وہ ممالک جن میں دہشت گردی ہوتی ہے، ہر روز انسان موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں۔ ہنستے بستے شہر چند برسوں میں اجڑی بستیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ العیاذباللہ‘ روز ایک نیا ماتم،روز ایک نیا فساد! یوں لگتا ہے پورا ملک قتل گاہ بن گیا ہے۔ سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارک کے مصداق‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ مارنے والے کو پتا نہیں ہوگا کہ وہ کیوں مار رہا ہے اور مرنے والے کو خبر نہ ہوگی کہ وہ کیوں قتل ہو رہا ہے۔ میرا ملک بھی ایسی ہی قتل گاہوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ ہم ہر روز اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں‘ کبھی اس پر قابو پانے کے لیے طاقت استعمال کرتے ہیں اور کبھی اس سے مذاکرات کرنے کے لیے کوشا ںہوجاتے ہیں۔ وائے افسوس! ہمیں اس طرف کامیابی ملتی ہے نہ دوسری طرف۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شروع دن سے ہی اپنے دشمن کی پوری طرح شناخت نہیں کی۔ یہ دشمن وہ ہے جس کے بارے میں میرے آقاﷺ نے فرمایا تھا کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قیامت تک اللہ نے اس سے بڑا فتنہ پیدا نہیں کیا۔ آپ تشہد یعنی التحیات کے آخر میں اکثر اللہ سے مسیح دجال کے فتنے سے پناہ کی دعا مانگتے تھے۔ جو ںجوں وہ وقت قریب آ رہا ہے‘ دجالی نظام کی طاقت میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نظام ٹیکنالوجی کا پُرکشش بت تخلیق کر چکا ہے جس کے پجاری دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں۔ اُس کے سامنے سجدہ ریز ہونے والے انسانوں کی کمی نہیں۔ گزشتہ صدی ایسے جنگی ہتھیاروں کی ترقی و ترویج کی صدی تھی جنہیں انسانی آنکھ دیکھ سکتی تھی… بارود، بم، بندوق، آتشیں گولے، ٹینک، جہاز، میزائل یہاں تک کہ ایٹم بم۔ یہ سب کے سب چلتے نظر آتے تھے۔ جس کے ہاتھ میں یہ ہتھیار ہوتے اس کی طاقت کا رعب قائم ہو جاتا۔ اس کے عزائم بھی واضح طور پر دکھائی دیتے تھے۔ بیسویں صدی میں کروڑوں لوگ اس سائنسی ترقی سے موت کے گھاٹ اتر گئے، علاقے برباد ہوئے، قومیں زیر نگیں ہوئیں… مظلوموں کو ظالم کا اندازہ تھا؛ چنانچہ اس سے نفرت کی فضا قائم رہی۔ ایک واضح جنگ تھی اور محسوس کیے جانے والے ہتھیار! گزشتہ دو دہائیوں سے قوموں کو برباد اور انہیں مفلوج کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی وجود میں آئی ہے۔ انسانوں کو پاگلوں، قاتلوں اور خونی درندوں کے جم غفیر میں تبدیل کرنے کا غیر محسوس ہنر ایجاد کیا جا چکا ہے جو پچھلی صدی میں خواب لگتا تھا۔ نئی ٹیکنالوجی سے تیار ہونے والے ہتھیاروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: Sonic یا Ultrasonic ہتھیار اور مائیکروویو (Microwave) ہتھیار۔سونک یا الٹراسونک وہ ہتھیار ہیں جن میں آواز کی لہروں سے دشمن کو زخمی، مفلوج یا قتل کیا جاسکتا ہے۔ شدید قسم کی آواز کی لہروں سے آدمی کے کانوں کے پردے پھاڑے جا سکتے ہیں، شدید درد پیدا کیا جاسکتا ہے یا پھر اردگرد کے ماحول سے لاتعلقی اور بے خبری کی کیفیت طاری کی جا سکتی ہے۔ ان میں کم دوری‘ متوسط دوری اور وسیع علاقے پر اثر انداز ہونے والی آ واز کی لہریں بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ بحری جہازوں میں استعمال ہوتی ہیں جو قزاقوں کو دور رکھنے کے لیے کارگرہوتی ہیں اور کچھ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں استعمال کی جاتی ہیں تاکہ لوگ وہاں پریشانی اور گھبراہٹ محسوس کریں اور وہاں سے جلدی نکل جائیں۔ بیس سال کی عمر کے نوجوانوں کو مضطرب کرنے کے لیے 20کلو ہرٹز کی تیز قسم کی الٹراسائونڈ آواز چھوڑی جاتی ہے۔ اس طرحAcoustic ہتھیاروں کے ذریعے انسانی دماغ پر ایسے مستقل حملے کیے جا سکتے ہیں جن سے جسمانی درد، سانس لینے میں مشکل، چکر آنا، متلی، بے چینی اور دل کے نظام کی خرابی، پھیپھڑوں کی تکلیف کے علاوہ کئی اسی قسم کی کیفیات پیدا کی جا سکتی ہیں۔ یوں تو انہیں کم خطرناک ہتھیاروں کی قسم میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ان کا استعمال انتہائی خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہیں استعمال کرنے والا اور ہتھیار دونوں پوشیدہ رہتے ہیں۔ دوسری ٹیکنالوجی مائکروویو کا استعمال ہے۔ یوں تو یہ انتہائی کار آمد چیز سمجھی جاتی ہے کہ اس سے چند سیکنڈ میں کھانا گرم ہو سکتا ہے‘ لیکن اس ٹیکنالوجی سے بنائے گئے ہتھیار جو اس وقت استعمال ہو رہے‘ ان کا اثر دنیا بھر میں اس قدر خوفناک ہے کہ ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ 2001ء میں امریکہ نے Active Denial System کے نام سے ہتھیاروں کی ایک ایسی قسم کا استعمال شروع کیا جو دو سیکنڈ میں اپنے اردگرد انسانی جسم کے درجہ حرارت کو 54ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچا سکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کے بارے میں رابرٹ بیکر نے اپنی کتاب ’’Cross Current‘‘ میں تفصیل سے درج کیا ہے۔ یہ اتنے تباہ کن ہتھیار ہیں کہ کسی قوم کو ختم کرنے کے لیے ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ اس تکنیک سے ایکHigh Power pulsed Microwave (HPM) شعاعیں پیدا کی جاتی ہیں جو 1200میگا ہرٹز سے 35گیگا ہرٹز تک ہوتی ہیں اور جن کی طاقت ایک ہزار میگاواٹ تک ہوتی ہے۔ یہ ہتھیار مختلف مواقع پر ہجوم کو کنٹرول کرنے، دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے، سکیورٹی کی صورت حال اور فوجی تنصیبات کے تحفظ کے لیے استعمال ہو چکے ہیں۔ یہ ہتھیار ایک بڑے شہر یا علاقے پر حملہ کرنے کے لیے بھی تیار کیے جا چکے ہیں۔ ان میں خطرناک ترین ہتھیار یا تکنیک یہ ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو‘ جسے آپ نے گرفتار کر رکھا ہے‘ بے ہوشی کا ٹیکہ لگا کر آپریشن روم میں لے جاتے ہیں اور پھر Cosmetic سرجری کے ذریعے اس کی کھال کے اندر ایکElectrod پلیٹ کان کے پاس لگا دیتے ہیں اور دوسری پلیٹ کھوپڑی میں اس حصے کے پاس لگادیتے ہیں جہاں گفتگو کے مراکز ہوتے ہیں۔ یہ دونوں پیغامات دینے اور پیغامات حاصل کرنے والے آلوں کے طور پر کام کرنے والے ٹرانسمیٹر ہوتے ہیں اور EEGمائکرو ٹیکنالوجی سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ یوں اس شخص کے ہر قسم کے خیال کو پڑھا جا سکتا ہے جسےThought Reading کہتے ہیں۔ اس کے بعدThought Inserting یعنی اپنے من پسند خیالات کو دماغ تک پہنچانا، ہدایات دینا اور پھر اس کے ذریعے جسم کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے۔ یوں آپ کسی بھی ایسے شخص کو کچھ عرصہ اپنی قید میں رکھ کر یہ سارا آپریشن کرنے کے بعد تندرست ہونے پر رہا کر سکتے ہیں۔ وہ واپس اپنے علاقے میں چلا جاتا ہے اور پھر وہ ایک روبوٹ ہوتا ہے جو بس آپ کے حکم پر عملدرآمد کرتا ہے۔ آپ ا ندازہ کریں کہ اس وقت کتنے ایسے لوگ ہیں جو گوانتا ناموبے، بگرام اور دیگر جیلوں سے رہا ہوئے اور واپس اپنی تنظیموں میں جاکر سرگرم ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ کس کے کنٹرول میں ہوں گے؟ ان کے خیالات کس طرح اس ٹیکنالوجی کے ذریعے بدل چکے ہوں گے؟ کس طرح ان کو دھماکوں ، خودکش حملوں اور قتل و غارت پر مجبور کیا جاتا ہوگا؟ یہ ایسی ٹیکنالوجی ہے جو اصل میں سی آئی اے، فری میسن اور الومنائی جیسی خفیہ تنظیمیں اپنے کارکنوں کو ہپناٹزم کے ذریعے سے ایک روبوٹ بنانے کے لیے استعمال کرتی تھیں ۔ پھر ان کو دماغ کی لہروں سے پیغام رسانی کر کے کام لیتی تھیں۔ یہ سب کام انسانوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو رہا ہے۔ کون جانتا ہے کہ طالبان یا القاعدہ میں کون سے ایسے لوگ ہیں جو امریکی جیلوں سے رہا ہو کر آئے ہوں اور ان کاذہن ، حرکات، گفتگو سب کی سب امریکیوں کی دسترس میں ہو۔ اسی لیے آج تک ڈرون حملوں میں کوئی ایسا شخص ہدف نہیں بنایا گیا جو وہاں کی جیلوں سے رہا ہوا ہو کیونکہ ایسے شخص ان کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی پر جس تیز رفتاری سے کام ہو رہا ہے وہ اشارہ کرتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب آخری بڑی جنگ ہوگی جس میں دجال ا پنی تمام ترقوت کے ساتھ سامنے آئے گا۔اس کے لیے دجالی نظام مستحکم تر ہوتا جار ہا ہے۔ کروڑوں ایسے پرستار ہیں جو ہر روز ٹیکنالوجی کو سجدہ کرتے اور اپنا ایمان بیچتے ہیں۔ رات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور صبح ٹیکنالوجی کے خادم بن جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مصداق صبح کافر اور رات کومسلمان۔ لیکن یہ جنگ تو فرزانوں اور دیوانوں نے جیتنی ہے۔ مثال دیکھئے کہ ابراہم ٹینک امریکہ کا سب سے اہم ٹینک ہے جو اپنے گرد ایک مقناطیسی حصار رکھتا ہے۔یہ حصار دور سے آنے والے میز ائل کو واپس کر سکتا ہے ،لیکن طالبان ایک پٹرول بم‘ جو دیسی ساخت کا ہوتا ہے‘ اس کے اس پائپ میں نشانہ باندھ کر پھینکتے ہیں جہاں سے گیس خارج ہو رہی ہوتی ہے اور ٹینک جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔ بلٹ پروف گاڑی کئی سو میل کی رفتار سے آنے والی گولی کو روک لیتی ہے کہ وہ اسی کے لیے تیار کی گئی ہے، لیکن پتھر یا اینٹ سے اُس کا شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی اس طاقت کو افغانستان میں اللہ نے اپنی نصرت سے چکنا چور کیا‘ صرف اس لیے کہ وہاں کے لوگوں نے ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار کر دیا۔ اس انکار میں نجات ہے، اسی میں فلاح ہے، ورنہ جب تک اس بت کو سجدہ کرتے رہو گے وہ تمہارے شہر ، گھر، محلے اورعلاقے اجاڑ تا رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved