تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     24-12-2022

خدارا! ملک پر رحم کھائیں

نظریات کبھی بھی کھڑے پانی کی مانند نہیں ہوتے۔ اگر نظریا ت بھی پانی کی طرح ساکت و جامد ہو جائیں تو ان میں بھی سڑانڈ پھیل جائے، سچ اور جھوٹ کا فرق مٹ جائے اور حقیقت کی تہہ میں چھپے منظر کبھی بھی نظر نہ آئیں کیونکہ کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ کی نہیں شعور کی بینائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دنوں پنجاب کی سیاست بھی ایسا ہی منظر پیش کر رہی ہے۔ ہر طرف کنفیوژن اور دھندلا پن چھایا ہوا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون کیا چاہتا ہے؟ کس کے کیا عزائم ہیں اور کیوں؟
پنجاب میں گزشتہ آٹھ ماہ سے تماشا لگا ہوا ہے۔ بارہ کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اقتدار کی لڑائی میں تین وزرائے اعلیٰ قربان ہو چکے ہیں اور کون جانے آئندہ آنے والے کے ساتھ کیا ہوگا؟ انتہائی دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس سیاسی ناچاقی میں سب سے زیادہ برا حال آئین کا ہوا ہے اور وہ طبقہ جو آئین کو بالاتر سمجھتا تھا‘ اسے ایسے ایسے منظر دیکھنے کو ملے کہ جن کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت آئین کے مطابق کام کر رہی ہو اور ایک دوسرے سے متصادم بھی ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ سچ اور جھوٹ کی ایک ہی دلیل ہو؟ حق بھی آئین کی بات کرے اور باطل بھی آئین کا حوالہ دے۔ یہ بات عقل، فہم اور دانش کے خلاف ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں، کیا صحیح و غلط کی منطق ایک جیسی منطق ہو سکتی ہے؟ کیا دائیں اور بائیں کی دلیل میں مماثلت ممکن ہے؟ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی اور اجلاس بلایا مگر سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کے اس فعل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ سپیکر نے اپنے خط میں لکھا کہ جب اسمبلی کا اجلاس جاری ہو تو نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ گورنر نے جوابی وار کیا اور وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا‘ جس کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب متحرک ہوئے اور انہوں نے کابینہ کو تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ گورنر پنجاب نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرکے آئین سے تجاوز کیا ہے اور وہ حکومت بحال کرنے کی استدعا لے کر ہائیکورٹ میں چلے گئے۔
گورنر پنجاب کا موقف ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ آئین کی منشا کے مطابق تھا جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان بھی اپنے عمل کی یہی دلیل دے رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فریقین میں سے کس کی رائے درست ہے اور کس کی غلط؟ آئین کے مطابق کس نے کام کیا ہے اور غیر آئینی قدم کس نے اٹھایا ہے؟ اگر دونوں ہی درست فرما رہے ہیں تو کیا غلطی آئین بنانے والوں کی ہے جنہوں نے مختلف شقوں کو ایک دوسرے سے متصادم کر دیا؟ میرے نزدیک معاملہ کچھ اور ہے۔ اگرچہ بسا اوقات آئین کی کچھ شقوں کے باہم سامنے آنے سے ایک ابہام سا پیدا ہو جاتا ہے مگر موجودہ کیس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس دفعہ اہلِ حَکم کی اناؤں نے آئین کی اپنے اپنے مطابق تشریح کی ہے اور اپنے مفاد کے مطابق مطالب اخذ کیے ہیں۔ جب اقتدار اور کرسی کی ہوس بے لگام ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ملکی سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
آئین و قانو ن کے ماہرین اور طالب علم جانتے ہیں کہ آئین ہر قانون اور رولز سے بالاتر ہے۔ جو بات آئین میں واضح طور پر درج ہو وہ حکم کا درجہ رکھتی ہے اور پھر سارے قانون اور رولز بے اثر ہو جاتے ہیں۔ آئین کی شق (7) 130 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''وزیراعلیٰ گورنر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہے گا، لیکن گورنر اس شق کے تحت اپنے اختیارات استعمال نہیں کرے گا تاوقتیکہ اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ وزیراعلیٰ کو صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ ایسی صورت میں وہ صوبائی اسمبلی (کے اجلاس) کو طلب کرے گا اور وزیراعلیٰ کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے گا‘‘۔ میری دانست میں آئین کا یہ آرٹیکل مبہم نہیں ہے اس لیے اسے اسمبلی رولز پر بالادستی حاصل ہے۔ آئین میں یہ بات ضرور لکھی ہے کہ سپیکر ہی اجلاس کو ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اسمبلی رولز بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر ایک اجلاس چل رہا ہو تو گورنر اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس نہیں بلا سکتا۔ پنجاب اسمبلی کے ڈھائی سو کے قریب رولز ہیں‘ وہاں بھی ایسی کوئی بات واضح طور پر درج نہیں۔ اگرگورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا تو سپیکر کو اسے اَنا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے تھا اور اس پر فوری عمل درآمد کرنا ضروری تھا۔ صوبائی اسمبلی رولز کی شق 22(7) کے مطابق ''اگر گورنر کے حکم کے باوجود وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو سمجھا جائے گا کہ انہیں اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے‘‘۔ اسی شق کا سہارا لیتے ہوئے گورنر نے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا۔ اب لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کی طرف سے وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر کے وزیراعلیٰ پنجاب اور صوبائی کابینہ کو بحال کر دیا ہے۔
اگر گورنر پنجاب کی کارروائی کو دیکھا جائے تو بادی النظر میں زیادہ قصور سپیکر پنجاب اسمبلی کا ہے مگر سزا وزیراعلیٰ پنجاب کو دی گئی ہے۔ جب سپیکر نے اجلاس بلایا ہی نہیں تو وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ کیسے لے سکتے تھے؟ اگر اسمبلی کا اجلاس ہوتا اور وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہ لیتے تو اس صورت میں ڈی نوٹیفائی کرنا ناگزیر تھا مگر اب اس سارے قضیے میں 'اگر مگر‘ کا سہارا لیا جائے گا اور آئین و قانون کی مختلف تشریحات کی جائیں گی۔ سپیکر کا عہدہ آئینی ہے اور انہیں اسمبلی رولز سے زیادہ آئین کا احترام کرنا چاہیے تھا مگر ہمارے سیاسی نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں سارے آئینی عہدے سیاسی ہوتے ہیں۔ تمام گورنرز، سپیکرز اور صدور اپنی اپنی جماعتوں کے مفادات اور پالیسیوں کو فالو کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آئینی عہدوں کو سیاست کی نذر کرنا غیر آئینی عمل ہے۔ اب تحریک انصاف کے اکابرین نے اعلان کیا ہے کہ وہ گورنر پنجاب کے خلاف صدرِ پاکستان کو ریفرنس بھیجیں گے اور وہ انہیں عہدے سے ہٹا دیں گے۔ اس معاملے پر آئین کی دو شقیں الجھتی نظر آتی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 101(3) کہتا ہے کہ گورنر صدر کی خوشنودی تک عہدے پر رہیں گے مگر شق 48 میں درج ہے کہ صدر وزیراعظم او ر کابینہ کی ایڈوائس پر کام کریں گے۔ یہاں یہ دونوں شقیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نظر آتی ہیں۔ اس سے پہلے یہ قانونی مسئلہ اس وقت پیش آیا تھا جب سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو وفاقی حکومت نے ہٹایا تھا۔ صدر کے پاس حکومت کی سمری کو پچیس دن تک روکے رکھنے کا اختیار ہے مگر وہ خود سے کچھ نہیں کر سکتے۔ انہیں گورنر کو ہٹانے کے لیے وزیراعظم کی ایڈوائس درکار ہو گی۔ اگر انہوں نے سپیکر پنجاب اسمبلی کے ریفرنس پر گورنر کو ہٹایا تو یہ عمل بھی اتنا ہی متنازع ہو گا جتنا وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنا۔ اس وقت تمام جماعتوں کو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ ساری کنفیوژن دور ہو سکے۔ ابھی تک کے فیصلے میں عدالت نے گورنر کے نوٹیفکیشن کو معطل کر کے پنجاب حکومت کو مشروط طور پر بحال کیا ہے جبکہ مزید سماعت 11 جنوری کو ہو گی۔
گزشتہ پچھتر سالوں میں ایک کام جو تواتر سے ہوتا آیا ہے‘ وہ آئین شکنی ہے۔ یہ کام جمہوری حکومتوں نے بھی کیا اور آمریت کا تو خاصہ ہی یہ رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے سیاست دان اَناؤں کی قربانی دے کر ایک ساتھ بیٹھ جائیں۔ تبھی حالات کو بے قابو ہونے سے روکا جا سکتا ہے ورنہ ملک سیاسی طور پر جس راستے پر چل رہا ہے‘ وہاں آگے صرف تباہی ہے۔ خدارا! مل بیٹھ کر معیشت و سیاست کو ٹھیک اور آئینی ابہام کو دور کریں۔ ملک پر رحم کھائیں اور اپنی سیاست کے لیے آئین کو پامال مت کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved