تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     26-12-2022

لہندا پنجاب میں چڑھدا طوفان

1973ء کا آئین تو اب درجۂ مذاق سے بھی نیچے گرا دیا گیا۔ پشتو کا مشہور آکھان ہے ''اخّپل بادشاہی‘‘ جس کا اُردو ئے معلی میں ترجمہ یوں بنے گا‘ میرا مُلک میری مرضی۔
9اپریل 2022ء کے روز ایک منتخب حکومت کو مرکزی پارلیمانی اقلیتی ریزگاری اکٹھی کر کہ رجیم چینج سے شکار کیا گیا۔ جس کے بعد سب کی زبان سے ایک بھٹے کی اینٹ کی طرح ایک ہی نعرہ برستا رہا۔ عمران خان کو الیکشن چاہیے تو وہ پہلےKP اور صوبہ پنجاب میں اپنی حکومتیں توڑ کر دکھائے۔ ہم فوری طور پر فیڈرل گورنمنٹ سمیت اپنی حکومتیں توڑ کر نیا الیکشن کرا دیں گے۔ عوام ہمارے ساتھ ہے۔ عمران خان Unpopularہے۔
نئے الیکشن میں ہم پاکستان تحریک انصاف کی ضمانتیں ضبط کرا دیں گے۔ جب اس ریز گاری کا شور Bluffمیں تبدیل ہوا اورمخصوص بے روزگار اور ضرورت مند دانشوروں کے منہ کا منترہ بن گیا۔ تب 26نومبر کا دن آگیا۔ اس حقیقی آزادی مارچ کے آخری سٹاپ پر پہنچ کر عمران خان نے ملک کی 66/65فیصد آبادی میں قائم اپنی دونوں حکومتیں توڑنے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی عمران خان نے لہندا پنجاب میں ایک اور چڑھدا طوفان برپا کر دیا۔
جس وقت 26نومبر کاجلسہ ختم ہوا تولوکل میڈیااور فارن میڈیا کے فون آنا شروع ہو گئے۔فارن میڈیا مسلسل مستقبل کے نظام کا آئینی اور قانونی روڈ میپ پوچھ رہاتھا جبکہ ٹوکریاں اور ٹوکرے آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے التجایا سوال کر رہے تھے‘ آخر ووٹ کی یہ بے عزتی کیوں کہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ ایک بار پھر ووٹر نے ہی کرنا ہے۔بند کمروں میں بیٹھے ہوئے پاور بروکرز نے نہیں۔
اس دوران مجھے بہت زیادہ‘ راولپنڈی‘اسلام آباد اور پشاور کے درمیان سفر کرنا پڑا۔ میری توقع سے سینکڑوں‘ہزاروں گُنا زیادہ لوگوں نے اس فیصلے کی سمت کو درست قرار دیا‘ ساتھ یہ بھی کہا کہ نئے الیکشن کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔آپ ہماری طرف سے عمران خان کو شاباش دے دیں۔
اس پس منظر میں کاغذی شیر دُم دبا کر‘ دھاڑنا بندکر کے الیکشن سے بھاگ نکلے۔ کبھی کبھی کوئی نہ کوئی دل جلا اُن کی بڑھکیں پیکج کی صورت میں پیش کرتا ہے تو ووٹ کی عزت خانم پہلے ہنستی ہے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رودیتی ہے۔
پچھلا ہفتہ پنجاب کی سیاست خاص طور پر جبکہ ملک کی سیاست عام طور پر Roller Coaster کا منظر پیش کر تی رہی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے 23دسمبر کو صوبہ پنجاب کی حکومت اور KPصوبہ کی حکومت توڑنے کی ڈیڈ لائن دے ڈالی۔ جس کے نتیجے میں موجودہ نظام کی چیخیں آسمان تک جا پہنچی۔ہرکارے بھاگنا شروع ہوئے کہ کس طرح سے عمران خان کی حکومتوں کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ قوم نے دیکھا کہ یہ وہی لوگ تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ عمران خان کبھی اپنی حکومتیں نہیں توڑے گا۔ اس لیے ان حکومتوں کو بچانے کے لیے سہ رُخی Strategyبنائی گئی۔
پہلا رُخ... بڑی بڑی کالی بسیں جو سندھ سے مہنگائی کے نام پر لانگ مارچ کے لیے کراچی سے آئی تھیں‘وہ لاہور بھی پہنچ گئیں۔ آ پ اسے اتفاق کہیے یا حُسنِ انتظام کہ ان سب لگژری بسوں کا رنگ کالا تھا۔ ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہونے والی بسوں کے رنگ چمکیلے ہوتے ہیں جبکہ کالا رنگ میّتیں قبرستان پہنچانے والی بس کا ہوتا ہے۔
ان بسوں کے ذریعے سندھ ہائوس میں بریف کیس نہیں بلکہ سوٹ کیس پہنچائے گئے تھے۔ جو پاکستان کے پارلیمانی ضمیر کے ماتم میں کھلے عام استعمال ہوئے لیکن اس دفعہ ضمیر کی منڈی ابھی تک سخت مندی کا شکار ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ ضمیر صاحب کا جاگنا نہ ہو‘بلکہ الیکشن ہارنے کا خوف ہو۔ کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ 20لوٹے پنجاب جیسی جگہ پر الیکشن ہار کر منہ لٹکائے پھرتے ہیں۔یہ ہال مارک خوف ہے۔ جس کا دوسری بار مظاہرہ تب ہوا جب ملک بھر میں عمران خان نے قومی اسمبلی سات نشستوں پر الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔
یاد ِش بخیر۔ مجھے لاہو ر کے پنج ستارہ ہوٹل میں چوہدری پرویز الٰہی کی پہلی نامزدگی کرنے والے پارلیمان کے اجلاس کا منظر نامہ یاد آرہا ہے۔ہال پنجاب اسمبلی کے ممبران سے فُل تھا۔ عمران خان کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے چنیدہ لوگ بھی بلائے گئے تھے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی تقریر میں پنجاب کے مزاج کے مطابق سب کے کام کرنے کا اعلان کیا۔ پنجاب کے MPAsنے اس اعلان پر کوئی خاص گرم جوشی نہ دکھائی۔
ان ارکان اسمبلی کے درمیان عمران خان کی تقریر شروع ہونے تک کُھسر پھُسر جاری رہی اور تقریر کے شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد عمران خان سے صرف ایک مطالبہ کیا۔ سب نے مشترکہ آواز اور بھر پور نعروں میں کہا کہ جناب ِچیئر مین ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نہیں بِکّے گا۔ ہم سارے اپنے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے ووٹ دیں گے۔ آپ سے ہم صرف ایک مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ اگلے الیکشن میں ہم سب کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ ضرور دیں گے۔
دوسرا رُخ... رات کے راہی رات کو پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری کے پاس کیسے پہنچے۔ یہ دوسرے رُخ کا Climaxتھا۔ جس کے ذریعے پنجاب میں ہائوس آف شریف کی دوسری شکست کا راستہ کھلا۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ پہلے رات کو سیکرٹری اسمبلی سے عدم اعتماد کی تحریک وصول کروائی گئی۔ پھر چیف سیکرٹری سے اس سے بھی اگلا کارنامہ سرانجام دلوایا گیا۔ اس کارنامے کی تفصیلات بھی اب سینہ گزٹ تک محدود نہیں۔ خوف کا چڑھدا طوفان PDMکو گھیر گھار کر وہاں لے آیا جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا ؎
پکّے گھروں کو چھوڑ کر کشتی میں آگئے
ٍٍدریا کا خوف لوگوں کو دریا میں لے گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved