ایڈورڈسنوڈن نامی امریکی کو روس میں سیاسی پناہ مل چکی ہے۔ روس کے اس عمل پر امریکی صدر نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے روس کے صدر سے ماسکو میں ہونے والی اپنی ملاقات منسوخ کر دی تھی۔ امریکی صدر اپنے شہری سنوڈن پر خفیہ معلومات کے افشا کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتے تھے جو اس شخص نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کنٹریکٹ پر کام کرتے ہوئے حاصل کی تھیں اور بعد ازاں ان کا پردہ فاش کر دیا تھا۔ اسی امریکی شہری کے ذریعے واشنگٹن سے شائع ہونے والے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے ان میں سے کچھ خفیہ دستاویزات حاصل کرکے پاک امریکہ تعلقات پر ایک طویل رپورٹ شائع کی ہے جو پاکستانی اخباروں کی بھی زینت بن چکی ہے۔ 4 ستمبر کو روزنامہ ’دنیا‘ نے اس رپورٹ کے مکمل متن کا اردو ترجمہ بھی شائع کردیا۔ اس رپورٹ میں پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بہت کچھ تحریر ہے؛ تاہم اس کا مرکزی نقطہ پاکستان کا جوہری پروگرام ہے۔ یہ رپورٹ پڑھ کر مجھ پر جو مجموعی تاثر قائم ہوا‘ وہ یہ ہے کہ امریکی بڑی شدو مد سے ہمارے جوہری پروگرام کی برسوں سے جو جاسوسی کررہے ہیں‘ وہ کسی طور بھی بارآور نہیں ہوسکی ہے اور اس جاسوسی پر مختلف حوالوں سے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا ہے۔ میری نظر میں یہ رپورٹ ان پاکستانیوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جو ہمارے جوہری پروگرام کی سکیورٹی پر مامور رہے ہیں جن میں آج کل یہ کام سر انجام دینے والی ٹیم بھی شامل ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی یہ رپورٹ بڑے ماہرانہ انداز میں تحریر ہے اور اس میں چونکہ امریکہ کی انتہائی خفیہ رپورٹوں میں بھی ہمارا جوہری پروگرام خفیہ ہی رہتا ہے لہٰذا ایسے جو خدشات بیان کیے گئے ہیں کہ انتہا پسند جوہری مواد پر قبضہ کریں گے وغیرہ وغیرہ‘ وہ بالکل بے بنیاد سے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کس طرح سب کچھ خفیہ رکھا جاتا ہے اور خود رپورٹ میں تسلیم بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے چھ ایسے شعبے ہیں جن کے بارے میں مکمل معلومات امریکیوں کو دستیاب نہیں ہیں، تو پھر خدشات کا اظہار کس بنیاد پر ہے۔ یہ تو ایک طرح سے حسنِ طلب معلوم ہوتا ہے۔یعنی پاکستانی خود ہی اپنے سکیورٹی نظام کی باریکیاں بیان کردیں اور پھر کہیں کہ دیکھیں ایسے انتظامات میں بھلا کیسے طالبان کسی قسم کے بھی جوہری مواد تک پہنچ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے جوہری پروگرام کے محافظوں کو چاہیے کہ کسی بھی طرف سے ایسے خدشات کے اظہار کو وہ مسلسل نظر انداز ہی کرتے رہیں۔ جن دنوں ایبٹ آباد میں امریکیوں نے اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر کارروائی کی تو ان دنوں سکیورٹی امور کے ایک ماہر کی رائے تھی کہ اس حملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکیوں نے دیکھا ہوگا کہ اگر پاکستان کے جوہری پروگرام پر خفیہ انداز میں حملہ کرنا پڑا تو کیا صورت ہوگی۔ اس سکیورٹی امور کے ماہر کے بقول اسامہ کے کمپائونڈ پر حملے کے مقابلے میں ہمارے جوہری پروگرام کے خلاف حملہ، ہزار گنا سے بھی زیادہ مشکل کارروائی ہوگی لہٰذا امکان غالب ہے کہ اگر کسی نے پہلے ایسا سوچا بھی ہوگا تو اسامہ بن لادن کے کمپائونڈ پر حملے کے بعد وہ خیال ہی ترک کردیا ہوگا کیونکہ قومی لحاظ سے اس چھوٹی سی خفیہ کارروائی میں پوری امریکی حکومت کے اعصاب ہل کر رہ گئے تھے تو اس سے ہزار گنا بڑی کارروائی کا اس کے بعد کیا امکان ہوگا۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے اعتراف شکست کے مترادف ہے کہ گزشتہ عشروں میں جو نگرانی کی جارہی تھی وہ ان کے لیے گویا کوئی نتائج پیدا نہیں کرسکی ہے۔ امریکی جاسوسی اداروں کو پاکستان میں شکیل آفریدی جیسے لوگ تو مل جاتے ہیں اور ہمارے ہاں کے حسین حقانی جیسے دانشور ان کے ہمنوا بھی ہوجاتے ہیں مگر پاکستانیوں کی اکثریت ایسے لوگوں کے اثرات کو اپنی حب الوطنی کے جذبے سے زائل کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ میری رائے میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے یہ صورتحال ابھی کچھ عرصہ اور جاری رہے گی اور آخر کار پوری دنیا اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی کہ پاکستان ایک مسلمہ جوہری قوت ہے۔ ہماری معاشی صورتحال کا اس سلسلے میں بہت اہم کردار ہے۔ اگر ہم اقتصادی طور پر اگلے چند برسوں میں مضبوط ہونا شروع ہوجائیں اور ہماری معیشت ایک عشرے بعد ایک مستحکم معیشت ہوجائے تو بھارت اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں وہ تمام ملک ہمارے جوہری پروگرام کی نگرانی کے مشاغل چھوڑ دیں گے جو بظاہر ایسا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حفاظت کے ضمن میں ہمارے جوہری پروگرام کا ریکارڈ بہترین ہے۔ اللہ نے ہمیں جوہری مواد سے متعلق کسی حادثے سے بھی محفوظ رکھا ہے اور اس ضمن میں کئی دیگر مثبت پہلو ہیں جن کا ذکر ہمارے ہاں ہوتا رہتا ہے۔ بس مسئلہ معیشت ہی کا ہے۔ ہمارے ہاں جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسائل ہیں ان کی جڑیں بھی ماہرین کے کہنے کے مطابق معیشت سے جڑی ہیں۔ ہم معیشت میں بہتری ہونے میں کامیاب ہوگئے تو یہ مسئلہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا جائے گا۔ موجودہ حکومت کا غالباً یہی احساس ہے جو پوری کابینہ کراچی پہنچی اور ہماری معیشت کی شہ رگ پر دبائو کو ختم کرنے کے اقدامات کی بات ہوئی۔ جس طرح کسی غریب آدمی کے گھر میں جب خوشحالی آتی ہے تو اس کے گھر سے بیماریاں بھی رخصت ہوجاتی ہیں، ہمسایوں اور رشتہ داروں سے تعلقات بھی بہتر ہوجاتے ہیں،دشمن دشمنی کرنے سے گھبرانے لگتے ہیں، اسی طرح قوموں کی غربت جب دور ہوتی ہے تو ان کے مسائل بھی بہت کم رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اب ہر قیمت پر اپنی اقتصادی حالت کو سنوارنا ہوگا اور موجودہ حکومت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ اس وقت حکومت کی ابتدائی کارکردگی پر جو تبصرے ہورہے ہیں ان سے قطع نظر عوام کی اکثریت کو اب بھی امید ہے کہ حالات سنبھلیں گے۔ اللہ کرے یہ امید قائم رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved