چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے26 نومبرکو راولپنڈی جلسہ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ دینے سے گریز کیا‘ اس دوران سوال اٹھنا شروع ہو گئے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ نہ کر پائیں گے کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز نے بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ خان صاحب کے بیانیے کے ساتھ نہیں ہیں‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مارچ2023ء سے پہلے اسمبلیاں توڑنے کے آثار نہیں‘ جس سے قیاس آرائی کی جانے لگی کہ چودھری پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ عمران خان اور پرویز الٰہی کی رائے کے اختلاف سامنے آنے کے بعد کہا جانے لگا کہ تحریک انصاف کیلئے پنجاب کی اسمبلی توڑنا آسان نہیں ہو گا‘ مگر چودھری پرویز الٰہی اور عمران خان کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے اندرونِ خانہ حل کرنے کے بعد( ق) لیگ اور تحریک انصاف میں اسمبلی تحلیل کرنے پر اتفاق ہو گیا۔ (ق) لیگ نے پنجاب کی 30 جبکہ قومی اسمبلی کی 15نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کیا ہے‘ تحریک انصاف کے پاس چونکہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے تو اس نے چار و ناچار اس مطالبے کو قبول کر لیا۔ تحریک انصاف کے رہنما اس کی تصدیق بھی کر چکے ہیں۔عام انتخابات میں 45 نشستوں پرسیٹ ایڈجسٹمنٹ کی یقین دہانی( ق) لیگ کیلئے بڑی کامیابی ہے کیونکہ پرویز الٰہی اپنے بیٹے مونس الٰہی کی وجہ سے چوہدری شجاعت گروپ سے عملی طور پر الگ ہو چکے ہیں؛چنانچہ انہوں نے اگلے عام انتخابات کی تیاری قبل ازوقت کر لی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو( ق) لیگ نے پنجاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دے کر خاصافائدہ اٹھایا ہے۔چودھری پرویز الٰہی یہ بھی سمجھتے ہیں اگر پنجاب میں ان کی وزارتِ اعلیٰ قائم نہیں رہتی ہے تو تحریک انصاف کے ساتھ ان کا اتحاد برقرار نہیں رہ سکے گا۔ چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد کئی اراکین اس حوالے سے پریشان تھے کہ اگلا الیکشن کس جماعت کے پلیٹ فارم سے لڑا جائے‘ ایسے اراکین میں الیکٹ ایبلز کی خاصی تعداد موجود ہے‘ ان اراکین کیلئے( ق) لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا آسان ہو گیا ہے کیونکہ ان میں سے کئی اراکین مشرف دور میں بھی (ق) لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو چکے ہیں۔
تحریک انصاف کے اعلان کے مطابق گزشتہ جمعہ 23 دسمبر کو اسمبلیاں تحلیل ہونے کا دن تھا مگر اس سے قبل ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ تحریک انصاف کیلئے پنجاب کے ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنا ممکن نہ رہا‘ کیونکہ 19 دسمبر کو گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے مراسلہ جاری کر دیا تھا‘ تاہم سپیکر نے یہ کہہ کر اجلاس طلب کرنے سے انکار کر دیا کہ جب اسمبلی کا سیشن چل رہا ہو تو دوسرا اجلاس طلب نہیں کیا جا سکتا۔ اتحادی جماعتوں نے مؤقف اختیار کیا کہ گورنر کی جانب سے مقرر کردہ وقت میں اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی وجہ سے پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کا آئینی حق کھو چکے ہیں‘ پرویز الٰہی نے مگر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر تے ہوئے عدالت سے رجوع کر لیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اور کابینہ کو بحال کر دیا ہے‘ تاہم وزیراعلیٰ نے تحریری انڈرٹیکنگ دی ہے کہ اسمبلیاں نہیں توڑوں گا۔ اب 11جنوری تک اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی واپس ہو چکی ہے۔ معاملہ عدالت میں جانے سے قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اگلے چار پانچ ماہ تک قانونی جنگ جاری رہے گی۔ اس قانونی جنگ میں بھی (ق) لیگ اور تحریک انصاف ایک پیج پر نہیں ہیں کیونکہ پرویز الٰہی عدالت میں تحریری طور پر انڈرٹیکنگ دے چکے ہیں مگر تحریک انصاف نے کہا ہے کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتی ۔
عدالتی مداخلت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد کہا جا رہا ہے کہ فریقین یہی چاہتے تھے‘ اتحادی جماعتیں اسمبلی تحلیل کرنے کے حق میں نہیں تھیں ‘ چودھری پرویز الٰہی نے بادل نخواستہ اسمبلی توڑنے کی حامی بھری تھی۔ اب پرویز الٰہی اپنے عہدے پر برقرار ہیں‘ اتحادی جماعتیں بھی خوش ہیں البتہ تحریک انصاف کو سیاسی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیگی رہنما کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اور پرویز الٰہی نے گیم کی اور نقصان عمران خان کو ہوا۔ لیگی رہنماؤں نے جس گیم کی جانب اشارہ کیا ہے‘ اس میں کتنی صداقت ہے‘یہ ہم نہیں جانتے البتہ زمینی حقیقت یہی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بظاہر تحریک انصاف کے اتحادی ہیں مگر اس اتحاد سے فائدہ تحریک انصاف کی حریف جماعتوں نے اٹھایا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی تمام تر کوششیں عام انتخابات کی تیاری کیلئے ہیں‘ مگر چیئرمین تحریک انصاف کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے کچھ نہیں ۔ وہ اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار کبھی امریکہ کو اور کبھی سابق آرمی چیف کوقرار دے رہے ہیں لیکن اس معاملے پر (ق) لیگ تحریک انصاف کی مخالف سمت کھڑی ہے‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں اتحادیوں کیلئے اس مؤقف کے ساتھ انتخابات میں جانا مشکل ہو جائے گا۔ (ق) لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد ان بنیادی اصولوں کے خلاف ہے جس پر دونوں جماعتیں سیاست کر رہی ہیں‘ الیکشن سے پہلے اگر( ق) لیگ اور تحریک انصاف کا اتحاد ٹوٹتا ہے تو یہ تحریک انصاف کیلئے دھچکا ہو گا۔ تحریک انصاف واحد اتحادی کے چلے جانے کے بعد تنہا ہو جائے گی۔ خان صاحب حریف جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کیلئے تیار نہیں ہیں‘ فوری طور پر انتخابات کا انعقاد عملی طور پر مشکل ہے کیونکہ مردم شماری سے پہلے الیکشن کمیشن کیلئے انتخابات منعقد کرانا آسان نہیں ہو گا۔ اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں التوابھی مردم شماری کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ یونین کونسلوں کی تعداد 101 سے 125ہونے پر عدالت واضح کر چکی ہے کہ قانون سازی منتخب نمائندوں کا کام ہے عدالت اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ جس کے بعد اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ملتوی ہو گئے ہیں۔ اسی طرح جب تک ملکی سطح پر مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کا عمل پورا نہیں ہو جاتا عام انتخابات منعقد نہ ہو سکیں گے۔ 23 دسمبر کو خان صاحب اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکے‘ اگر 11جنوری کو وزیر اعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا جاتا ہے تو کیا تحریک انصاف چودھری پرویز الٰہی کے حق میں 186ووٹ پیش کرے گی؟ تحریک انصاف کو اس پر غور کرنا چاہیے کیونکہ ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے کئی اراکین چودھری پرویز الٰہی کی حمایت سے گریزاں ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved