پاکستان کی سیاسی تاریخ سے ہمارے سیاسی قائدین کو کئی اہم سبق ملتے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں کہ اگر ہمارے رہنما اقتدارکی کسی ایسی جنگ میں ملوث ہوں گے جو جمہوری اقدار‘باہمی احترام او ر تہذیب و شائستگی کے دامن سے عاری ہو تو طاقت کا توازن ریاست کے غیر منتخب ادارو ں کے پلڑے کی طرف جھک جاتا ہے۔پاکستانی سیاست اس امر کی غماز ہے کہ کس طرح افسر شاہی اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے 1953-54ء سے بتدریج سیاسی عمل میں سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کیا۔ابتدائی دور میں افسر شاہی کا پس منظر رکھنے والے بیوروکریسی کے اہم کل پرزوں کی مدد سے سیاسی کھلواڑ کیا گیامگر بعد میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار کی رسہ کشی میں اہمیت حاصل کر لی۔پاکستان نے چار فوجی ادوار دیکھے ہیں جن میں 1958 تا 62‘ 1969 تا 72‘ 1977 تا 85‘ 1999 تا 2002ء کے ادوار شامل ہیں۔ایک فوجی حکمران نے نیا آئین بنایا اور دونے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق آئین میں ترامیم کیں تاکہ فوجی حکومت سے غیر فوجی حکومت کی طرف مراجعت کے بعد بھی بنیادی پالیسیز اور شخصیات کا تسلسل جاری رہے۔
سیاسی قائدین کی باہمی کشمکش اور اپنے اختلافات طے نہ کرسکنے کی وجہ سے انہیں اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت سے اپنے تنازعات طے کرنا پڑے؛ چنانچہ سیاسی امورمیں اعلیٰ عدلیہ کا کردار فیصلہ کن اہمیت اختیار کرتا گیااور کئی اہم عدالتی فیصلوں نے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اگر سیاسی قیادت اپنی محاذآرائی کواس انتہا تک نہ لے جاتی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روایت آخری حدوں کو نہ چھوتی تو وہ باہمی اختلافات اپنے تئیں بھی حل کرسکتے تھے۔ایسا ہو جاتا تو تمام سیاسی اور ریاستی ادارے اپنے فطری اور آئینی دائرہ کار میں رہ کر اپنا کردار ادا کرتے۔ آج کل کی سیاست کو دیکھیں تو پنجاب میں سیاسی اور آئینی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت ایک دوسرے کی سیاست کو نیچا دکھانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ پی ٹی آئی جلد نئے عام انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے مگر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد الیکشن کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔دونوں فریق اپنے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ہر ممکن قانونی اور سیاسی حربہ استعمال کررہے ہیں۔یہ ایک خطرناک رجحا ن ہے اور اگر سیاسی قائدین اپنے طورپر اپنے معاملات پُرامن طریقے سے طے نہیں کر سکتے تو ریاستی اداروں کا کردار دوبارہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔
پاکستان میں ایک جمہوری اور دستوری سیاسی نظام موجود ہے جس میں عوام کی سپورٹ اور شراکت بھی شامل ہے۔سیاسی رہنما جمہوری اصولوں کی پاسداری کے دعویدار ہیں تاہم پاکستان میں جمہوریت کی کوالٹی ناقص ہے اور عملی سطح پر اس میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔ جب سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کی نوبت آتی ہے تو ہماری سیاسی قیادت کے رویے سے جمہوری کلچر کی عکاسی نہیں ہوتی۔ جدید جمہوریت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں اسے چار اہم معیارات پر جانچنا پڑتا ہے۔ اول یہ کہ جمہوریت ضبط وتحمل‘باہمی احترام اور رواداری کا تقاضا کرتی ہے جس میں باہمی مشاورت اور بات چیت کے متنوع ذرائع استعما ل کیے جاتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل اپنایاجاتا ہے جو سب کے سیاسی مفادات کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سیاست کو ممکنات کا آرٹ کہا جاتا ہے جس میں پیچیدہ مسائل کا حل مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے تلاش کیاجاتا ہے۔کسی کو تنگ اور یک طرفہ سیاسی ایجنڈے پر مجبور کرنے کا رویہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سیاسی قائدین کے افعال اور اعمال تحریری جمہوری اصولوں کے تابع ہو ں۔ دوم‘ متحارب سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حریفوں کو سیاست کے میدان سے بے دخل کرنے کے ارادے سے کام نہیں کرتیں۔مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین مسابقت بھی آئینی‘قانونی او ر جمہوری اقدار کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہونی چاہئے۔اگر حکمران سیاسی جماعت قوانین اور ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو اپنا جائز قانونی کردار ادا کرنے سے روکتی ہے تو جمہوریت کی کوالٹی ناقص ہو جاتی ہے۔جس طرح حکمران جماعت کو اپنی اپوزیشن کو بھی ایک جائز سیاسی کھلاڑی کے طورپر دیکھنا چاہئے تو اپوزیشن کو بھی دوسری سیاسی جماعت کے حق حکومت کا احترام کرنا چاہئے جو ایک منصفانہ اورآزادانہ الیکشن کے عمل سے گزر کر کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔اپوزیشن کو بھی سیاست میں اسی طرح تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے جیسا کہ ہم حکومت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے کردار سے انکار نہ کرے۔سوم‘یہ کہ اگر ملک پر حکومت کرنے والی جماعت کے بارے میں سیاسی بے یقینی اور کنفیوژن پائی جاتی ہوتو سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اپنے مینڈیٹ کی تجدید کے لیے عوام سے رجوع کرتے ہیں۔پارلیمانی سسٹم کی یہ روایت ہے کہ متحارب سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کی تجدید کے لیے قبل از وقت الیکشن منعقد کرائے جاتے ہیں۔چہارم‘ یہ کہ سیاست کو سیاسی اشرافیہ کے درمیان اقتدار کی نہ ختم ہونے والی جنگ میں نہی نڈھالا جاتا۔جمہوری نظام کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دے کر ان کی خدمت کافریضہ سرانجام دیا جائے۔اسے عوام کی زندگی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور ایک جمہوری ریاست ہمیشہ مذہب‘ذات پات‘خطے اور جنسی امتیاز کے بغیر اپنے عوام کی خدمت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ جمہوریت عوام کی جن بنیادی خدمات کی انجام دہی کو یقینی بناتی ہے ان میں تعلیم‘صحت عامہ‘شہری سہولتوں کے علاوہ ایک محفوظ ماحول کی فراہمی شامل ہوتی ہیں۔ انہیں غیر ضروری معاشی دبائو سے بھی تحفظ فراہم کرنا لازمی ہوتا ہے۔ان چاروں اصولوں کو پاکستانی سیاست پر نافذ کرکے یہ فیصلہ کریں کہ پاکستان کے سیاسی رہنما اور جماعتیں کس حد تک ان شرائط پر پورا اترتی ہیں۔ وہ جمہوریت کے نعرے تو لگاتی ہیں مگر ان کی سیاست سے جمہوری روایات اوراقدارکی ناقص عکاسی ہوتی ہے۔ وہ جمہوریت کو اپنے سیاسی اور جماعتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اپنے سیاسی حریفوں کو میدان سیاست سے بے دخل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مینڈیت کی تجدیدکیلئے نئے الیکشن کرانے سے کتراتی ہیں۔
2008 ء کے بعد جب سے ملک میں انتخابی جمہوریت بحال ہوئی ہے اگر ہم مختلف حکومتوں کی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو انہوں نے عوام کو ان بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ناقص کارکردگی دکھائی ہے۔مختلف حکومتیں آبادی کے مخصوص طبقات کے لیے سپیشل ویلفیئر پیکجز کا اعلان کرتی رہی ہیں جن پر اکثر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوتا تھا۔عوام اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور افراط زر سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان میں اشیائے خوراک کی کوئی کمی نہیں مگر ان کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ ہو چکا ہے جن کی وجہ سے عام انسان کیلئے خوراک اور روزمر ہ زندگی کی سہولتوں کی فراہمی مشکل ہو چکی ہے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد سیاسی محاذآرائی بڑھتی گئی جو اپریل 2022ء میں اپنی آخری حدوں کو چھونے لگی۔ دونوں فریق بہر صورت ایک دوسرے کو ملیامیٹ کرنے پر تلے ہیں۔یہ امر کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ ان کا اقتدار کے حصول کاایجنڈاقانونی طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے یا غیر قانونی طریقے سے یا اپنے جماعتی مفادات کے حصول کیلئے انہیں خواہ تمام آئینی اور جمہوری اقدار کو ہی کیوں نہ مسخ کرنا پڑے۔ایک غیر منتخب گورنر کی طرف سے ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے یا اعتماد کا ووٹ لینے یا تحریک عدم اعتماد کی باتیں سیاسی اشرافیہ کے اقتدار کے حصول کے حربے اور چونچلے ہیں جن کا عوام کے مفادات سے دور کابھی تعلق نہیں۔حالیہ محاذآرائی نے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved