بنوں سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے اسلام آباد کا رخ کیا‘ لیکن صد شکر کہ اسلام آباد پولیس کے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر دارالحکومت کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔ اسلام آباد پولیس کے شہید عدیل حسین اور ان کے زخمی ساتھیوں کو سلام اور اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور تمام سکیورٹی ایجنسیوں کا بھی بہت شکریہ جو پورے جذبے کے ساتھ دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کی عفریت سے نبرد آزما ہیں۔ بنوں سی ٹی ڈی آپریشن میں متعدد دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد سکیورٹی ادارے ہائی الرٹ پر تھے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ ٹی ٹی پی اپنی اس ناکامی کا ری ایکشن دینے کی کوشش کرے گی‘ جس کو ناکام بنادیا گیا۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے کیونکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی ایک بارپھر نہایت منظم انداز میں سر اٹھار ہی ہے ‘ جس کی کئی بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول ‘ ہماری لیڈر شپ آپس کی لڑائیوں میں الجھی ہوئی ہے ‘ سیاسی عدم استحکام کا ماحول ہے ۔ وفاق اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کشیدگی ہے۔ایسے میں دوبارہ سے منظم ہوتے دہشت گردوں کی مناسب طور پر سرکوبی نہیں ہورہی۔ دوئم ‘ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے اور امریکی انخلا کو پاکستان میں حکومتی اور سکیورٹی سطح پر فتح کے طور پر منایا گیا‘ جس سے لامحالہ کالعدم ٹی ٹی پی کے حوصلے بھی بلند ہوئے کہ اگر طالبان افغانستان میں امریکہ کو شکست دے سکتے ہیں تو ٹی ٹی پی کو کیوں نہیں؟ اسی طرح ٹی ٹی پی جنگجوؤں کی افغان جیلوں سے رہائی اور سازگار ماحول نے انہیں دوبارہ پاکستان میں منظم دینے کا موقع دیا۔ تیسرا ‘ ٹی ٹی پی سے کے پی حکومت اور سکیورٹی اداروں سے براہِ راست مذاکرات نے ریاست اور ٹی ٹی پی کو ایک برابر لاکھڑا کیا۔ نیکٹا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق‘ ان مذاکرات کے دوران ‘ ٹی ٹی پی نے خود کو نہ صرف پاکستان میں منظم کیا بلکہ وہ سوات میں اپنے پرانے ٹھکانوں تک پہنچے میں بھی کامیاب ہوئے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ گو افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ واضح طور پر ٹی ٹی پی کو پیغام دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان جیسی اسلامی ریاست پر کسی صورت حملے نہیں کرسکتے لیکن ان کا یہ کہنا کافی نہیں۔ انہیں عملی طور پر افغان سرزمین پر موجود پاکستان مخالف عناصر کی سرکوبی کرنے کی ضروت ہے اور اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم انہیں ٹی ٹی پی کو اپنی بیعت سے خارج کردینا چاہیے۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے بھی افغان طالبان کی طرح ملا ہیبت اللہ کی بیعت کررکھی ہے ۔ اپنی بیعت سے خارج کرکے وہ ٹی ٹی پی کو ایک عملی اور جامع پیغام دیں گے‘ لیکن جب تک پاکستان کی حکمران اشرافیہ دہشت گردی کی عفریت اور اس کی وجوہات کو سنجیدگی سے نہیں لے گی‘ سکیورٹی کے علاوہ سیاسی اور سفارتی کوششیں نہیں کرے گی ‘ تب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ جب ہمارا تمام تر فوکس پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کی جانب مرکوز ہوگا‘ جب وزیراعظم صاحب اسلام آباد کے تمام تر امور چھوڑ کر لاہور میں مصروف رہیں گے اور عمران خان صاحب یہ سوچتے رہیں گے کہ سیاسی افراتفری کو مزید کیسے بڑھایا جائے تو پھر اتنے نازک معاملا ت کیسے کنٹرول ہوں گے؟ اس وقت سب سے اہم مسئلہ چوہدری پرویزالٰہی کو ہٹانے یا بچانے پر میٹنگز کرنے کے بجائے قومی سلامتی کمیٹی میں بیٹھ کر میٹنگز کرنا ہونا چاہیے تھا تاکہ نیشنل ایکشن پلان جو عملی طور پر عضوِ معطل ہوا پڑا ہے‘ اسے دوبارہ سے فعال کیا جائے۔ سیاسی قیادت ‘ فوجی قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک جگہ بیٹھیں ‘ مسائل پر گفتگو ہو اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے تاکہ پاکستانی قوم جس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں تقریباً ایک لاکھ زندگیوں کی قربانی دی اور سو ارب ڈالر کے قریب نقصان برداشت کیا ‘ انہیں دوبارہ اس تکلیف دہ دور سے گزرنا نہ پڑے۔ لیکن افسوس ہے کہ حکومت نے نئی ملٹری قیادت آنے کے بعد ابھی تک نیشنل سکیورٹی کا اجلاس طلب نہیں کیا تاکہ ان اہم معاملات پر کوآرڈی نیشن کی جائے ‘جو کام سیاسی اور سفارتی طور پر کرنے کی ضرورت ہے ‘ ان کا آغاز کیا جائے اور جو مسائل سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو درپیش ہیں ان کا سد باب کیا جائے۔ ہم نے دہشت گردی سے نمٹنے کا اہم ترین معاملہ صرف سکیورٹی فورسز پر چھوڑ رکھا ہے جو اپنی جان پر کھیل کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کررہے ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ قومی قیادت کیا کررہی ہے؟ انہیں ایک دوسرے کے لتے لینے سے فرصت ملے تو وہ ان معاملات پر بھی توجہ دے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات پر بھی سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ورنہ اس سے قبل ایسا کوئی بھی واقعہ ہوتا تھا تو تمام تر لیڈر شپ یک جان دو قالب کی طرح اس کی مذمت کرتے تھے۔ لیکن یہاں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اور وفاق اور کے پی حکومت ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ ان کی غفلت سے ہوا‘ یہ ہماری نہیں اُن کی ذمہ داری ہے۔ خدا کا خوف کریں اگر آپ کو 75 سال بعد بھی نہیں پتہ کہ دہشت گردی روکنا وفاق کی ذمہ داری ہے یا صوبے کی‘یا دونوں اکائیوں کی ‘ تو آپ لوگوں کو اس ملک کا حکمران نہیں ہونا چاہیے۔ آپ لوگ قومی سلامتی کمیٹی کے فورم پر بیٹھیں اور اپنے مسائل وہاں حل کریں۔ خدا کا واسطہ ہے کہ اپنی ان حرکتوں سے قوم کو ایک دفعہ پھر ناکام نہ کریں۔
حال ہی میں حکومت اور تمام ریاستی اداروں نے مل کر ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار سے جان چھڑوائی ہے ‘ اس سے تھوڑا پیچھے جائیں تو دہشت گردی کو جس طرح پاکستان نے کچلا وہ بھی قابلِ مثال ہے۔ یعنی یکجہتی اور یگانگت کے ساتھ ہم دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کو بھی کچل سکتے ہیں ‘ لیکن اگر حکومت ایک جانب تما م تر توانائیاں عمران خان کو دیوار سے لگانے ‘ انہیں نااہل کروانے اور ان کی آڈیوز ریلیز کرنے میں لگائے گی اور دوسری جانب عمران خان قبل از وقت انتخابات کو زندگی موت کا مسئلہ بنالیں گے کیونکہ اس کے بغیر انہیں دوبارہ اقتدار میں اپنی واپسی مشکل لگتی ہے تو پھر معاملات آگے کیسے چلیں گے؟ بطور وزیراعظم‘ میاں شہباز شریف دہشت گردی کے سدباب کیلئے کی جانے والی کوششوں کو لیڈ کریں ‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے عالمی برادری اور افغان حکومت کو انگیج کریں ‘ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اپنی تمام تر توجہ صوبے کے لا اینڈ آرڈر کو قائم کرنے میں صرف کریں اور سکیورٹی ادار ے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور اچھے ‘ برے طالبان جیسی لغویات میں نہ پڑیں تو آگے بڑھنے کا راستہ نکل سکتا ہے۔ دوسری صورت میں ہمارے دگر گوں معاشی حالات ‘ مہنگائی اور سیاسی مسائل میں اگر دہشت گردی جیسے مسائل کا بھی اضافہ ہوگیا تو تباہی کو ہمارا مقدر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved