرب امارات میں اس وقت 35لاکھ بھارتی شہری مقیم ہیں‘ جن میں 12 لاکھ دبئی میں رہائش پذیر ہیں۔ دبئی کے مصروف ترین علاقے بُردبئی میں ایک ہندو مندر عرصے سے موجود تھا لیکن اب جبلِ علی میں ایک نیا مندر بنایا گیا ہے جس کا افتتاح دبئی کے وزیر برائے رواداری اور بقائے باہمی شیخ نہیان بن مبارک النہیان اور بھارتی سفیر نے کیا تھا۔ شیخ نہیان نے ایک زمانے میں پاکستان میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی تھی لیکن اب سرمایہ کاری کے اعتبار سے اماراتی لیڈر بھارت کو ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اور وہاں سیاسی استحکام بھی ہے۔ دبئی میں بے شمار مساجد کے علاوہ تین چرچ اور ایک سکھوں کا گوردوارہ بھی موجود ہے۔ پچھلے دو سال میں امارات میں سات یہودی معبد بھی بن چکے ہیں‘ یہاں اچھی خاصی تعداد میں اسرائیلی تجارت اور سیاحت کی غرض سے آ رہے ہیں لیکن تگڑی حکومتی رِٹ کی وجہ سے یہاں کوئی مذہبی جتھا بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہاں کے شہری اپنے نظام سے خوش کیوں ہیں اور انہوں نے ہر چیز حکام کی صوابدید پر کیوں چھوڑی ہوئی ہے؟ جواب یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری اور پروفیشنل لوگوں کے آنے سے یہاں خوش حالی آئی ہے۔ ہر غیر ملکی مزدور کا ایک کفیل ہے۔ ہر غیر ملکی بزنس مین جب یہاں کاروبار شروع کرتا ہے تو اُس کے لیے مقامی شراکت دار رکھنا ضروری ہے۔ اس ساری خوشحالی میں مقامی لوگ چونکہ شراکت دار ہیں لہٰذا انہیں اپنی دھرتی پر غیر ملکیوں کا وجود بُرا نہیں لگتا۔
دبئی کے حکمران خوشحالی کے لیے ہمیشہ دور اندیش فکر کے حامل رہے ہیں۔ زیادہ دیر نہیں گزری کہ دبئی نے گولڈن ویزہ کا اجرا کر دیا ہے۔ میں جب وہاں دو ہفتے پہلے تھا تو میرا بیٹا دبئی کے دس سال کے ویزہ کے لیے اپلائی کر رہا تھا یعنی ہر سال ویزہ کی تجدید سے جان چھوٹ جائے گی۔ پروفیشنل لوگ چونکہ ہوائی سفر زیادہ کرتے ہیں لہٰذا انہیں ایئر پورٹ پر استعمال کے لیے سمارٹ کارڈ دیے گئے ہیں تاکہ ہر دفعہ پاسپورٹ پر مہر لگوانے کے لیے لائن میں نہ کھڑا ہونا پڑے۔ آپ آتے ہوئے اور جاتے ہوئے اپنا کارڈ سکین کریں اور امیگریشن کا کام ہو جاتا ہے۔ ان سہولتوں کی وجہ سے کئی لوگ اپنی فیملی دبئی میں رکھتے ہیں اور کام بحرین‘ دوحہ یا ریاض میں کرتے ہیں۔ برخوردار غالب حفیظ بھی کام ریاض میں کرتا ہے۔ دبئی میں رہنے والی فیملیز اپنی جگہ خوش ہیں۔ یہاں ہر چیز کی سہولت موجود ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ سکول موجود ہیں۔ غالب کے دو بچے ہیں جو برٹش سکول جاتے ہیں۔ دونوں بچے انگریزی تو بولتے ہی ہیں مگر اردو بھی پوری طرح سمجھتے ہیں اور ابتدائی عربی بھی پڑھ رہے ہیں۔دبئی کے واٹر پارک جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ وہاں پانی کے مختلف کھیلوں کو بچے بہت پسند کرتے ہیں‘ خاص طور پر پانی والے رولر کوسٹر کو۔ ہمارا چار سالہ پوتا مہر زاد حفیظ وہاں بہت خوش تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہر کھیل اور خاص طور پر رولر کوسٹر کے لیے اس کے ساتھ جانا ضروری ہوگا مگر وہ مکمل خود مختاری کے ساتھ کئی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا رولر کوسٹر سے محظوظ ہو رہا تھا۔ جب اُسے گھر واپس جانے کو کہا گیا تو وہ صاف انکاری تھا۔
ویک اینڈ آیا تو پروگرام تھا کہ راس الخیمہ جا کر کیمپنگ کی جائے۔ ساحلِ سمندر پر کئی خیمے لگے ہوئے ہیں۔ آپ اپنی پسند کا خیمہ کرائے پر لے سکتے ہیں۔ بچے ساحلِ سمندر پر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ یہاں رات دبئی کی نسبت ٹھنڈی ہوتی ہے۔ باربی کیو کرنے کا مناسب بندوبست ہے۔ کھانا آپ خود بھی بنا سکتے ہیں اور آن لائن آرڈر بھی کر سکتے ہیں۔ راس الخیمہ دبئی شہر کے پاس ہی ہے‘ چند منٹوں میں کھانا آپ کے خیمے میں ڈِلیور ہو جاتا ہے۔اتوار کے دن سحری باغ (Miracle Garden) جانے کا پروگرام بنا۔ باغ انواع و اقسام کے پودوں اور پھولوں سے سجا ہوا ہے۔ چھٹی کی وجہ سے بہت رش تھا۔ یہاں پٹونیا (Petunia) کے پھول سجاوٹ کے لیے کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ باغ میں چھوٹی چھوٹی بھی پہاڑیاں بنائی گئی ہیں۔ ایک محل نما عمارت پر پھول ہی پھول ہیں۔ ایک پرانا ہوائی جہاز وسط میں کھڑا ہے۔ جہاز کم کم نظر آتا ہے کیونکہ یہ پھولوں سے لدا ہوا ہے۔ درمیان میں فاسٹ فوڈ کے ریسٹورنٹ ہیں جہاں برگر شوارما وغیرہ دستیاب ہیں۔ ہماری پانچ سالہ پوتی اذالیہ اپنی سائیکل چلا کر خوش ہو رہی تھی۔ میرا نومبر کے آخر میں دبئی کا سفر اذالیہ کی پانچویں سالگرہ سے منسلک تھا۔
یہاں کے ہسپتال عالمی معیار کے ہیں۔ صدر زرداری بھی علاج کے لیے دبئی جاتے ہیں۔ پرویز مشرف کا علاج بھی یہیں ہو رہا ہے۔ کئی مغربی یونیورسٹیوں نے یہاں کیمپس بنا لیے ہیں لہٰذا اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی ہو گیا ہے۔ شاپنگ کے شوقین خواتین و حضرات کیلئے یہاں ایک سے ایک اعلیٰ شاپنگ مال ہے۔ آپ مال آف دبئی میں چلے جائیں اور پورا دن وہاں گھومتے رہیں۔ دبئی میں موسم گرما بڑا شدید ہوتا ہے لہٰذا ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مال ایک معقول حل ہے۔
جن دنوں میں دبئی میں تھا‘ دوحہ میں فٹ بال کا ورلڈ کپ چل رہ تھا۔ دوحہ کے ہوٹل فٹ بال کے شائقین سے پر ہو چکے تھے۔ متعدد شائقین نے ایک حل یہ نکالا کہ وہ شب باشی دبئی میں کرتے تھے اور صبح کو بائی ایئر دوحہ روانہ ہو جاتے تھے۔ دبئی سے دوحہ کے لیے روزانہ تیس خصوصی پروازیں چل رہی تھیں۔ دبئی میں درجنوں فائیو سٹار ہوٹل ہیں‘ جن کا کاروبار ورلڈ کپ کی وجہ سے خوب چمک رہا تھا۔ دبئی کو خطے کے دیگر ممالک کے گمبھیر مسائل کا ہمیشہ فائدہ ہوا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں طویل عرصے سے تناؤ چلا آ رہا ہے۔ دوطرفہ تجارت بظاہر بند ہے لیکن دونوں ممالک دبئی کے ذریعے اربوں کی تجارت کرتے ہیں۔ ذرا اعداد و شمار دیکھ لیں‘ عرب امارات بھارت اور پاکستان دونوں کا بہت نمایاں تجارتی شراکت دار ہے۔ تعلقات انڈیا اور پاکستان کے کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی کی وجہ سے فائدہ دبئی پورٹ کو ہو رہا ہے۔
دبئی ہی سے میں نے جنوبی افریقہ کا طویل سفر کرنا تھا۔ غالب اپنی جاب پر ریاض جا چکا تھا۔ میری فلائٹ صبح چار بجے تھی۔ ایئر پورٹ ایک بجے پہنچنا تھا۔ میں ٹیکسی منگوانا چاہتا تھا کہ سمارٹ فون نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے مگر بہو قرۃ العین مُصر تھی کہ میں آپ کو ایئر پورٹ چھوڑ کر آؤں گی۔ مجھے خوف آتا ہے کہ اکیلی خاتون ڈرائیو کرکے رات کو ڈیڑھ بجے گھر واپس آئے لیکن عینی کا کہنا تھا کہ یہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ میں غالب کو اکثر رات گئے ایئر پورٹ چھوڑنے جاتی ہوں۔ قانون کی حکمرانی اور تحفظ کا احساس دبئی کی خوشحالی کا بنیادی ستون ہیں۔
ایئر پورٹ پہنچ کر میں اپنا سامان کیپ ٹاؤن والی فلائٹ پر بک کرانے کے لیے دبئی کی ایئر لائن کے کاؤنٹر پر چلا گیا۔ اس ایئر لائن کے یہاں درجنوں کاؤنٹر ہیں۔ کاؤنٹر پر بیٹھی اماراتی لڑکی نے میرا پاسپورٹ مانگا اور جنوبی افریقہ کے ویزہ کو غور سے دیکھ کر کہا کہ آپ بُرا نہ منائیں تو میں آپ کے ساتھ سکیورٹی والوں کے پاس جانا چاہوں گی۔ سکیورٹی چیک والا بھارتی تھا۔ میں نے احتیاطاً سبز پاسپورٹ کے ساتھ پرانا سرخ رنگ کا سفارتی پاسپورٹ بھی لگایا ہوا تھا لہٰذا اُس نے مکمل آداب کے ساتھ دو تین روایتی سوال پوچھے اور اماراتی لڑکی کو کہا کہ سب ٹھیک ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ اس قدر مشکوک کیوں ہو گیا ہے‘ یہ بحث آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
میرا دبئی میں ہفت روزہ قیام اختتام پذیر ہو چکا تھا اور میں کیپ ٹاؤن کی فلائٹ کے لیے مختص کردہ گیٹ ڈھونڈ رہا تھا کہ تب میرے ذہن میں بار بار سوال یہ آ رہا تھا کہ ریگستان والے کہاں پہنچ گئے اور ہم معکوس ترقی کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved