ملک کی سیاسی و غیرسیاسی تاریخ میں کئی لیڈر عوامی مقبولیت کے دعویدار رہے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں واقعی عوام کا پسندیدہ اور مقبول لیڈر کہا جا سکتا ہے۔ پچھلے 50برس میں پانچ قائدین ملک کی سیاسی تاریخ میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سحر سے تعبیر کی جاتی ہے کہ لوگ ان کی طرف دیوانہ وار لپکتے تھے‘ کچھ لوگ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ ملکی سیاست میں جیسی شہرت و مقبولیت بھٹو صاحب کو حاصل ہوئی شاید ہی کسی دوسرے لیڈر کو حاصل ہو سکے۔ بھٹو صاحب کو پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کا خالق بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بھی بانی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جہاں جاتے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہجوم ان کا استقبال کرتا‘ اسی بنا پر انہیں قائد ِعوام کہا جاتا ہے حالانکہ اُس وقت عوام کو متحرک کرنے اور بڑے اجتماعات کرنے کے ایسے ذرائع اور وسائل موجود نہ تھے جیسے آج ہیں۔ آج ایک وڈیو پیغام کے ذریعے عوام کا جمع غفیر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ آج حکومتی وسائل استعمال کرنے کے باوجود ویسا اجتماع کرنا مشکل ہے جیسا اجتماع بھٹو صاحب ایک آواز سے کر لیتے تھے۔ بھٹو صاحب نے ٹرین مارچ شروع کیا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان سٹیشنوں پر جمع ہو کر گھنٹوں انتظار کرتے‘ جہاں سے انہوں نے گزرنا ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاست ذوالفقار علی بھٹو کی مرہونِ منت ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے جلسوں میں برسرعام اس کا اعتراف بھی کرتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی ایک مقبول لیڈر ہیں۔ انہیں دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہوئی اور وہ تین بار وزراتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں کئی کار ہائے نمایاں سر انجام دیے۔ ان کی قیادت میں پاکستان ایٹمی قوت بنا‘ امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے دباؤ اور مالی پیشکش کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کرنے سے نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ موٹرویز کا جال بچھانا‘ توانائی بحران کا تدارک‘ سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبے ان کی پہچان ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ترین لیڈروں میں ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے نہ صرف یہ کہ خود کو سنبھالا بلکہ پارٹی کی مقبولیت میں بھی کمی نہیںآنے دی۔ وہ جہاں جاتیں لوگ انہیں ''بھٹو کی بیٹی‘‘ کے نام سے پکارتے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بینظیر بھٹو کی صلاحیتوں کو سراہا گیا۔ انہیں مسلم دنیا کی پہلی خاتون حکمران ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔پرویز مشرف نے اگرچہ مارشل لاء لگایا لیکن اس کے باوجود عوام کا ایک مخصوص حصہ انہیں پسند کرتا تھا۔ ان کی مقبولیت سرچڑھ کر بولتی رہی‘ یہ سلسلہ مشرف دور کے ابتدائی سات برس تک برقرار رہا۔ پرویز مشرف کی آمریت کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی؛ تاہم ان کے دور میں جو ترقیاتی کام ہوئے یا جو معاشی ترقی ہوئی‘ اس سے انکار ممکن نہیں۔ ملک میں سیٹلائٹ ٹیلی وژن چینلز کا آغاز اور موبائل فونز کے نیٹ ورک مشرف دور میں متعارف ہوئے جس کے بعد مواصلات کا جدید نظام میسر آیا۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا‘ ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دی گئی‘ مکران کا میرانی ڈیم اسی دور میں شروع اور مکمل ہوا۔ مشرف دور میں انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کا قیام بھی عمل میں آیا۔ تعلیم پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) قائم کیا گیا‘ انٹرنیشنل معیار کی 9 انجینئرنگ یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ آئی ٹی انڈسٹری کا قیام عمل میں آیا۔ ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر وجود میں آیا۔ پراپرٹی اور ہاؤسنگ سیکٹر فعال تھا جس سے لوگ خوشحال ہوئے۔ انہی اقدامات کی وجہ سے عوام مشرف کو پسند کرتے تھے۔
عمران خان کا شمار بھی پاکستان کے مقبول لیڈروں میں ہوتا ہے۔ عمران خان نے اگرچہ اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد اپریل 1996ء میں رکھی اور ان کی سیاسی جدوجہد دو دہائیوں پر محیط ہے؛ تاہم انہیں اصل سیاسی مقبولیت اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان جلسہ کے بعد ملی کیونکہ لاہور جلسہ میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد نے تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس کے بعد یہ تاثر ابھرنے لگا کہ تحریک انصاف دو پارٹی نظام کا ایک بہترین متبادل ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں اگرچہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 35نشستیں حاصل کیں اور خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت قائم ہو گئی تھی؛ تاہم عمران خان نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اُس وقت تحریک انصاف کی مقبولیت سرچڑھ کر بول رہی تھی‘ سو عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا مگر بوجوہ یہ احتجاج ثمرآور ثابت نہ ہو سکا۔ اسی دوران جب پاناما لیکس سکینڈل سامنے آیا تو عمران خان یہ کیس عدالت میں لے گئے اور حکومت کے خلاف دوبارہ احتجاجی مہم شروع کر دی۔ اُس وقت چونکہ عمران خان کی صورت میں ایک اچھا متبادل موجود تھا اور عوام دو پارٹی سسٹم کو اجارہ داری سے تعبیر کرنے لگے تھے‘ اس لیے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں کہ عمران خان کو آزما لینے میں کیا مضائقہ ہے۔ عمران خان مقبول لیڈر تھے‘ اسی مقبولیت نے انہیں اقتدار تک پہنچایا۔ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ کیا وہ اب بھی عوام میں اتنے ہی مقبول ہیں ؟ میری رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی کمزوریاں بھی سامنے آ چکی ہیں؛چنانچہ اب صورتحال مختلف ہے‘ عمران خان بہت کچھ کھو چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بہترین متبادل نہیں رہے۔ وہ آزمائے جا چکے ہیں‘اس لیے جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ جہاں باقیوں کو موقع دیا گیا ہے‘ ایک موقع عمران خان کو بھی دے دیں‘ اب وہ لوگ بھی یہ مطالبہ نہیں کر رہے۔ اس وقت سیاسی منظر نامہ کچھ یوں بنتا دکھائی دیتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت مقبول نہیں رہی ہے۔ قومی سیاسی جماعتیں اب علاقائی جماعتیں بن چکی ہیں۔ کوئی بھی جماعت عوام کی حقیقی آواز نہیں بن سکی ہے حتیٰ کہ تحریک انصاف بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سیٹ اَپ اگلے انتخابات میں بنے گا‘ وہ نہایت کمزور ہو سکتا ہے کیونکہ اُس میں متعدد حصے دار ہوں گے‘ جنہیں اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں مل سکے گی۔ جمہوری معاشروں میں یہ عوام کی جانب سے سیاسی جماعتوں پہ عدم اعتماد تصور کیا جاتا ہے۔
ان حالات کے تناظر میں لگتا ہے کہ 11 جنوری کو بھی کچھ بڑا نہیں ہونے جا رہا۔ خان صاحب وقت کے خلاف چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں خان صاحب جو بھی مطالبہ کرتے ہیں‘ اس کا پورا ہونا مشکل ہے۔ جس طرح دیگر مقبول لیڈروں کی مقبولیت میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی آتی رہی ہے‘ اسی طرح خان صاحب بھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے مقبولیت کھوتے نظر آتے ہیں تاہم ابھی تک وہ اس مقبولیت کے سحر سے باہر نکلنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ اگر خان صاحب دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں‘ عوام اور دیگر حلقوں کے لیے دوبارہ قابلِ قبول بننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پاکستان میں ایک طے شدہ عمل موجودہے جس سے پاکستان پیپلزپارٹی دو تین مرتبہ گزری ہے‘ مسلم لیگ (ن) بھی اسی عمل سے گزر چکی ہے‘ خان صاحب کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا خان صاحب دیگر مقبول قائدین کی طرح جیل اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ ہماری ناقص رائے کے مطابق خان صاحب اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت تو واپس لینا چاہتے ہیں مگر وہ اس راہ میں بچھے کانٹے اٹھانے کے لیے شاید تیار نہیں‘ اپنی یہ کمزوری دور کیے بغیر شاید اُن کا دوبارہ مقبول ہونے کا خواب پورا نہ ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved