وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے 22 دسمبر کو لاہور میں گورنر ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایوانِ صدر میں براجمان صدرِ مملکت کے ذریعے کسی صوبے کے گورنر کو برطرف کرنے کی باتیں کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ صدرِ مملکت کے چہرے پر اگر کوئی مکھی آ کر بیٹھ جائے تو صدر صاحب وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر اس کمزور سی مکھی کو بھی ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ رانا صاحب کا کہنا تھا کہ صدر کا کسی گورنر کو برطرف کرنا تو دور کی بات‘ وہ گورنر ہائوس کے بیرونی دروازے سے وفاقی حکومت اور وزیراعظم کی اجازت کے بغیر داخل بھی نہیں ہو سکتے۔ اپنے ملک کے صدر کے بارے میں وزیر داخلہ کے ارشادات سن کر ایسے لگا کہ یہ کسی سیاسی و ریاستی منصب نہیں بلکہ کسی ڈرامے اور تھیٹر کے اداکار کی بات ہو رہی ہے جو محض دکھاوے کے لیے صدر یا کسی اور اعلیٰ ریاستی عہدے کا ڈھونگ رچا کر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ بے اختیاری اور لاچاری ہی تھی جس کی وجہ سے ہمارے گوگا دانشور نے صدرِ مملکت کے الیکشن میں حصہ لینے اور اس پر پیسہ خرچ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنی مارکیٹ کا الیکشن لڑ کر اس کے صدر بن جائیں۔ اس کا ایک ہلکا سا اندازہ بنوں میں دہشت گردی سے زخمی ہونے والوں کی عیادت کے مناظر سے ہو گیا۔ وزیراعظم اور صدرِ مملکت نے علیحدہ علیحدہ زخمیوں کی عیادت کی‘ ان دونوں کے عیادت کرنے کے منا ظر دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ رانا صاحب کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ گو کہ آئینی طور پر صدر افواجِ پاکستان کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے مگر اختیارات کے معاملے میں شاید ہی صدر سے کمزور کوئی آئینی عہدہ ہو۔ جب صدر عارف علوی نے بحیثیتِ صدر پاکستان اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو ایوانِ صدر کیلئے تحریک انصاف نے 992 ملین روپے کا بجٹ مختص کیا۔ غالباً اپنے اختیارات کے پیشِ نظر ہی صدر صاحب نے حکومت سے استفسار کیا کہ بے اختیار صدر کے لیے قوی الجثہ بجٹ کی کیا ضرورت ہے؟ اور پھر صدر علوی نے اس بجٹ کو کم کر کے597 ملین کرنے کی درخواست کر دی۔ دیکھا جائے تو ایک مکھی کو مارنے کیلئے یہ بجٹ بہت زیادہ ہیں۔ اگر صدر کا عہدہ برائے نام ہے تو ملک و قوم کا کثیر پیسہ اس رسمی سے عہدے کی نذر کیوں کیا جا رہا ہے؟
مکھی سے یاد آیا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما اور مکھیوں کا کافی گہرا تعلق رہا ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے ملک امریکہ کے صدر براک اوباما 2009ء میں ایک امریکی ٹی وی کو واشنگٹن میں انٹرویو دے رہے تھے تو اس دوران ایک مکھی انہیں ستانے لگی۔ کبھی وہ امریکی صدر کے چہرے پر بیٹھتی‘ کبھی ناک کے پاس آ کر بھنبھنانے لگتی۔ صدر اوباما نے کسی رو رعایت یا ادب آداب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مناسب موقع کا انتظار کیا اور پھر دورانِ انٹرویو ہی ستانے والی مکھی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے۔ یہ واقعہ خاصا وائرل ہوا اور پوری دنیا میں کروڑوں افراد نے اسے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔ مگر یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ چار سال بعد امریکی مکھیوں نے اپنی ساتھی کے قتل کا بدلہ صدر براک اوباما سے اُسی وائٹ ہاؤس میں لیا جہاں ان کی ایک ساتھی کا پہلے سیاہ فام امریکی صدر نے دنیا کے سامنے قتل کیا تھا۔ اس بار مکھیوں نے صدر اوباما کو ستانے کے لیے ایک انتہائی تیز طرار مکھی کو بھجوایا۔ امریکی صدر اوباما امریکی سٹاک ایکسچینج اور سکیورٹی کمیشن کی سربراہ کے دفتر میں بیٹھے ایک نئی تقرری کا اعلان کر رہے تھے تو ایک مہم جو اور منتقم مزاج مکھی نمودار ہوئی۔ مکھی ڈرون کی طرح اپنے ہدف یعنی صدر اوباما کی جانب بڑھی لیکن انہوں نے اسے ہاتھ سے دور بھگا دیا؛ تاہم اگلے ہی لمحے امریکی صدر کو چکما دے کر مکھی دوبارہ نمودار ہوئی اور سیدھی صدر اوباما کی چوڑی پیشانی سے جا ٹکرائی اور وہاں چند ثانیے تک چپکی رہی تاکہ ٹی وی کیمرے ''مکھیوں کا انتقام‘‘ براہِ راست دیکھ سکیں۔ صدر اوباما نے کئی بار اسے ہٹانے کی کوشش کی لیکن مکھی نے اس کا کوئی اثر نہ لیا۔ زچ ہو کر امریکی صدر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ مکھیوں نے انہیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ صدر اوباما نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں مکھی کا 'قتل‘ کیا جبکہ مکھیوں نے دوسری مدتِ صدارت میں ان سے حساب برابر کیا۔
بات ہو رہی تھی صدرِ مملکت کے اختیار اور مکھی کی۔ اگر پاکستان کی چار صوبائی اسمبلیوں کے منتخب اراکین اور پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کا منتخب کردہ شخص اس قدر بے اختیار ہوتا ہے کہ اپنے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھی کو اڑانے کیلئے بھی وزیراعظم کی اجازت کا منتظر ہوتا ہے تو کیا یہ ان چھ ایوانوں کی توہین نہیں؟ یہاں قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت شہاب نامہ کا وہ حصہ یاد آ گیا کہ جب بحیثیت ڈپٹی کمشنر شہاب نے ایک بڑھیا کی زمین کے وہ معاملات‘ جو وہ صدرِ پاکستان سے لے کر صوبے کے حاکموں تک‘ کئی برسوں سے لیے پھر رہی تھی‘ چند دنوں میں ہی حل کرا دیے تو اس نے دونوں ہاتھ اور جھولی اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے رب کریم سے دعا مانگی ''یا اللہ اس ڈپٹی کمشنر کو پٹواری لگا دے‘‘۔ آج اس بڑھیا کی دعا ایک مثال بن چکی ہے۔ صدر کے اختیارات کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں پیپلز پارٹی کے صدر فضل الٰہی چودھری کا وہ لطیفہ یاد آ جاتا ہے جو اب اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ کسی کی بے چارگی یا بے اختیاری کی مثال دینے کے لیے اسے بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ لطیفہ کہئے یا قصہ‘ یوں ہے کہ 1976ء میں راولپنڈی میں واقع ایوانِ صدر کی بیرونی دیوار پر کسی نے لکھ دیا کہ ''صدر کو رہا کرو‘‘۔ حکومت اس پر پریشانی کا شکار ہوئی مگر اس نے نعرے پر سفیدی پھیر کر اسے مٹا دیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ انتظامیہ اس نعرے پر سفیدی کراتی لیکن اگلی صبح جب سب اٹھ کر دیکھتے تو وہ نعرہ پھر سے لکھا ہوا پاتے جس پر ایک خفیہ ادارے نے ایک رات گھات لگا کر نعرہ لکھنے والے کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا پروگرام بنایا۔ رات گئے انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے چہرے کو چادر میں چھپائے دیوار پر کچھ لکھ رہا تھا۔ پولیس اہلکار چپکے سے آگے بڑھے اور اس شخص کو دھر لیا۔ جب اس کے چہرے سے چادر ہٹائی گئی تو سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ نعرے لکھنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت کے صدر فضل الٰہی خود تھے۔ اس لطیفے سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ اس ملک میں آمرانہ صدور کے علاوہ سبھی جمہوری صدور ہمیشہ لاچار اور بے اختیار ہی رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ رانا صاحب کی بات سن کر صدر عارف علوی اپنی پارٹی کے چیئرمین سے یہ مطالبہ کر دیں کہ اگلی بار انہیں صدر کے بجائے کسی صوبے کا گورنر لگا دیا جائے تاکہ وہ مکھی اڑانے کے لیے بھی وزیراعظم کی ایڈوائس کا انتظار کرنے کے بجائے صوبے کی چلتی بھاگتی حکومت کو قلم کی ہلکی سی جنبش سے ہی برخاست کر سکیں۔ شنید ہے کہ جب سے وزیر داخلہ کے ارشاداتِ گرامی میڈیا کے ذریعے زبان زد عام ہوئے ہیں‘ ملک بھر کے دفاتر کی یونینز کے صدور نے اپنے محلوں‘ بالخصوص سسرال وغیرہ میں اکڑی ہوئی گردنوں سے جانا شروع کر دیا ہے کہ وہ صدرِ مملکت تھوڑی ہیں‘ جو بے اختیار ہو‘ اور جو ایوانِ صدر میں داخل ہونے والی کسی مکھی کو اڑانے کے لیے بھی وزیراعظم کی اجازت کا منتظر ہو‘ ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی یونین کے صدر ہیں جو ایک منٹ میں حقہ پانی بند کرا سکتے ہیں۔ اسے اپنے سیاسی نظام کی بد قسمتی کہہ لیجئے کہ 1935ء کے انڈیا ایکٹ کے تحت ہی نوزائیدہ مملکت کا عبوری نظام تشکیل پایا جو آج تک چلا آ رہا ہے۔ اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ پاکستان کو ایک ایسا مضبوط جمہوری ڈھانچہ فراہم کیا جائے جس سے پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکے لیکن وہ اپنی جان لیوا بیماری اور جلدی رحلت کی وجہ سے اس مقصد کو پورا نہ کر سکے اور ان کی وفات کے بعد حکومتی ایوانوں میں ایسا کھیل شروع ہوا جو میوزیکل چیئر کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ پہلے صدارتی‘ پھر پارلیمانی نظام اور پھر مارشل لاء‘ کیا کیا تجربے نہیں کیے گئے۔ اب تک13 صدور اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں جن میں سوائے رفیق تارڑ، ممنون حسین اور ڈاکٹر عارف علوی کے‘ باقی سب مکھی تو کیا بھاری بھرکم مینڈیٹ والی حکومتیں بھی ایک ہلکی سی جنبش سے اڑا کر رکھ دیتے تھے۔ شاید یہ کسی وزیراعظم کی مانگی ہوئی دعائوں ہی کا اثر ہے کہ آج صدر کو اس قدر بے اختیار بنا دیا گیا ہے کہ وہ ایک مکھی کوبھی اڑانے کی سکت نہیں رکھتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved