سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت پیغمبرانِ بر حق میں نہایت ممتاز ہے۔ اُمتِ محمدیہ کے علاوہ دنیا میں مسیحی کہلوانے والوں کی تعداد بھی اربوں میں ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے مسیحیوں کا تصور مسلمانوں کے تصور سے جدا ہے۔ مسیحی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں جبکہ اہلِ اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کو یگانہ اور یکتا مانتے ہیں۔ سورہ اخلاص میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا تعارف بڑے خوبصورت انداز میں کچھ یوں کرایا گیا: ''آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے (کسی کو) جنا اور نہ وہ (خود) جنا گیا۔ اور نہیں ہے اس کا کوئی ہمسر‘‘۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے مسیحیوں کے عقیدے کی بنیاد یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت عام انسانوں کے برعکس بن باپ کے‘ سیدہ مریم علیہا السلام کے ہاں ہوئی تھی۔ اس وجہ سے وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا گردانتے ہیں جبکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت سیدنا آدم علیہ السلام کی طرح ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 59 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے ہاں آدم کی مثال کی طرح ہے (کہ) اس نے پیدا کیا اسے مٹی سے، پھر کہا اس کو ''ہو جا‘‘ تو وہ ہو گیا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے بڑے خوبصورت انداز میں رہنمائی کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مریم کی آیات نمبر 15تا 34 میں بیان فرماتے ہیں: ''اور ذکر کیجئے کتاب میں مریم کا جب وہ الگ ہوئی اپنے گھر والوں سے ایک جگہ میں مشرق کی جانب۔ پھر اس نے بنا لیا ان کی طرف ایک پردہ‘ پھر ہم نے بھیجا اس کی طرف اپنی روح (فرشتے) کو تو اس نے شکل اختیار کی اس کے سامنے ایک کامل انسان کی۔ (مریم نے) کہا: بے شک میں پناہ چاہتی ہوں رحمن کی تجھ سے‘ اگر ہے تو کوئی ڈر رکھنے والا۔ (فرشتے نے) کہا: بے شک میں بھیجا ہوا ہوں تیرے رب کا تاکہ میں عطا کروں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا۔ (مریم نے) کہا: کیسے ہو گا میرے ہاں کوئی لڑکا حالانکہ نہیں چھوا مجھے کسی بشر نے اور نہیں ہوں میں بدکار۔ (فرشتے نے) کہا: اس طرح (ہی ہو گا)۔ تیرے رب نے کہا ہے وہ مجھ پر آسان ہے، اور تاکہ ہم بنا دیں اسے ایک نشانی لوگوں کے لیے اور رحمت (بنا دیں) اپنی طرف سے اور ہے (یہ) معاملہ طے شدہ۔ تو وہ حاملہ ہو گئی اس (بچے) سے پھر وہ الگ ہو گئی اس کے ساتھ ایک دور جگہ (یعنی جنگل) میں۔ پھر لے آیا اسے دردِ زِہ کھجور کے تنے کی طرف۔ (مریم نے) کہا: اے کاش کہ میں مر جاتی اس سے پہلے‘ اور میں ہو جاتی بھولی بسری (بے نشان)۔ پھر پکارا اسے (فرشتے نے) اس کے نیچے سے کہ تو غم نہ کر۔ یقینا (جاری) کردیا ہے تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ۔ اور تو ہلا اپنی طرف کھجور کے تنے کو‘ وہ گرائے گا تجھ پر پکی تازہ کھجوریں۔ تو تُو کھا اور پی‘ ٹھنڈی کر (اپنی) آنکھ۔ پھر اگر تو ضرور دیکھے آدمیوں میں سے کسی ایک کو تو کہہ دے بے شک میں نے نذر مانی ہے رحمن کے لیے روزے کی۔ سو ہرگز نہیں میں بات کروں گی آج کسی انسان سے۔ پھر وہ لے آئی اس کو اپنی قوم کے پاس اُسے اٹھائے ہوئے، انہوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ یقینا تو نے کیا ہے کام بہت بُرا۔ اے ہارون کی بہن! نہیں تھا تیرا باپ بُرا آدمی اور نہیں تھی تیری ماں بدکار۔ تو اس نے اشارہ کیا اس (بچے) کی طرف، وہ کہنے لگے کیسے ہم کلام کریں (اس سے) جو ہے گود میں بچہ۔ (بچے نے) کہا: بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے دی ہے مجھے کتاب اور بنایا ہے مجھے نبی۔ اور بنایا ہے مجھے بابرکت جہاں کہیں (بھی) میں ہوں اور اس نے مجھے وصیت کی ہے نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں رہوں زندہ۔ (اور مجھے بنایا) نیکی کرنے والا اپنی والدہ کے ساتھ اور نہیں اس نے بنایا مجھے سرکش بدبخت۔ اور سلام ہے مجھ پر جس دن میں جنا گیا اور جس دن میں فوت ہوں گا اور جس دن میں اٹھایا جاؤں گا زندہ کرکے۔ یہ عیسیٰ بن مریم ہیں (اور یہ) سچی بات ہے جس میں وہ شک کرتے ہیں‘‘۔
ان آیات مبارکہ کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کو اپنا بیٹا نہیں بناتے بلکہ وہ جو کام کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ''کُن‘‘ کہنا ہی کافی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مریم ہی کی آیت نمبر 35میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہے (لائق) اللہ کے لیے کہ وہ بنائے کوئی اولاد‘ وہ پاک ہے۔ جب وہ فیصلہ کرتا ہے کسی کام کا تو یقینا صرف وہ (یہی) کہتا ہے اس کو (کہ) ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کی بڑے سخت انداز میں تردید کی جنہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا، خدا یا تثلیث کا حصہ قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 72میں ارشاد فرماتے ہیں: ''البتہ یقینا کفر کیا اُ ن لوگوں نے جنہوں نے کہا بے شک مسیح بن مریم ہی اللہ ہے‘‘۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ قیامت کے دن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے اللہ تبارک وتعالیٰ استفسار کریں گے کہ کیا آپ نے لوگوں کو اس بات کی تلقین کی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کو چھوڑ کر معبود بنا لیا جائے تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس بات کی نفی کریں گے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 116میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور جب کہے گا اللہ تعالیٰ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تو نے کہا تھا لوگوں سے (کہ) بنا لو مجھے اور میری والدہ‘ دونوں کو معبود اللہ کے سوا؟ وہ کہیں گے: پاک ہے تو(پروردگار)۔ نہیں ہے (مناسب) میرے لیے کہ میں کہتا (وہ بات) جس کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں۔اگر میں نے کہی ہو گی یہ (بات) تو یقینا تو جانتا ہو گا اسے، تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے بے شک تو خوب جاننے والا ہے غیب کی باتوں کو‘‘۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اعجازات سے بھی نوازا تھا۔ جن کا ذکر قرآن مجید کی مختلف آیاتِ مبارکہ میں موجود ہے۔ سورہ آل عمران کی آیات 48 تا 50میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور وہ (اللہ) تعلیم دے گا اُسے کتاب وحکمت کی اور تورات اور انجیل کی۔ اور(اسے) رسول بنائے گا بنی اسرائیل کی طرف (جب وہ رسول بن کر آئے گا تو کہے گا) کہ بے شک میں یقینا آیا ہوں تمہارے پاس نشانی لے کر تمہارے رب کی طرف سے کہ بے شک میں بناتا ہوں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے جیسی شکل پھر میں پھونک مارتا ہوں اس میں تو وہ بن جاتا ہے (واقعی) اللہ کے حکم سے۔ اور میں درست کر دیتا ہوں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور میں زندہ کرتا ہوں مُردوں کو اللہ کے حکم سے اور میں خبر دیتا ہوں تم کو اس کی جو تم کھاتے ہو اور جو تم ذخیرہ کرتے ہو اپنے گھروں میں بے شک اس میں یقینا نشانی ہے تمہارے لیے اگر ہو تم مومن۔ اورتصدیق کرنے والا ہوں اس کی جو میرے سامنے موجود ہے تورات کی اور (میں اس لیے آیا ہوں) تاکہ میں حلال کردوں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں جو حرام کی گئی ہیں تم پر‘ میں آیا ہوں تمہارے پاس نشانی لے کر تمہارے رب کی طرف سے پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام توحید ِ باری تعالیٰ، اخلاقی تعلیمات اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی دعوت دیتے رہے، آپ کی بستی کے لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔ مسیحیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھ کر بنی نوع انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر گئے جبکہ مسلمانوں کا اس حوالے سے یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب نہیں کیا گیا بلکہ انہیں زندہ آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیات 157 تا 159 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہ اُنہوں نے قتل کیا اسے اور نہ انہوں نے سولی پر چڑھایا اسے اور لیکن شبہے میں ڈال دیا گیا ان کو اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس میں‘ یقینا شک میں ہیں اس بارے میں‘ نہیں ان کے پاس اس کا کوئی علم سوائے گمان کی پیروی کے۔اور نہیں قتل کیا انہوں نے اسے یقینا، بلکہ اللہ نے اسے اُٹھا لیا اپنی طرف اور ہے اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا۔ اور نہیں ہے کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور وہ ایمان لے آئے گا اُس (عیسیٰ) پر ان کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ (عیسیٰ) ہوں گے ان پر گواہ‘‘۔
احادیث مبارکہ میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت دمشق کے مشرقی مینار پر نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت نواس بن سمعانؓ فرماتے ہیں کہ حضور کریمﷺ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث (دوبارہ نازل)فرمائیں گے۔ وہ دمشق کی جامع مسجد کے سفید مشرقی مینار پر اتریں گے۔ وہ دو زرد چادریں پہنے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ پھر وہ دجال کی تلاش میں نکلیں گے۔تا آنکہ اسے بابِ لد کے مقام پر پائیں گے اور پھر اسے قتل کردیں گے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور شخصیت سے رہنمائی حاصل کرنے اور آپ کے پیغا م پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved