ملک میں پیچیدہ سیاسی حالات کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ماضی میں بھی سیاستدان ایسے فیصلے کرتے آئے ہیں جو ملک کو سیاسی اور معاشی محاذ پر نقصان پہنچانے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کرکے جو سولو فلائٹ لی تھی‘ اس کا انہیں نقصان ہوتا ہی نظر آ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سمیت تحریک انصاف کے رہنمائوں کی اکثریت اسمبلیاں تحلیل کرنے اور وقت سے پہلے انتخابات کرانے کے حق میں نظر نہیں آتی جس کے بعد امید ہے کہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ تحریک انصاف کی جب سے وفاق میں حکومت ختم ہوئی ہے‘ عمران خان اپنی مرضی کے فیصلے لاگو کروانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں لیکن اُنہیں تمام تر کوششوں کے باوجود مرضی کے نتائج ملتے نظر نہیں آ رہے اور مستقبل میں بھی ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط تو کر دیے ہیں لیکن دوسری طرف شنید ہے کہ وہ آخری وقت تک اپنے قریبی دوستوں اور ممبرانِ اسمبلی کو یہی کہتے رہے کہ نہ میں کہیں جا رہا ہوں اور نہ حکومت کہیں جا رہی ہے۔ کچھ نہیں ہونا۔ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ یہی صورتحال تقریباً خیبرپختونخوا اسمبلی کی بھی ہے۔ اب تک دونوں اسمبلیاں فعال ہیں اور وفاقی حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور اس صورتحال کے تناظر میں تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت فی الحال بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی کارکنوں کو ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے پارٹی کے اکثریتی رہنمائوں کے حمایت یافتہ فیصلے ہی کیے جانے چاہئیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے پارٹی ورکرز‘ ایم پی ایز‘ ایم این ایز اور سینیٹرز کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی پارٹی رہنماؤں کی مرضی کے خلاف ہونے والے فیصلے اکثر واپس یا بے نتیجہ ختم ہوتے ہیں۔ خان صاحب مستقبل میں کیسے سیاسی فیصلے لیتے ہیں‘ اس سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سیاست کے علاوہ بھی ملک میں دیگر کئی مسائل ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔
اب کچھ بات ملک کے زرعی شعبے کی جو حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔ زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ہم اپنی غذائی ضروریات ہی پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ رہی سہی کسر مختلف مافیاز نکال دیتے ہیں۔ رواں برس ملک میں گندم کی پیداوار ملکی ضروریات کے تناسب سے کم رہی‘ حکومت بظاہر اس مسئلے کو روس سے سستی گندم درآمد کرکے حل کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اس دوران منافع خور عناصر اپنے پر پرزے نکال چکے ہیں اور وہ گندم جو بائیس سو روپے من کے حساب سے خریدی گئی تھی اب اُسی گندم کے آٹے کا بیس کلو والا تھیلا کراچی شہر میں پچیس سو روپے کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے‘ باقی ملک میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ ملکی معیشت کو سنوارنے کے لیے ضروری ہے کہ زراعت کو بہتر اور دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ گوکہ زرعی شعبہ مجموعی طور پر زبوں حالی کا شکار ہے لیکن دوسری طرف اسی شعبے سے جڑی ایک جنس تمباکو کی بیرونِ ملک طلب بڑھ رہی ہے۔ مالی سال 2021-22ء میں 22ملین کلوگرام تمباکو برآمد کیا گیا تھا جس سے 77ملین ڈالرز زرِمبادلہ حاصل ہوا تھا۔ اگلے سال تمباکو سے حاصل ہونے والا زرِمبادلہ دو گنا تک بڑھ سکتا ہے۔ یورپی ممالک کو پاکستانی تمباکو انتہائی سستا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ایجنٹس کو پاکستانی کسانوں کے ساتھ طویل المدتی معاہدے کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں۔ ملک میں تمباکو کی سالانہ پیداوار 113ملین کلوگرام ہے جو 50ہزار 787ہیکٹر رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ تمباکو کی فصل خیبر پختونخوا کے اضلاع مانسہرہ‘ صوابی‘ مردان‘ بونیر اور چارسدہ میں کثرت سے کاشت کی جاتی ہے۔
اگر ملک میں برآمدات میں اضافے کے غرض سے بھنگ کی کاشت کو فروغ دیا جا سکتا ہے تو تمباکو کی برآمدات میں اضافے کے لیے اس کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کو مقامی سطح پر اس کے استعمال کو کم رکھنے کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ مقای سطح پر سگریٹ میں استعمال ہونے والے تمباکو پر مزید ٹیکسز لگائے جانے چاہئیں۔ حکومت نے سال 2017ء میں تمباکو کی صنعت سے 82ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا اور چار سال بعد سال 2021ء میں 43 ارب روپے اضافے کے ساتھ تمباکو انڈسٹری سے 135ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا گیا۔ یہ اضافہ ٹیکس ریٹ میں اضافے کی بدولت نہیں بلکہ فروخت میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس لیے تمباکو انڈسٹری پر مزید ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف گوادر میں ''گوادر کو حق دو تحریک‘‘ کے دھرنے کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ اس تحریک کے شرکا نے 56 روز سے گوادر کے لالہ حمید چوک میں دھرنا دے رکھا تھا لیکن جمعرات کو انہوں نے دھرنے کا مقام تبدیل کرکے اب پورٹ روڈ پر دھرنا دے دیا ہے۔ پورٹ روڈ وہ شاہراہ ہے جو گوادر بندرگاہ کو گوادر شہر سے ملاتی ہے۔ گوادر کو حق دو تحریک کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ گوادر کے سمندر سے غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے کے لیے تحریک اور حکومت میں ہوئے معاہدے پر عمل کیا جائے۔ اس تحریک کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بلوچ عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں غیرملکی باشندوں کو گوادر شہر چھوڑنا ہوگا۔ اگر اُن کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو گوادر پورٹ پر آپریشنز بند کرکے شہر میں نقل و حرکت کو بھی معطل کیا جائے گا۔ یہ معاملہ تشویش ناک ہے اور حکومت کو اس حوالے سے فوری مثبت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ سی پیک پہلے ہی سست روی کا شکار ہے اور چینی صدر وزیراعظم پاکستان سے براہِ راست چینی باشندوں کی سکیورٹی سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں۔ گوادر کو حق دو تحریک کے دھرنے اور احتجاجی ریلیوں کے دوران حکومت کو غیر ملکی باشندوں کی فول پروف سکیورٹی کا انتظام بھی کرنا چاہیے۔
اُدھر آئی ایم ایف کے ساتھ بھی حکومت کے تعلقات مثالی دکھائی نہیں دے رہے۔ جولائی سے ستمبر 2022ء تک انرجی سیکٹر کے قرضوں میں 393 ارب روپے اضافہ ہوا جو اکتوبر تک 5سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی سٹینڈرڈ اینڈ پورز (S&P) نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بی مائنس سے ٹرپل سی پلس کر دی ہے۔ جو 2008ء کے بعد سب سے کم ترین ریٹنگ ہے۔ اس رپورٹ کے بعد شنید ہے کہ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا لیکن آئی ایم ایف مشن چیف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی ورچوئل میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔ نویں ریویو کے شروع ہونے اور 1.1ارب ڈالرز کا قرض نہ ملنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاور سیکٹر میں 123ارب روپے کے ماہانہ نقصانات ہیں‘ جسے کم کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی سٹریٹجی نہیں بنائی جا رہی۔ وزراتِ توانائی نے بجلی کے گردشی قرضوں میں کمی کے لیے بجلی ٹیرف مزید بڑھانے کی تجویز دی ہے‘ جس میں انڈسٹریل سیکٹر کو شامل نہیں کیا گیا۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ مہنگائی کا نیا طوفان آنے کو ہے۔ شنید ہے کہ آئی ایم ایف نے ان جز وقتی تجاویز پر کان نہیں دھرے ہیں اور عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے مالی نقصانات پورے کریں‘ تبھی مذاکرات ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved