تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-09-2013

یہی تو سیاست ہے

پراپیگنڈے کی طاقت یہ ہے کہ اگر کسی فرد یا گروہ کو مسلسل عقل مند قرار دے کر معتوب کیا جاتا رہے‘ تو وہ خود ہی ہتھیار ڈال کر یہ مان جائے کہ ’’واقعی عقلمندی بہت ہی گندی اور ناکارہ صفت ہے۔ اس سے بچنے میں ہی بہتری ہے۔‘‘ اس پراپیگنڈے کے سحرمیں آئے ہوئے توبہ کرنے لگتے ہیںکہ ’’آئندہ ہم عقل مندی کے قریب سے نہیں گزریں گے۔ ہماری توبہ!‘‘ عموماً ایسا ہوتا نہیں۔ لیکن پاکستان میں ہوگیا ہے۔ کل جب ہمارے رخصت ہونے والے صدر اور نئے آنے والے وزیراعظم‘ پاکستان کی جمہوری زندگی میں ایک نیا باب شروع کر رہے تھے اور باہمی خیرسگالی کے مظاہرے کرتے ہوئے ایک ہی بات پر متفق تھے مگراصل میں کہہ رہے تھے ’’یہ عقلمندی کا وقت نہیںہے۔‘‘ یہ بات کہنے کے لئے انہوں نے جو الفاظ استعمال کئے‘ وہ تھے ’’یہ وقت سیاست کا نہیں۔‘‘ ہے نہ کمال کی بات۔ جوسیاستدان ہیں وہ خود ہی یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ سیاست گندی چیز ہے۔وہ اس سے سبق حاصل کر چکے ہیں اور آنے والے 5برس کے دوران‘ وہ اس سے پرہیز کرتے رہیں گے اور 5سال ختم ہونے کے بعد ’’گندا کام‘‘ دوبارہ شروع کر دیں گے۔ جب معاشروں میں الٹ پلٹ ہوتی ہے‘ تو پھر ہر چیز الٹ پلٹ جاتی ہے۔ خیرکا نام شر ہو جاتا ہے اور شر کا خیر۔ وہ جو90ء کی دہائی میں ہوا تھا‘ درحقیقت شر تھا۔دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی حکومت کے خلاف سازشیں کیں۔ ہر سازش میں طالع آزما جنرلوں کو استعمال کیا اور دوسرے فریق کی حکومت کو برطرف کرا کے‘ اپنی حکومت کے لئے راستہ بنایا۔ یہ سیاست نہیں تھی۔آپ اسے سازش کہہ لیں۔ ریشہ دوانی کہہ لیں۔ بے اصولی کہہ لیں۔ یا حقیقی سیاسی اخلاقیات سے انحراف قرار دے دیں۔ یہ سب کچھ تھا لیکن سیاست نہیں تھی۔ مگر ہمارے دونوں قومی لیڈر کل کی ایک خوبصورت تقریب میں اعلان کر رہے تھے کہ وہ 5سال سیاست نہیں کریں گے۔ سیاست ان 5برسوں کے بعد آئے گی۔ گویا وہ اعتراف کر رہے تھے کہ ماضی میں دونوں نے جو غیرسیاسی طرزعمل اختیار کیا‘ وہ سیاست تھی اور جو نئے سیاسی معیار وہ اب قائم کر رہے ہیں‘ وہ سیاست نہیں ہے۔ خرد کا نام جنوں رکھ دیا‘ جنوں کا خرد۔ حضرات گرامی! جو کچھ آپ نے حالیہ انتخابات کے بعد کیا‘ درحقیقت یہی سیاست ہے۔ گندی سیاست کی روایت کو چھوڑتے ہوئے‘ آپ دونوں نے انتخابی نتائج سے شکایت ہونے کے باوجود‘ نتائج کو قبول کر لیا۔ اس لئے کہ دوچار نشستوں سے فرق پڑ بھی جاتا‘ تو فتح و شکست پر اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ بہتر یہی تھا کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے‘ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت سازی کا موقع دیا جائے اور پھر آنے والے 5برسوں میں اسے غیرمستحکم کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور اپوزیشن صرف اصلاح کار کے لئے ہو۔ یہ جو کچھ آپ نے کیا ہے‘ یہی سیاست ہے اور جو کچھ آپ 90ء کے عشرے میں کرتے رہے‘ وہ سیاست نہیں‘ سازش تھی۔اصلی سیاست یہی ہے‘ جو آپ اب کر رہے ہیں۔ قوم جن بحرانوں اور مشکلات سے دوچار ہے‘ اسے ایسی ہی سیاست کی ضرورت ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ سیاست کا وقت نہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد جب دوسری تمام جماعتوں نے مسلم لیگ (ن)کی اکثریت کا حق تسلیم کرتے ہوئے‘ حکومت سازی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی‘ تو جواب میں نوازشریف نے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے جمہوری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے قابل فخر مثال قائم کی۔ سابقہ سازشی طریقے اختیار کئے جاتے‘ تو وہ جوڑتوڑ کر کے خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنا سکتے تھے اور ایسا کرنے کے لئے ان کے دروازے پر تعاون پیش کرنے والے بھی آ گئے تھے۔ مگر انہوں نے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع پیش کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر سیاسی خلوص کا مظاہرہ بلوچستان میں ہوا۔ وہاں بھی نوازلیگ چاہتی‘ تو اپنی حکومت بنا سکتی تھی۔ مگر اس نے خوش اخلاقی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری جماعتوں کو پیش کش کی کہ ان میں سے جو بھی مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل کرسکتا ہو‘ وہ اسے حکومت بنانے کے لئے اپنی جماعت کا تعاون پیش کر دیں گے۔ ان کا یہ ایثار دونوں صوبوں کے عوام کے دلوں کو یقینا متاثر کرے گا۔ استفادہ کرنے والے شکرگزار ہوں نہ ہوں مگر عوام کے دلوں میں نوازشریف کی عزت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہی سیاست ہے۔ کراچی کا مسئلہ بہت الجھا ہوا ہے اور مسائل کی جڑیں‘ افغانستان سے لے کرعراق‘ شام‘ ایران اور تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک تک پہنچی ہوئی ہیں اور ان کے کچھ پنجے امریکہ اور بھارت تک بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن جیسے ہی وزیراعظم نوازشریف نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے قدم بڑھایا۔ سب نے خوش دلی سے تعاون کی پیش کش کی۔ماضی میں یوں ہوتا تھا کہ وفاق کے حکمران اپنے مخالفین کی صوبائی حکومت کو کام نہیں کرنے دیتے تھے۔ بلوچستان میں ایسا کئی بار کیا گیا اور ضیاالحق نے تو سندھ کی صوبائی اسمبلی میں کسی بڑے گروپ کو حکومت دینے کا تکلف ہی نہیں کیا اوراکیلے رکن اسمبلی‘ جام صادق مرحوم کو حکم دیا کہ وہ حکومت بنا کر اکثریت حاصل کر لیں یا اکثریت حاصل کر کے حکومت بنا لیں۔ جام صادق کمال کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے حامیوں کی اکثریت بنانے کی بھی زحمت نہ کی اور مزے سے حکومت چلاتے رہے اور اب اسی سندھ میں پیپلزپارٹی اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت کر رہی ہے‘ تو نوازشریف نے آئینی پابندیاں قبول کرتے ہوئے‘ بطور وزیراعظم اپنا فرض ادا کرنے کی ٹھانی اور قیام امن کے لئے اپنے وسائل صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ یعنی وہ اپنی حریف جماعت کو کراچی آپریشن کی کمان دے کر‘ اسے کامیابی کا موقع دیں گے۔ یہی اصل سیاست ہے۔ رخصت ہونے والے صدر آصف زرداری کو‘ اپنے 5سالہ دور حکومت میں مسلسل اشتعال انگیزیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی گئی اور ان کے خلاف کردار کشی کی خاطر لگائے گئے‘ وہی الزامات دہرائے جاتے رہے‘ جو برسوں مقدمے چلا کر کسی عدالت میں ثابت نہیں کئے جا سکے تھے۔ لیکن انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے‘ ایسے کام کرتے رہے‘ جن کا فائدہ وہ اپنے دور حکومت میں نہیں اٹھا سکتے تھے۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے وہ کام کئے۔ میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ کیری لوگر بل کی منظوری اور نفاذ تھا۔ پاکستان کے وہ حکمران طبقے جو اقتدار کو اپنی میراث سمجھنے لگے تھے‘ انہیں بہت طیش آیا اور ردعمل میں زرداری حکومت کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن وہ ثابت قدم رہے اور شدید تردبائو کے باوجود کیری لوگر بل کی مخالفت سے انکار کر دیا۔ یہ جمہوریت کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کا عملی اظہار تھا۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں امریکی پسند و ناپسند کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس بل کی وجہ سے پاکستانی جمہوریت کو‘ لاحق خطرات میں 80فیصد کمی آ چکی ہے۔ غالب امکان ہے کہ اب جمہوریت محفوظ رہے گی اور نوازشریف خطرے کے بغیر ‘ اطمینان سے حکومت چلا سکیں گے۔ اسی طرح انہوں نے ایران سے گیس درآمد کرنے کا ایسا معاہدہ کر دیا‘ جسے توڑنے کی قیمت شاید ہی کوئی ادا کر سکے۔ نہ پاکستانی حکومت اور نہ معاہدے کے بیرونی مخالفین۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان میں توانائی کے بحران میں جوکمی آئے گی‘ اس کا فائدہ بھی نوازشریف کو ہو گا اور 1973ء کے آئین کی بحالی سے‘ وفاق کو مضبوط کرنے کے لئے‘ جو بنیادیں رکھ دی گئی ہیں‘ ان کا فائدہ بھی نوازشریف ہی اٹھائیں گے۔ حقیقت میں یہ سارے فوائد پاکستان کے ہیں اور یہی اصل سیاست ہے کہ جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اور عوام کے لئے کام کئے جائیں۔ دونوں رہنمائوں سے گزارش ہے کہ اصل میں یہی سیاست کا وقت ہے اور جو کچھ آپ اب کر رہے ہیں‘ یہی سیاست ہے۔ ماضی میں جو کچھ آپ کرتے رہے‘ وہ سیاست نہیں‘ سازش اور ریشہ دوانیاں تھیں۔ توبہ اس سے کریں اور جو سیاست گزشتہ 90دنوں میں‘ آپ نے کی ہے‘ اس پر آپ کو فخر کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی اصل سیاست ہے اور آخری بات‘ صدر اور وزیراعظم دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ’’سیاست ہماری عبادت ہے۔‘‘ اب فرمایا کہ ’’سیاست 5سال بعد کریں گے۔‘‘ تو کیا5سال کے لئے سیاست سے گریز کا اعلان کرتے ہوئے آپ یہ کہہ رہے ہیں؟ ’’ہم عبادت 5سال بعد کریں گے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved