اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود افغانوں نے بے مثال مزاحمتی جدوجہد کے ذریعے دنیا کی واحد سپرپاور کو جنوبی ایشیا سے نکلنے پہ مجبور کر دیا؛چنانچہ افغانستان میں مغربی طاقتوں کی ذلت آمیز شکست کے احساس کو مٹانے کیلئے عالمی ادارے افغان طالبان کی طرف سے داعش کے خلاف مؤثر کارروائیوں کو تسلیم کرنے کے باوجود اجڑے ہوئے افغانوں کے طرزِ حکمرانی کی خامیاں اجاگر کرنے میں نہایت سفاکی سے کام لیتے ہیں۔ دو عالمی طاقتوں کی فوجی قوت سے نبردآزما ہونے کے علاوہ چالیس سالوں سے کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگیوں کی گود میں پل کر جوان ہونے والے طالبان سے جدید طرزِ حکمرانی کی توقع رکھنا مناسب نہیں۔ طویل جنگوں کے پُرآشوب تجربات اور بقا کے تقاضوں کی وجہ سے افغان تاحال اپنی فرسودہ قبائلی روایات، دیہی ثقافتی اور قدیم تمدنی اقدار کے نفسیاتی حصار سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہو سکے۔ بلاشبہ اندرونی خلفشار اور بیرونی خطرات سے دوچار قوم اسی قسم کے ردِعمل کا شکار بنتی ہیں۔ جنگ کے مسلسل خوف کی بدولت وہ اپنے نسلی اور مذہبی تعصبات کے دائروں میں سمٹ کر تشدد کو گوارا بنا لیتی ہے۔ مغرب کے غیر ہمدردانہ طرزِ عمل کو دیکھ کر افغان حکومت کبھی پردے کی سختیوں اور کبھی عورتوں کی تعلیم وتعلم پر پابندیاں لگا کر لبرل معاشروں کی آسودگی کو متزلزل کرکے باغیانہ مسرت بھی حاصل کرتی ہے۔ دنیا کا رویہ اگر اُس سے ہمدردانہ ہوتا تو اہلِ یورپ بھارت کی مانند انگلی پکڑ کے افغانوں کو جمہوری تمدن اور عہدِ جدید کے رموزِ حکمرانی کی سطح تک لاسکتے تھے مگر افسوس کہ اِس کرہ ارض کی دو بڑی طاقتوں نے گریٹ گیم کے تحت پچھلی ڈیڑھ صدی سے افغانوں کو میدانِ کارزار کا ایندھن بنانے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس لیے وہاں معاشرتی نظام کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ جاتی ڈھانچہ اور پولیس فورس استوار ہو سکی نہ ہی دفاعی نظام کو متشکل کرنے والی منظم فوج کھڑی نظر آتی ہے۔
امریکیوں نے بیس سالوں کی سر توڑ کوشش کے بعد تین لاکھ جوانوں پہ مشتمل نیشنل آرمی بنائی ( کاغذات میں تو یہ تین لاکھ تھی مگر برسرِ زمین فوج کی تعداد سوا لاکھ سے زیادہ نہیں تھی)اعلیٰ پائے کے امریکی ماہرین کی صلاحیتوں کو بروئے کارلانے اور اربوں ڈالرخرچ کرنے کے باوجود بھی وہ اسے پروفیشنل آرمی نہ بنا سکے؛ چنانچہ جونہی نیٹو فورسز نے کابل سے قدم باہر نکالے‘ افغان آرمی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ جس کے بعد افغانستان کے طول و عرض میں پھیلی فوجی چھائونیوں میں بھاری مقدار میں پڑا جدید اسلحہ اور لاتعداد ایمونیشن پر ان عسکری گروپوں نے قبضہ کرکے ایک بار پھر باہمی جنگ و جدل کی پوزیشن اختیار کر لی‘ امریکی ایجنسیوں نے جن کی آبیاری2012ء سے شروع کر دی تھی۔ امریکیوں نے اِسی نیت سے یہاں بھاری مقدار میں اسلحہ اور باورود چھوڑا تھا تاکہ عسکریت پسندوں کے متحارب دھڑے کئی سالوں تک محوِ جنگ رہ سکیں۔
اس وقت داعش افغان دارالحکومت کابل پر ٹارگٹڈ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ جمعہ کے روز داعش نے کابل کی جامع مسجد میں ایک خود کش حملہ کیا لیکن اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود افغان طالبان داعش سمیت کئی عسکری گروپوں کے خلاف مؤثر کارروائیوں میں کامیاب رہے ہیں؛ البتہ امریکہ کے خلاف بیس سالہ جنگ میں ان کی مدد کرنے والے کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈروں بارے ان کا رویہ نرم ضرور ہے۔ دوسرا‘ خود افغان طالبان کی صف اول کی قیادت کے مابین پالیسی امور میں پائے جانے والے اختلافات ریاستی ڈھانچے کے ارتقا کو پابہ زنجیر رکھتے ہیں۔ وزیرخارجہ امیرخان متقی عہدِ جدید کے تقاضوں کے پیشِ نظر عالمی برادری کے ساتھ ہم قدم رہنے اورخواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں جبکہ طالبان کے مرکزی امیرملا ہبۃ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کے لیے جدید تعلیم کو اسلامی اقدار سے متصادم سمجھ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ چنانچہ طالبان کے لیے اپنے داخلی تضادات پر قابو پانا اور طاقتور مسلح گروہوں کو ریاستی نظم و ضبط میں لانا اتنا آسان نہیں، جتنا تھنک ٹینک سمجھتے ہیں۔ اِس کے لیے پڑوسی ممالک بالخصوص اور مسلم دنیا کو بالعموم افغانوں کی دستگیری کرنا پڑے گی۔ پاکستان فطرتاً پڑوسی ملکوں کے داخلی انتشار سے لاتعلق نہیں رہ سکتا لیکن افسوس کہ کل تک جو تھنک ٹینک ہمیں سمجھاتے تھے کہ پاکستان کی سلامتی افغانستان کے امن کے ساتھ جڑی ہے‘ آج وہی ہمیں طالبان کے افغانستان میں ممکنہ طور پر ابھرنے والی بدامنی اور انتشار کی اُن لہروں سے لاتعلقی کا مشورہ دے رہے ہیں جو ہمارے خرمن کو جلانے کے لیے لپک سکتی ہیں۔
افغانستان کی اِس نازک صورت حال کا امریکیوں سے زیادہ اور کس کو ادراک ہو گا ؟ لیکن وہ افغان عوام کو خانہ جنگی کے ایک اور جہنم میں جلا کر اپنی دردناک پسپائی کی آتشِ انتقام کو بجھانے پر مصر نظر آتے ہیں۔ تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے‘ دہشت گردی کی جنگ کے دوران ہمارے جن مغربی اتحادیوں نے پاکستانی ریاست کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود ہمیں دوحہ معاہدے سے الگ رکھا اور اپنی بیس سال پہ محیط ناکام جنگ کے سارے مضمرات ہماری جھولی میں ڈال کر خود دامن جھاڑ کر نکل گئے‘ وہی امریکی اب عالمی اور مقامی تنظیموں کے ایک ہاتھ میں امن کے جھنڈے اور دوسرے میں نصیحت کے کوڑے تھما کر ہمیں افغانستان میں پنپنے والی القاعدہ اور داعش جیسی اُن مہیب تنظیموں کے قلع قمع کے طریقے بتانے آ ن پہنچے ہیں جنہیں وہ خود پوری قوت استعمال کرنے کے باوجود بیس سال میں ختم نہیں کر پائے۔ مہذب دنیا اگر مغرب کے ستم گروں کی ہاتھوں برباد ہونے والے مظلوم افغانوں کی چارہ گری نہیں کر سکتی تو بھونڈے انداز میں انہیں مفاہمت کا آرٹ سمجھانے اور قیامِ امن کی راہیں دکھانے کے بجائے ان کے حال پہ چھوڑ دیتی‘ تو بھی یہ افغانستان کے لیے بہتر ہوتا۔
بلاشبہ سرحد پار سے پھوٹنے والی دہشت گردی کی تازہ لہر‘ جس میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو بالخصوص ہدف بنایا جا رہا ہے‘ علاقائی امن کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، شاید اسی لیے وزیرداخلہ نے پڑوسی ملک کے حکمرانوں پر زور دیا کہ وہ افغان سر زمین سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف اپنے عہد و پیماں کا احترام کریں۔ چونکہ کالعدم تنظیم کے کئی کمانڈر افغانستان میں پناہ لیے بیٹھے ہیں‘ اس لیے ٹی ٹی پی کی طرف سے تشدد کی تازہ وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے پاک افغان تعلقات متاثر ہوں گے۔ اسی لیے وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنا افغان حکومت کیلئے بھی باعثِ تشویش ہونا چاہیے کیونکہ طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، انہیں اپنے وعدے نبھانا ہوں گے۔ تاہم افغان طالبان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی یا کسی دوسرے گروپ کو سرحد پار دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کیلئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ایسے جرائم کے مرتکب ہر شخص کے خلاف کارروائی کریں گے۔ سرحدی علاقوں میں برسرِپیکار ایجنسیزکے درمیان کوآرڈی نیشن کے فقدان کی وجہ سے بھی کئی مسائل جنم لینے لگے ہیں جبکہ اِن کے برعکس دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں میں حیرت انگیز باہمی ربط موجود ہے، جسے اغوا برائے تاوان، منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ سے منسلک ایک مضبوط جنگی معیشت لاجسٹک فراہم کر رہی ہے اور جرائم کی یہی جدلیات فورسز پر حملوں کا محرک بنتی ہیں ۔ اگر ہمارے اربابِ بست و کشاد دہشت گردی کے تدارک اور سرحدی امور کی نگرانی کرنے والی سبھی ایجنسیوں کی مساعی کو نیکٹا کے تحت مربوط انداز میں بروئے کار لا سکیں تو انہیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ بعض لوگ کائونٹرٹیررازم کے امور میں سویلین ایجنسیوں پر بھروسہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں حالانکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں تمام سویلین اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز کی مساعی میں ربط پیدا کرکے کراچی جیسے متنوع شہر میں مذہبی، نسلی اور لسانی دہشت گردی پہ نہایت کامیابی سے قابو پا لیا گیا تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved