تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     26-12-2022

بدلنے والے اور بدلہ لینے والے

سیاسی منظر نامے کا خلاصہ یہ ہے کہ چودھری پرویزالٰہی اسمبلی توڑنے کی سمری عمران خان کو بھجوانے کے بعد عدالت میں اسمبلی نہ توڑنے کا حلف نامہ دے آئے ہیں۔ نقطے ملائیے اور مزہ لیجئے۔گزشتہ کالم میں بھی عرض کرچکا ہوں کہ تحریک انصاف کی طرف سے دی گئی تاریخ پردونوں صوبائی اسمبلیاں نہ ٹوٹیں تو عمران خان اعلانات کے بادشاہ بن کر رہ جائیں گے۔ان کی طرزِحکمرانی ہو یا طرزِ سیاست دونوں ہی ایسے اعلانات سے بھری پڑی ہیں جنہیں عملدرآمد بھی نصیب نہ ہوا۔ بالخصوص دورِ اقتدار میںان کے دعوؤں اور وعدوں کا چند فیصد بھی سچ ہوجاتا تو شاید صورتحال اتنی مشکل اور ڈرامائی نہ ہوتی۔ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کے رستے میں تو اندرونی و بیرونی عوامل رکاوٹ بن گئے ہیں لیکن خیبر پختونخوا اسمبلی تاحال قائم و برقرار کیوں ہے‘ اس بارے تحریک انصاف کے چیئر مین سمیت کسی سرکردہ رہنما کا کوئی معقول عذر یا جواز سامنے نہیں آسکا۔ خیر! عذر کا کیا ہے‘بنے بنائے عذر اور گھڑے گھڑائے جواز ان کی جیبوں میں موجود رہے ہیں جو بوقتِ ضرورت عوام کو پیش کرڈالتے ہیں اور عوام بھی اس قدر سادہ اور دل پھینک ہیں کہ اپنے محبوب قائدین کی ہوشیاری کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا کوئی جوہر سمجھ کر سردھنتے اور داد دیتے نہیں تھکتے۔
اسمبلیوں کی برخاستگیاں اور بحالیاں ہماری سیاسی تاریخ کا وہ اہم باب ہیں جو کئی بار دہرایا جاچکا ہے۔صبح کے تخت نشیں شام کو ملزم اور شام کے ملزم صبح کو تخت نشیں بنتے دیر نہیں لگتی۔عمران خان کی فی البدیہہ گفتگو اور شعلہ بیانی خود ان کی اپنی پارٹی اور اتحادیوں کے لیے نت نئے مسائل اور آئے روز آزمائشوں کا باعث بنتی چلی آرہی ہیں۔بے پناہ مقبولیت کے پہاڑ پر چڑھے عمران خان کی نظروں سے زمینی حقائق اوجھل ہوتے چلے جارہے ہیں یا دھندلا چکے ہیں۔سیاسی داؤ پیچ اور اسرارورموزسے نابلد بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے زیر اثر کیسے کیسے فیصلے اور اعلانات کئے چلے جارہے ہیں۔نتائج اور ردعمل سے بے نیاز اپنی ہی زبان سے اہداف اور منزل کو دور کرتے چلے جانا کہاں کی سیاست اور کون سی دانشمندی ہے؟عمران خان کے سیاسی حریف ہوں یا شریک ِاقتدار حلیف‘ سبھی منجھے ہوئے اور پرانے کھلاڑی ہیں۔دلوں کے بھید بھاؤ سے لے کر ارادوں اور نیت سمیت کسی کے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں؟ جہاں اقتدار ہی منزل اور ہدف ہو تو پھر کیا حلیف‘ کیا حریف۔کون کب کسی کی ضرورت بن جائے اور ضرورتمند ضرورت پوری کرنے کے لیے کس حد تک چلا جائے اس کی کوئی حد نہیں۔یہی ہماری سیاست اور اس کا حُسن ہے۔
ساتھ چلنے والے کب بدل جائیں اور کب بدلے پر اتر آئیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔عدم اعتماد کے ردعمل میں عمران خان کی طرف سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام کو غنیمت جان کر فوری الیکشن سے مسلم لیگ (ن) استفادہ کرسکتی تھی لیکن ساتھ چلنے والوں نے مقبولیت کے پہاڑ پر چڑھنے کے بجائے اترائی کے رستے پر چلنے پر ایسا مجبور کیا کہ ہر آنے والا دن جوابدہی‘ سبکی‘ ندامت اور پشیمانی کا سامان لے کر آیا۔دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے آئے ہیں کہ ساتھ چلنے والے شاید کوئی بدلہ یا کوئی پرانا حساب چکتا کررہے ہیں۔ یہ ماضی میں نامناسب زبان اور اخلاق سے گری ہوئی تشہیری مہم کا بدلہ ہو سکتا ہے یا چور ڈاکو کہہ کر مخاطب کرنے کے علاوہ سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارنے کا‘تاہم تخت پنجاب کی معرکہ آرائی میں بھی نقطے ملانے والے جو خاکہ تشکیل دے رہے ہیں اس میں یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ '' سب سے بڑا ڈاکو‘‘کہنے اور سیاسی تعاون کے باوجود وزارت دینے سے تادیر انکاری رہنے والوں کو کچھ سبق ہی سکھایا جائے۔چودھری پرویزالٰہی تو برملا شکوہ بھی کرچکے ہیں کہ عمران خان تو مونس الٰہی کو ساتھ بٹھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ تاہم چودھری صاحبان بخوبی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا مینڈیٹ اور نظر ِعنایت محض ضرورتاً اور وقتی ہے۔آنے والے کل میں کیا حالات ہوتے ہیں اور کیا فیصلے کئے جاتے ہیں اس بارے کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ان کا موڈ اور فیصلے ہی حالات اور وقت کے ساتھ نہیں بدلتے بلکہ کھلاڑی بدلتے بھی دیر نہیں لگتی۔ اس تناظر میں بدلنے کے ساتھ ساتھ کچھ بدلہ تو بنتا تھا۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ اچھا سلوک تو اکثر فراموش کردیتا ہے لیکن بدسلوکی کسی صورت نہیں بھلا پاتا۔مصلحتیں اور مجبوریاں آڑے آجائیں اور اہداف کا حصول ہی مقصد ہو توبدزبانی ہو یا بدسلوکی‘انتقام ہو یا عتاب‘ سبھی کو بھلانے کے لیے خود ہی جواز اور عذر تراش لیتے ہیں۔ عوام کے وسیع تر مفاد کی آڑ میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے مخالفین اور حریفوں کو بھی گلے لگا لینا ہماری سیاست کا حسن ہے‘ـتاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے پی ڈی ایم زیادہ متحرک تھی یا وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی۔چونکہ اسمبلی بچانے کی خواہش دونوں طرف ہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔اس تھیوری میں اگر کوئی دم نکل آیا تو عمران خان مزید ناموافق حالات سے دوچار ہونے کے علاوہ مضبوط اتحادیوں سے بھی ہاتھ دھو کر سیاسی تنہائی کا شکار ہوسکتے ہیں۔بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود سیاسی تنہائی کا لفظ استعمال کرنے پر اگر قارئین معترض ہوں تو وضاحت کرتا چلوں کہ عوامی مقبولیت اقتدار کے حصول کی ہرگز ضمانت نہیں کیونکہ ان کا طرزِ سیاست مقبولیت کے باوجود قبولیت سے دن بدن پرے کرنے کا باعث ہے۔
تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے سے لے کر لمحۂ موجود تک مسلسل باور کرواتا چلا آرہا ہوں کہ تحریک انصاف میں واحد اور اصل سٹیک ہولڈر عمران خان ہیں باقی سبھی بینی فشری ہیں جو نجانے کہاں کہاں پرفارم کرتے چلے آئے ہیںاور تحریک انصاف ان کا آخری سٹیج نہیں۔ان مہمان اداکاروں کو جاننے اور پہچاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔آنے والے دنوں میں سارے بھید کھلتے چلے جائیں گے۔ ہر دور میں ڈیوٹی نبھانے والے سبھی اپنی اپنی ڈیوٹی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔کانوں میں گھلنے والے زہر نے دل ودماغ کا وہ کام تمام کیا کہ وہ آشیانہ ہی اجاڑ ڈالاجسے بسانے کے لیے 22 سال کی طویل جدوجہد اور مسلسل کوششیں کارفرما تھیں۔نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل وزیروں اور مشیروں سے لے کر مصاحبین تک کسی نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔جہانگیر ترین سے خائف سبھی عمران خان کے مزاج اور موڈ سوئنگ (Mood Swing)کی کمزوری کا ایسے فائدہ اٹھاتے رہے کہ سارے خسارے عمران خان کے حصے میں آگئے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔بدلنے والے اور بدلہ لینے والے سبھی بدلتے اور بدلہ لیتے رہیں گے۔ چلتے چلتے اس انتظامی بحران کے خاتمے کا ذکر بھی ضروری ہے جو پولیس اور انتظامی سربراہان کی عدم دستیابی کی وجہ سے چین آ ف کمانڈ میں بگاڑ کا سبب بن رہا تھا۔ایڈہاک پر چلنے والے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو آئی جی اور چیف سیکرٹری بالآخر مل چکے ہیں۔آئی جی پنجاب کے لیے عامر ذوالفقارکے انتخاب کی اصل مبارکبادسرکار کو دینی بنتی ہے کہ کوئی تو فیصلہ عوام اور گورننس کے حق میں کیا ہے۔ اسی طرح عبداللہ سنبل کی بطور مستقل چیف سیکرٹری کے نوٹیفکیشن کے بعد ایڈہاک پر چلنے والی گورننس کو بھی شاید سنبھالا مل جائے۔دونوں انتظامی سربراہان کو اس دھوبی گھاٹ سے دور رہنے احتیاط ضرور کرنی چاہئے جہاں یہ سبھی سماج سیوک نیتا اپنے اپنے گندے کپڑے دھوتے اور چھینٹے اڑاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved