تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     26-12-2022

عمران خان اور امورِ خارجہ

پہلے یہ خبر پڑھ لیجیے: '' سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اب بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کشمیر کا معاملہ اچھے طریقے سے حل کرسکتے ہیں‘ بھارت کے حوالے سے جنرل باجوہ نرم پالیسی کے خواہاں تھے۔ لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ بھارت میں صرف رائٹ ونگ پارٹی ہی کشمیر کا معاملہ حل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اس وقت نریندر مودی کا تعلق بھی رائٹ ونگ پارٹی سے تھا اس لئے وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا بیان بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں تھی اور کیا وزیراعظم کی حیثیت سے ان کو بھارتی معاملات کے حوالے سے ایسا بیان دینا چاہیے تھا۔ اس کا جواب دینے سے وہاں پر موجود سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے عمران خان کو روک دیا اور اس سوال کو دوسرے پیرائے میں عمران خان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو جب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اہم فیصلے لئے تو اس کے بعد ان کی حکومت نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی ترک کردی‘‘یعنی اگست2019ء میں جب بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے'' اہم فیصلے‘‘ کیے تو اس کے بعد عمران خان کی حکومت نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی ترک کر دی۔ اس کے باوجود وہ اب بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کشمیر کا معاملہ اچھے طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔تیسری اہم بات عمران خان نے یہ کی ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔غالباً عمران خان واحد پاکستانی ہیں جنہیں اب بھی مودی سے اچھائی کی توقع ہے یعنی اس بات کی امید ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ ''اچھے طریقے‘‘ سے حل کر سکتے ہیں !
اور عمران خان واحد پاکستانی تھے جو چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔یہ مودی کون ہے ؟ وہی جس نے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد کہا تھا کہ کتے کا بچہ گاڑی کے نیچے آکر مر جائے تو افسوس تو ہوتا ہے۔ ایک بچے کو بھی معلوم ہے کہ مودی کی پارٹی‘ بی جے پی‘ کا بنیادی نظریہ '' ہندوتوا‘‘ کا ہے۔ اس نظریے کا بانی مشہور متعصب ہندو لیڈر ساورکر تھا۔ ساورکر ( وفات 1966ء۔مہاراشٹر) کے اس رسوائے زمانہ نظریے‘ ہندوتوا کا مطلب ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے جس میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی کوئی گنجائش نہیں ! اکھنڈ بھارت بھی اسی نظریے کا ایک حصہ ہے جس کا مطلب ہے کہ پورا بر صغیر ( بشمول پاکستان و بنگلہ دیش) ہندو ریاست ہے۔ساورکر ہندو‘ سکھ‘ جین اور بدھ سب کو ایک اکائی مانتا تھا اورکہتا تھا کہ مسلمان اور مسیحی ہندو ریاست میں فِٹ نہیں ہو سکتے۔ مغربی مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ ساور کر نے مسلم دشمن جذبات پیدا کیے۔ وہ اس بات کا مخالف تھا کہ مسلمانوں کو فوج‘ پولیس اور پبلک سروس میں ملازمتیں ملیں۔1963ء میں اس نے ایک کتابSix Glorious Epochs of Indian Historyکے عنوان سے لکھی جس میں یہ نظریہ زور و شور سے پیش کیا کہ مسلمان اور مسیحی‘ ہندوازم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔بی جے پی‘ اصل میں‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آر ایس ایس بھارت کی سرزمین پر مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
یہ ہے‘ بہت اختصار کے ساتھ‘ ہندوتوا کا نظریہ جو مودی حکومت کی بنیاد ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جب سے مودی حکومت آئی ہے‘ بھارت کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا ہے! کون سا ظلم ہے جو نہیں ڈھایا گیا۔ بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو قابلِ قبول ہیں مگر مسلمان نہیں۔ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو اسی طرح اقلّیتی خرابوں (Ghettos)میں رکھنا چاہتی ہے جیسے اسرائیل میں ہو رہا ہے۔ اس کا آغاز مودی حکومت نے آسام سے کیا اور مسلمانوں سے شہریت کا ثبوت مانگنا شروع کر دیا حالانکہ مسلمان صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان مسلمانوں سے بھی شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے جو بھارتی فوج میں ملازمت کر کے ریٹائر ہوئے ہیں۔ کیا عمران خان کو معلوم ہے کہ فروری2020ء میں دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کپل مشرا کون ہے ؟ خان صاحب ہر ملک‘ ہر خطے‘ ہر علم کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ ادتیا ناتھ کون ہے اور کیا کر رہا ہے؟ یو پی کا یہ چیف منسٹر بی جے پی کی مکروہ ترین شکل ہے۔ اس نے یوپی کے مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ مری ہوئی مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکالو اور ان کے ساتھ زیادتی کرو۔ اس نے الہ آباد‘ آگرہ اور کئی اور شہروں کے نام تک بدل دیے۔ سنا ہے کہ یہ شخص اگلا وزیر اعظم ہو گا۔
امیت شاہ دوسرا مکروہ ترین چہرا ہے بی جے پی کا۔ اس حکومت کے دوران ہزاروں مسلمان گائے کے گوشت کے چکر میں مار دیے گئے۔ جنوبی ہند کی جن ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا خصوصی کوٹہ تھا‘ ختم کر دیا گیا۔ صرف پچھلے ہفتے کی تین خبروں پر غور کیجیے۔ مسلمانوں کی معاشی تباہی کے لیے کرناٹک کی اسمبلی میں حلال فوڈ انڈسٹری پر پابندی لگانے کی غرض سے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ ضلع بریلی کے ایک سرکاری سکول میں طلبہ سے علامہ اقبال کا دعائیہ کلام ''لب پہ آتی ہے دعا‘‘ پڑھوانے کی شکایت پر پرنسپل کو معطل کردیا گیا۔ایک اور شہر میں نماز جمعہ ادا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ہر روز ایسے بیسیوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔
اس سب کچھ کے باوجود خان صاحب کو مودی سے اچھی امید ہے۔ امریکی الیکشن کے دوران ان کی ہمدردیاں کھلم کھلا ٹرمپ کے ساتھ تھیں ! روایت یہ بھی ہے کہ امریکی الیکشن کے دوران پاکستانی سفارت خانہ ٹرمپ کے فائدے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ ایک وزیر اعظم یا سابق وزیر اعظم یا دوبارہ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند سیاستدان کو امور خارجہ پر بیان دیتے وقت متوازن ہونا چاہیے اور بہت زیادہ محتاط! وزارت عظمیٰ کے دوران‘ نیویارک میں‘ مہاتیر اور اردوان کے ساتھ مل کر خان صاحب نے ملائیشیا کانفرنس کا پلان بنایا۔ پھر سعودی عرب تشریف لے گئے اور وہاں سے واپسی پر کوالالمپور جانے سے انکارکر دیا۔ اور پھر اردوان کوکیسے معلوم ہوا کہ خان صاحب کس ملک کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے؟؟ مرزا رفیع سودا یاد آگئے
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
کچھ لوگوں کو قدرت کی فیاضی وجاہت بخشتی ہے اور دلکش شخصیت ! مگر جب وہ بولتے ہیں تو شخصیت کی دلکشی کا بت دھڑام سے نیچے گر جاتا ہے۔ جبھی تو سعدی نے متنبہ کیا تھا کہ
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
جب تک انسان خاموش رہتا ہے اس کی خوبیوں اور خامیوں پر پردہ پڑا رہتا ہے۔اقبال نے نصیحت کی تھی
کم خور و کم خواب وکم گفتار شو
گردِ حق گردندہ چون پرکار شو
کم کھا‘ کم سو اور کم بول۔ اور سچائی کے گرد پرکار کی طرح چکر لگا! مگرکون سا سعدی اور کہاں کا اقبال؟ ان سے زیادہ دانا مشورہ دینے کے لیے دست بستہ کھڑے ہیں !!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved