تحریر : ڈاکٹر امجد ثاقب تاریخ اشاعت     26-12-2022

سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(31)

اس چھوٹے سے گاؤں کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ ڈیرہ اللہ یار تھا۔ اوستہ محمد روڈ۔اردگرد میلوں تک پانی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ڈیرہ اللہ یار میں کئی سو لوگ جمع تھے جنہیں شمسی چراغ (Solar Lights) پیش کیے گئے۔ گرم کپڑے‘ لحاف اور کھانے پینے کی اشیااس کے علاوہ تھیں۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ علاقہ چاول کی کاشت کے لیے مشہور ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ساری فصل برباد ہو چکی ہے۔ چاول کی فصل تو بارش کی نذر ہو گئی لیکن گندم کی کاشت کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔لوگوں نے جب یہ باتیں کہیں تو لہجے میں دکھ کی ایک لہر سی موجود تھی لیکن وہ پُر امید بھی تھے کہ مشکل کے یہ دن گزر ہی جائیں گے۔ ہم البتہ اس سوچ میں مبتلا رہے کہ کیا ہم بھی اس مشکل میں سرخرو ہوسکیں گے۔ کیا یہ مشکل صرف سیلاب زدگان کی ہے‘ ہماری نہیں۔ ظفر علی خان نے یوں ہی تو نہیں کہا:
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
لوگوں سے ملنے کے بعد ہم باہر سڑک پہ آئے تو کچھ دور ایک اور گاؤں نظر آیا۔ روجھان جمالی۔ یہ سابق وزیراعظم پاکستان‘ ظفر اللہ خان جمالی کا گاؤں ہے۔ ظفر اللہ جمالی کا تعلق ان وزرائے اعظم میں ہوتا ہے جن کے دامن پہ کوئی داغ نہیں لگا۔ مخلص‘ سادہ دل‘درد مند اور شرافت کی تصویر۔ وقت کی کمی نہ ہوتی تو ہم وہاں ضرور جاتے۔ دعائے مغفرت کے لیے۔ بس دور ہی سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ جنرل (ر) فیض جیلانی البتہ کچھ دیر رخصت لے کے وہاں ضرور گئے۔ ان کے صاحبزادے سے فون پر بات ہوئی اور ہم نے اپنی کوتاہی پہ معذرت بھی چاہی۔ اپنے علاقے کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا لہجہ بھی غم سے بھرپور تھا۔ ہمارا اگلا پڑاؤ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پہ واقع مشہور شہر جیکب آباد تھا۔
جیکب آباد ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کی بنیاد انگریز جنرل‘جان جیکب نے 1847ء میں رکھی۔ پاکستان کے گرم ترین شہروں میں سے ایک‘ جہاں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔ یہا ں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے جس کی خاص بات اونٹوں کی لڑائی (Camel Fighting) ہے۔ لڑنا اور لڑانا انسان کی پرانی عادت ہے۔ روم اور یونان سے لے کر آج تک۔ بہتا ہوا خون دیکھ کے ہمیں کتنی لذت نصیب ہوتی ہے۔ دو لاکھ کی آبادی کا یہ شہر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جسے خان گڑھ کہتے تھے۔جنرل جان جیکب نے اس گاؤں کو قصبہ بنا دیا اور پھر اس کا جسدِ خاکی بھی اسی خاک میں دفن ہوگیا۔ کسی زمانے میں یہ ریل کا اہم مرکز تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی بدولت اس شہر کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ یہاں بارش بہت کم ہوتی ہے لیکن اس برس بادل نجانے کیوں اتنا کھل کے برسے۔ہمیں اگر اس شہر کو بچانا ہے تو بہت کچھ سوچنا ہوگا۔ جیکب آباد کو اب دفاعی اہمیت بھی حاصل ہو چکی ہے۔ یہاں تعمیر شدہ شہباز ائیر بیس(Air Base) افغان جنگ میں اتحادی افواج کے زیرِ استعمال بھی رہا۔
جیکب آباد میں اخوت سٹاف نے حسبِ دستور ان تمام کاوشوں کا تذکرہ کیا جو وہ اب تک متاثرین کے لیے کرتے رہے۔ پھر وہ ہمیں ان گھروں میں لے گئے جو اخوت کی طرف سے دی گئی قرض کی رقم سے تعمیر ہورہے تھے۔ ایسے ہی کئی اور گھر بھی منتخب کرلیے گئے ہیں۔ سارا شہر توشاید ہم نہ بنا سکیں لیکن حسبِ توفیق چند گھر بھی محبت کے اظہار کے لیے بہت کافی ہیں۔ اپنے حصے کی شمع جلانا اسی کو کہتے ہیں۔
جیکب آباد کے بعد پنوں عاقل کے قریب قائم خانی جسکانی‘ نامی ایک گاؤں پہنچے۔ سو دو سو گھروں پہ مشتمل ایک چھوٹی سی بستی۔ لوگوں نے بستی میں پھیلے اندھیرے پہ معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ چند روز پہلے ان کا بجلی کا ٹرانسفارمر دن دیہاڑے چوری ہوگیا۔ ہم حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ کیا ٹرانسفارمر بھی چوری ہو جاتے ہیں اور اگر چوری ہوتے ہیں تو ان کا خریدار کون ہے اور پھر انہیں کہاں نصب کیا جاتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ہمیں بارشوں نے بہت برباد کیا لیکن ہمیں اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے۔ اپنے کام ہم خود کرلیں گے۔ ہمیں بس مسجد کی تعمیر میں آپ کی مدد درکار ہے۔ یہ چھوٹی سی مسجد شدید بارشوں کی وجہ سے شہید ہوچکی تھی۔ تعمیرِ مسجد کی آرزو دیکھ کر فیصلہ ہوا کہ اللہ پاک نے توفیق دی تو سب سے پہلے ہم مسجد بنائیں گے۔ ہمارے ساتھ اخوت کا انجینئر نگ سٹاف بھی تھا۔ طے ہوا کہ اسی ہفتہ تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا۔ بیسیوں لوگ مسجد کے احاطہ میں موجود تھے۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے۔ ایسی ہی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ مسجد کا احاطہ اس امر کا گواہ تھا کہ کچھ لوگوں نے ایک گاؤں سے مواخات کا رشتہ جوڑا اور ایک خوبصورت مسجد کی بنیاد رکھ دی۔دعا کے دوران ہی عشاکی اذان کی آواز بلند ہوئی۔ حی علی صلاح‘ حی علی الفلاح۔ یہ آواز سن کر بہت سی آنکھیں نم ہونے لگیں۔اس طرح کے بہت سے گاؤں ہیں جہاںمساجد کو نقصان پہنچا۔ ہم اب تک ایسی ایک سو مساجد کی فہرست بنا چکے ہیں۔ خدا کے گھر ہیں اس نے چاہا تو بن ہی جائیں گے۔
قائم خانی جسکانی سے کچھ ہی فاصلے پہ ہمارے ایک دوست علم الدین بلو کا گاؤں تھا۔ سول سروس کا بہت قابل افسر جو آزاد کشمیر کا چیف سیکرٹری بھی رہا۔ اس کا اصرار تھا کہ ہم رات کا کھانا اس کے ساتھ کھائیں۔ علم الدین‘ نذیر تونیو اور میں سول سروس اکیڈیمی میں اکٹھے زیرِ تربیت رہے۔ انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ جس محبت کا اظہار علم الدین اور اس کے بھائیوں نے کیا اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔علم الدین بلو کے گھر ایک اور روایت بھی دیکھی۔ کھانے کے دوران علم الدین تو ہمارے ساتھ بیٹھا رہا لیکن اس کے تمام بھائی جو خود سول سروس کا حصہ ہیں اور بیٹا حمزہ نہایت ادب سے ہمارے گرد کھڑے رہے۔ کسی ملازم کو کھانا پیش کرنے کی اجازت نہ تھی۔جب تک کھانا ختم نہ ہوا وہ اپنی جگہ پہ مودّب کھڑے رہے۔ مہمان نوازی کا یہ سلیقہ اس سے پہلے کہیں دکھائی نہ دیا۔ کھانے کے بعد سندھ کے روایتی تحائف۔اجرک اور ٹوپیاں۔رخصت ہونا بھی ایک مرحلہ تھا۔ہم سب لوگ رات گزارنے کے لیے ایک بار پھر پنوں عاقل پہنچے۔ سارے دن کی کہانی اتنی تلخ تھی کہ نیند بھی دیر سے آئی۔ کئی بار آنکھ لگی اور کئی بار کھلتی رہی۔ ان لوگوں کی یاد جو مصیبت میں گھِر گئے‘ جن کا مال و اسباب لٹ گیا‘ جن کی امید کے چراغ مدھم ہوگئے۔ جن کے گھروں کو اندھیروں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ان کی یاد نے رات بھر بے قرار کیے رکھا:
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر
لیکن یہ ایک شخص کی یاد نہیں تھی۔ ان ہزاروں لوگوں کی یاد جو کسی کے منتظر ہیں۔ضروری تو نہیں چشمِ نم صرف ایک شخص کے لیے ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved